تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی
حوزہ نیوز ایجنسی। امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
"قَدْرُ الرَّجُلِ عَلَی قَدْرِ هِمَّتِهِ" (نہج البلاغہ حکمت47)
"انسان کی قدر و منزلت اس کی ہمت کے اعتبار سے ہوتی ہے"
ہماری زندگی اور ہمارے معاشرہ اور سماج میں بلکہ دین و شریعت میں تقریبا ساری چیزیں اہم ہوتی ہیں، لیکن کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کے لئے زیادہ تاکید اورزور ہوتا ہے، بار بار اس کی طرف متوجہ رہنے کا حکم ہوتا ہے، اور ہونا بھی یہی چاہیئے، یہی خداو رسول(ص) اور اہل بیت علیہم السلام کی بھی روش رہی ہے، اور ہم کو بھی اسی روش کو اپنانا چاہئیے، اور یہ چیز بھی توجہ کرنے کی ہے کہ کسی بھی چیز کی اہمیت کا اندازہ اس کے بیان کرنے والے کے مطابق ہوتا ہے، بیان کرنے والا جتنی عظیم حیثیت اور شخصیت کا مالک ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ اس چیز کی اہمیت اور قدر کا اندازہ ہوتا ہے جس کے بارے میں بیان کرتا ہے۔
اب اس لحاظ سے سب سے زیادہ حیثیت اور اہمیت کا مالک خدا ہے اس لئے کہ وہ مالک حقیقی ہے اور ساری چیزیں اس کی مخلوق ہیں، خدا جس کو چاہتا ہے اپنے اعتبار سے عطا کرتا ہے، تو خدا کی نگاہ میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے، وہ دین ہے، اسی دین کی تبلیغ کے لئے اس نے انبیاء بھیجے، مرسلین بھیجے، کتابیں نازل کیں، شریعتیں معین کیں، یہی نہیں بلکہ اسی دین کی حفاظت کے لئے انبیاء، مرسلین اور ائمہ(ع) نے ہر طرح کی زحمتیں اوراذیتیں برداشت کیں، بلکہ اپنی جان و مال بھی اس دین کے اوپر قربان اور نچھاور کردیا، اب اگر ایک ایسا دور آجائے جس میں دین خطرہ میں پڑجائے، اور لوگ دین کو مٹانے پہ لگ جائیں، دین نے جن چیزوں کو حلال قرار دیا ہو اسے حرام، اور جس کو حرام قرار دیا ہو اسے حلال قراردینے لگیں، وحی و نبوت کا انکار کرنے لگیں، گویا کہ دین کو بالکل مٹانے اور ختم کرنے پہ تل جائیں، اور ایسی صورت میں خدا کا کوئی خاص بندہ اگر دین کو بچانے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردے یہاں تک کہ اس کے گھر والے اور اس کی ناموس کو قیدی بنا کے ایک شہر سے دوسرے شہر برہنہ سر پھرایا جائے اور اعلان کیا جائے کہ جسے تماشا دیکھنا ہے وہ دیکھ لے، اب اس انسان اور شخصیت کی قدر و منزلت خدا کے نزدیک کتنی ہوگی؟
تو وہ دین جسے پیغمبر اکرم(ص) لے کے آئے تھے جس کی تلبیغ کے لئے ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کیا اور آنحضرت(ص) نے خود فرمایا:
"مَا أُوذِی نَبِی مِثْلَ مَا أُوذِیتُ"(کشف الغمة فی معرفة الائمہ ج2 ص537 ناشر- بنی ہاشم تبریز)
"جتنی اذیت اور تکلیف مجھے دی گئی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی"
اس دین کو امام حسین علیہ السلام نے اپنی اور اپنے گھر والوں اور چاہنے والوں کی قربانی دے کے بچایا، اب امام حسین علیہ السلام کی قدر و منزلت خدا کے نزیک کتنی ہوگی؟
اس کے لئے صرف پیغمبر اکرم(ص) کی ایک حدیث کافی ہے کہ آپ نے فرمایا:
"أَحَبَّ اللَّهُ مَنْ أَحَبَّ حُسَيْناً"*(الارشاد ج2 ص127 ناشر-کنگرہ شیخ مفید قم)
خدا اسے چاہتا اور دوست رکھتا ہے جو امام حسین(ع) کو چاہتا ہے اور آپ سے محبت کرتا ہے "یعنی جو محب امام حسین علیہ السلام ہے وہ محبوب خدا ہے۔
