۷ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۷ شوال ۱۴۴۵ | Apr 26, 2024
News ID: 372605
21 ستمبر 2021 - 23:53
پیاده روی زائران اربعین در مسیر کربلا - ۲

حوزہ/ اگر آج اربعین کو عالمی میڈیا دنیا کے سامنے پیش کرے تو اس کا دنیا میں ایک الگ ہی اثر ہوگا، اوراگر عالمی میڈیا پیش نہ بھی کرے تب بھی انشاءاللہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے اس کی حقیقت سامنے آئے گی۔

تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی

حوزہ نیوز ایجنسیامام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي زِيَارَةِ قَبْرِ الْحُسَيْنِ مِنَ الْفَضْلِ لَمَاتُوا شَوْقا"
(کامل الزیارات ص142 ناشر۔ دارالمرتضویہ نجف اشرف)
"اگرلوگوں کو پتہ چل جائے کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی کیا فضیلت اور مرتبہ ہے تو زیارت کے شوق میں مر جاتے"
واقعا اگر کوئی یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ لوگ کس طریقہ سے امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئے تڑپتے ہیں اور ان کے اندر کتنا شوق پایا جاتا ہے تو  اسے خدا سے دعا کرنا چاہیئے کہ خدا اسے  امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی توفیق دیدے خاص طور سے اربعین میں امام علیہ السلام کی زیارت کی توفیق عطا کر دے۔ 
اربعین کے سلسلہ سے جتنا بھی لکھا جائے اور بیان کیا جائے کم ہے بلکہ ایسے ہی ہے جیسے سمندر کے پانی کے مقابلہ میں ایک قطرہ، اس لئے کہ اربعین ایک ایسا اجتماع ہے جسے عقل انسان بھی آسانی سے سمجھ نہیں سکتی، وہ جگہیں جہاں پہ عقل کام نہیں کرتی اور عقل کی درک ان تک نہیں پہونچ سکتی اور عقل کے ذریعہ سے جنھیں ثابت بھی نہیں کیا جا سکتا جیسے، برزخ، معاد اور قیامت وغیرہ، اسی طریقہ سے اربعین کو بھی عقل کے ذریعہ سے ثابت نہیں کیا جا سکتا اس لئے کہ اربعین ایک ایسا موقع ہے جہاں پہ دنیا والوں کی عقلیں حیران و پریشان ہیں اور لوگ مبہوت ہو جاتے ہیں کہ آخر یہ اربعین ہے کیا، کہ لوگ جس میں جانے کے لئے بیتاب وبے قرار رہتے ہیں اور ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے آمادہ رہتے ہیں، اربعین حسینی میں ہر چیز غور کرنے اور توجہ کرنے کی ہوتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ  انسان کے لئے درس بھی ہوتی ہے، لیکن اگر یہ کہا جائے کہ جو چیز اربعین کی روح اور جان ہے وہ مشی (پیدل چلنا) ہے ویسے تو جو مومنین زمینی راستہ سےجاتے ہیں جیسے ایران، پاکستان اور دوسرے ممالک کے لوگ ان کی زحمت تو ان کے گھر سے نکلتے ہی شروع ہو جاتی ہے خاص طور سے جب باڈر پہ پہونچتے ہیں، اس لئے کہ باڈر پہ گھنٹوں صف میں کھڑے ہونا اور دوسری چیزوں کی مشقتوں کو برداشت کرنا آسان نہیں ہوتا، بہت ہی صبرو حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے، اور اربعین کا سفر صبروحوصلہ اور عزم وارادہ ہی کا سفرہے،
((اگر چہ اس سال ابھی تک زمینی راستہ کھلا نہیں ہے لیکن ہماری دعا یہی ہے کہ خدا کرے زمینی راستہ کھل جائے تاکہ جانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو جائے اس لئے کہ ہوائی راستہ سے ہر کوئی نہیں جا سکتا ہے، اور ویسے بھی زمینی راستہ کا اپنا ایک الگ مزہ ہے اگر چہ زحمت و مشقت بھی زیادہ ہے))
یہاں پر جو پیادہ روی (پیدل چلنا) مراد ہے وہ نجف اشرف سے کربلائے معلی تک جاناہے 
واقعا اس پیادہ روی میں کیسا مزہ، کتنا عشق، کتنی معرفت، کس قدر درس و عبرت، آزمائش و امتحان، عزم وحوصلہ اور جوش و ولولہ  پایا جاتا ہے، اس چیز کو بیان کرنا سخت ہے لیکن حس کرنا زیادہ آسان ہے، اور اگر انسان خود اس میں شرکت کرے تو بہتر طریقہ سے اس کو درک کر سکتا ہے، اگر ذرا سا بھی معرفت اور ایمان اس کے اندر پایا جاتا ہوگا تو محسوس کر لے گا یہ پیدل چلنا کتنی بڑی توفیق اور سعادت کی بات ہے، اور کتنے زیادہ درس ہیں اس پیدل چلنے میں، یہ پیدل چلنا ایک بہترین موقع اور فرصت ہوتی ہے انسان کو اپنے آپ کو سنوارنے اور نکھارنے کا، پیادہ روی بہترین موقع ہےتزکیہ نفس، عفو و درگذر، ایثار و اخلاص و بندگی، عرفان و سیرو سلوک، گناہوں سے توبہ کرنے، اور حسینی بننے کا، اس لئے کہ تقریبا پوری دنیا کے لوگ اس میں جمع ہوتے ہیں، جس طریقہ سے لوگ ملک اور سرزمین کے اعتبار سے جدا ہوتے ہیں اسی طریقہ سے تہذیب و ثقافت اور