اس حدیث میں جو چیز اہم ہے وہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ جوامام حسین(ع )سے محبت کرتا ہے وہ خدا کی بارگاہ میں محبوب ہے، پیغمبر(ص) نے اس حدیث میں یہ نہیں کہا کہ محبت کرنے والے کا شیعہ ہونا ضروری ہے، بلکہ ایک عام اور کلی بات کہی چاہے جو ہو، شیعہ ہو یا سنی، یہودی ہو یا عیسائی، یا کسی اور مذہب وملت کا ماننے والا ہو، کوئی بھی ہو، اگر امام حسین(ع) سے محبت کرے گا تو خدا کے نزدیک محبوب ہوگا، اس حدیث کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آگئ کہ جو لوگ بھی امام حسین(ع) کے نام پہ عزادری کرتے ہیں، زیارت پہ جاتے ہیں، اربعین میں شرکت کرتے ہیں، یادوسری چیزیں امام حسین(ع) کے نام پہ انجام دیتے ہیں، چاہے جس مذہب وملت کے ہوں سب محبوب خدا ہیں، اس لئے کہ امام حسین(ع) سے محبت کرتے ہیں۔ یہاں پہ صرف ایک حدیث کے ذریعہ سے امام حسین(ع) کی قدر و منزلت بیان کی ہے۔ امام حسین(ع) کی قربانی دین کے لئے تھی اسی لئے اتنی زیادہ اہمیت کی حامل ہے، یعنی دین کو عاشورا نے بچا رکھا ہے۔
اس موقع پہ رہبر انقلاب اسلامی ایران حضرت آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ کا یہ جملہ یاد آ رہا ہے کہ آپ نے فرمایا "اسلام کو عاشورا نے بچا رکھا ہے اور عاشورا کو اربعین نے"
صرف اس جملہ پہ اگر ایک مضمون لکھاجائے تو کم ہے، کتنا معرفت اور قدر بھرا جملہ ہے، اور اس جملہ کو بیان کرنے والے کے ایمان ومعرفت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بیان کرنے والے کی اربعین کے سلسلہ سے کتنی معرفت ہے۔
تو اب اگر اس طرح سے بیان کیا جائے کہ، خدا کی نگاہ میں سب سے زیادہ اہم، دین ہے، اور دین کو عاشورا نے بچایا اور عاشورا کو اربعین نے ایک الگ شناخت اور پہچان عطا کی ہے، تو اب اس اربعین کے بارے میں جتنا بھی زیادہ لکھا جائے، بیان کیا جائے اور جتنا بھی زیادہ اسے دنیا کے سامنے پیش کیا جائے کم ہے۔
اس تحریر میں جس چیز کی طرف اشارہ کرنا ہے وہ محبان اور عاشقان امام حسین(ع) کی قدر و منزلت ہے، خاص طور سے عراق کے مومنین کی قدر و منزلت۔
جیسا کہ کائنات کے امیر نے فرمایا کہ:
"انسان کی قدر و منزلت اس کی ہمت کے اعتبار سے ہوتی ہے"
تو اب اس حدیث کی روشنی میں امام حسین(ع) کے چاہنے والوں کی قدر و منزلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کتنی قدرو منزلت کے مالک اور حامل ہیں یہ لوگ، خاص طور سے عراق کے مومنین، عاشقان امام حسین(ع) جب اپنے گھر سے نکلتے ہیں اسی وقت سے ان کی ہمت کا اندازہ ہونے لگتا ہے، اسی وقت سے ان کے صبر و حوصلہ کا اندازہ ہونے لگتا ہے، کیسے کیسے چاہنے والے ہیں اور کس قدر اپنے امام(ع) کے عشق میں غرق ہیں کہ اپنے امام کی زیارت کے لئے سب کچھ برداشت کرنے کو آمادہ رہتے ہیں۔
تین سال پہلے نجف سے کربلا پیدل جاتے وقت راستہ میں امام(ع) کے ایک چاہنے والے سے ملاقات ہوئی جو پاکستان میں پنجاب کے رہنے والے تھے، انھوں نے بتایا کہ میں آج ہی نجف اشرف سے پیدل نکلا ہوں کربلا کے لئے، اور راستہ میں صرف نماز کے لئے رکا تھا بس، اور وہ اس وقت تقریبا 65 کلو میٹر پیدل چل کے آئے تھے جہاں پہ عام طور سے لوگ دو سے تین دن میں پہونچتے ہیں، نہیں پتہ یہ کون سا جذبہ اور محبت ہے کہ انسان سب کچھ بھول جاتا ہے یہاں تک کہ اپنے وجود کو۔
پتہ نہیں ایسے کتنے لوگ ہیں کہ جن کی قدر و منزلت کا اندازہ لگانا بہت سخت ہے کہ آخر ان کے اندر کون سا جذبہ ہے، یہ بس عشق ہے، اسے دیکھ کے اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے کہ:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل تھی محو تماشائے لب بام ابھی
یعنی جہاں عقل حیران وپریشان رہتی ہے اور کام نہیں کرتی اور اس کی حد ختم ہوجاتی ہے، اس کے آگے عشق کی حد شروع ہوتی ہے، اور جس کے دیکھنے، اور حس کرنے کا بہترین موقع اربعین امام حسین(ع) ہے۔
تو آج یہ دنیا والوں کو ماننا پڑے گا کہ امام حسین(ع) کے چاہنے والے بہت ہی عظیم قدرومنزلت کے حامل اورمالک ہیں خاص طور سے عراق کے مومنین، اور دنیا والوں کو اس بات کا احساس بھی ہے اور وہ اس کے خلاف کام بھی کرتے ہیں، کبھی مرجعیت کے خلاف تو کبھی عزاداری کی روح ختم کرنے کی کوشش، لیکن اربعین میں لاکھوں لوگ امام حسین(ع) کے نام پہ جمع ہوکے بتا دیتے ہیں کہ تم پورے سال سازش اور پلاننگ کرتے رہو ہم اربعین میں تمہاری ساری محنتوں پہ پانی پھیر دیں گے، عراق کے مومنین کی قدرو منزلت کو کس طرح سے بیان کیا جائے، ابھی کسی ملک میں اچانک سے لاکھوں لوگ داخل ہوجائیں اور تقریبا ایک مہینہ تک رہیں، تو ان کی صرف واجب ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اس ملک کی حکومت کے ہاتھ پاؤں پھول جائیں گے اور اس کی نیند حرام ہوجائے گی کہ آخر وہ کیاکرے، ہمارا سلام ہو عراق کے بامعرفت اور با ایمان مومنین پر جو زائرین کی خدمت کے لئے اپنے پورے سرمایہ اور پونجی کو لٹا دیتے ہیں، تقریبا ہراس چیز کو مہیا کرتے ہیں جو ایک انسان کی روزمرہ کی زندگی میں اس کو پیش آتی ہے بلکہ اس سے بھی بہتر، اور یہ لوگ اپنے کو زائرین کا خادم اور نوکر کہتے ہیں، واقعا اسے کہتے ہیں عشق، معرفت، ایمان، اخلاص، اس لئے کہ اس طریقہ سے خدمت صرف دو ہی طرح کے لوگ کر سکتے ہیں ایک تو وہ جنہیں بہت زیادہ پیسہ ملتے ہوں جس کی وجہ سے ایسی خدمت کرتے ہیں اور دوسرے وہ جن کے اندر بہت ہی زیادہ اخلاص، عشق ومحبت اور جوش و جذبہ پایا جاتا ہو، اور اب اسی سے اس بات کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ زیارت پہ آنے والوں کے اندر ایمان ومعرفت زیادہ پائی جاتی ہے یا امام حسین(ع) کے نام پہ زائرین کی اس قدر بے لوث اور انتھک خدمت کرنے والوں کے اندر؟
عاشورا کے علاوہ، ماہ صفر کے آغاز سے اور اس کے ختم ہونے تک زائرین آتے جاتے رہتے ہیں اور عراق کے مومنین اور مجاہدین تقریبا پورے مہینہ اپنے مولا کے زائرین کی خدمت کرتے رہتے ہیں، نہیں پتہ یہ مجاہدین کب آرام کرتے ہیں اور کس وقت سوتے ہیں، ان کی زحمتوں اور مشقتوں، اور ان کے خلوص کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ہے، مختصر یہ کہ اپنی اس مختصر سی تحریر میں، میں ساری چیزوں کو بیان کرنے سے قاصرو عاجز ہوں اس لئے کہ میرے پاس ان اللہ والوں کی توصیف بیان کرنے کے لئے نہ ہی الفاظ ہیں اور نہ ہی درک و ایمان و معرفت۔
پچھلے سال کرونا کی وجہ دوسرے ممالک کے لوگ اربعین میں کربلا نہیں جا سکے تھے، مومنین کے نہ جانے کی وجہ سے عراق کے مومنین بہت زیادہ غمگین تھے اور رو رو کے کہہ رہے تھے کہ اے زائرین کیا آپ اس سال ہمیں خدمت کا موقع نہیں دیں گے، اب اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عراق کے مومنین اپنے مولا کے زائرین کی خدمت کرنے کے لئے کس قدر بے چین و بے قرار رہتے ہیں، ان کے اس خلوص اور جذبہ کو لاکھوں سلام۔
اس سال بھی شرائط کچھ ایسے ہیں کہ ہر کوئی نہیں جا سکتا ہے خدا سے دعا ہے کہ خدا کوئی راستہ فراہم کردے تا کہ ہم اپنے امام کا چہلم کرنے کربلا پہونچ جائیں، اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم عراق کے مومنین کی قدردانی کر سکیں، اور امام حسین(ع) کے صدقہ میں تمام محبان اہل بیت(ع) کو خاص طور سے عراق کے مومنین کو طول عمر بابرکت اور زیادہ سے زیادہ ایمان و معرفت عطا فرمائے، ساتھ ہی ساتھ عاقبت بخیری اور امام حسین(ع) کی شفاعت عطافرمائے۔