کلچر کے اعتبار سے بھی ایک دوسرے سے جدا اور الگ ہوتے ہیں، اس کے باوجود بھی کسی طرح کا اختلاف دیکھنے کو نہیں ملتا، آج دنیا میں دوسری قومیں اور دوسرے مذہب وملت کے لوگ پروگرام کرتے ہیں اور بعض کے یہاں پیدل چلنا بھی ہے لیکن اس پیدل چلنے میں کیا کیا نہیں کرتے، فتنہ و فساد قتل و غارت گری سب کچھ کرتے ہیں دین اور  مذہب کے نام پہ، لیکن ہماری جانیں قربان ہو جائیں امام حسین علیہ السلام کے عاشقوں پہ کہ ذرا سا بھی دوسروں کو اذیت نہیں ہونے دیتے بلکہ دوسروں کی مدد اور خدمت ہی کرتے ہیں خود کو اذیت و پریشانی ہو تو کچھ نہیں کہتے لیکن دوسروں کو پریشان نہیں کرتے اور ہونا بھی یہی چاہیئے، لیکن دوسرے مذاہب میں عام طور سے جو پیادہ روی ہوتی ہے اس میں فتنہ  و فساد، بے حیائی و بے غیرتی و اور قتل و غارت گری ہوتی ہے، کہتے ہیں کہ اس میں جو شرکت کرنے والے ہوتے ہیں وہ جاہل، گنوار، بے ادب و بے تربیت ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے ساری مشکلیں پیش آتی ہیں، لیکن اربعین میں پیادہ  روی کرنے کے لئے بڑے بڑے لوگ اور بڑی بڑی شخصیتیں شامل ہوتی ہیں، اور جو جتنی بڑی شخصیت ہوتا ہے وہ اتنا ہی زیادہ متواضع اور معرفت سے سرشار ہوتا ہے، اور جو لوگ کسی مشکل کی وجہ سے شامل نہیں ہوپاتے وہ حسرت کرتے ہیں کہ کاش ہم بھی شامل ہوتے، رہبر انقلاب اسلامی ایران جیسی شخصیت حسرت کرتی ہے کہ کاش ہم بھی اس عظیم نعمت میں شرکت کرتے۔ 
واقعا اربعین کی یہ پیادہ روی، پیدل چلنا، ایک عظیم سرمایہ اور بہت بڑی نعمت ہے جسے خدا نے ہم کو عطا کیا ہے، ویسے تو تقریبا پوری دنیا اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور وہ خاص طور سے دیکھنا چاہتے ہیں کہ آخر یہ اربعین ہے کیا اسے دیکھیں تو سہی، اس عظیم نعمت اور توفیق کے لئے جتنا بھی خدا کا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس نے شیعیان اور محبان اہل بیت(ع) کو اس عظیم نعمت سے نوازا ہے۔
اگر آج اربعین کو عالمی میڈیا دنیا کے سامنے پیش کرے تو اس کا دنیا میں ایک الگ ہی اثر ہوگا، اوراگر عالمی میڈیا پیش نہ بھی کرے تب بھی انشاءاللہ ایک دن پوری دنیا کے سامنے اس کی حقیقت سامنے آئے گی، اس لئے کہ یہ سفر اپنی حیثیت اور انداز کے اعتبار سے بالکل منفرد اور اپنے آپ میں انوکھا ہے، جس کے اوپر دنیا کی کسی چیز کا اثر نہیں پڑتا بلکہ پوری دنیا کے اوپر خود اس کا اثر پڑتا ہے، نہ پیسہ کی کمی کا، نہ موسم کا، موسم سرد ہو یا گرم، بارش ہو یا دھوپ کسی چیز کا بھی کوئی خاص اثر نہیں ہوتا، تین سال پہلے جس دن پیادہ روی شروع کی تھی موسم بارش کا تھا اور تقریبا شام تک رک رک کے بارش ہوتی رہی لیکن چاہنے والوں کے قدم رکے نہیں بڑھتے ہی رہے، تعجب تو خواتین پہ ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے بچے اور وسائل بھی ہوتے ہیں لیکن تب بھی جوش و ولولہ میں کوئی کمی نہیں ہوتی، اور ان کا بھی سفر جاری رہتا ہے، ان کے حوصلوں اور جذبوں کو سلام، اور سب سے زیادہ جو لوگ سلام کے مستحق ہیں وہ عراق کے مومنین ہیں جو مہمان نوازی اور خدمت کا حق ادا کر دیتے ہیں نہیں پتہ ان کو اپنے مولا سے کتنی زیادہ محبت اورکتنی زیادہ معرفت ہے خدا ہی جانے، خدا ان کے دنیا و آخرت کے سارے امور کو آسان اور ان کی توفیقات میں مزید اضافہ فرمائے اور ساتھ ہی ساتھ ہمیں ان کی قدردانی کی بھی توفیق عنایت فرمائے۔
پچھلے سال کی طرح اس سال بھی ہم تڑپ رہے ہیں جانے کے لئے خدا کرے کوئی راستہ نکل آئے۔
خدا وند عالم کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے کہ اس نے یہ توفیق دی کہ اس سلسلہ میں کچھ لکھوں، کسی چیز کو حس کرکے اور درک کر کے لکھنے اور بیان کرنے کا مزہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔  
آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد و آل محمد(ع) کے صدقہ میں خاص طور سے امام حسین علیہ السلام کے صدقہ میں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم لوگ زیادہ سے زیادہ اس عظیم نعمت اور سرمایہ کو معرفت کے ساتھ درک کرسکیں، اور تمام مومنین کو خاص طور سے ان لوگوں کو جو ابھی تک امام حسین (ع) کی زیارت پہ نہیں جا سکے ہیں انھیں امام علیہ السلام کی زیارت خاص طور سے اس سال اربعین میں جانے کی توفیق عطا فرمائے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .