۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
حرم حضرت امیرالمومنین (ع)

حوزہ/ ایسا کوئی بھی انسان نہیں ملے گا جس کے اندر ایک ہی وقت میں ہر طرح کی فضیلت اور ہر طرح کا کمال پایا جاتا ہو اور وہ ہے امام المتقین، امیر المومنین، مولائے کائنات، امیر بیان حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدسہ۔

تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی، قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسی آج جب ہم تاریخ کو پڑھتے ہیں اور اس پہ نظر ڈالتے ہیں تو ہم کو ہر طرح کے لوگ نظر آتے ہیں، اچھے بھی، برے بھی، بہت اچھے بھی اور بہت برے بھی، پڑھے لکھے بھی، اور جاہل و گنوار بھی، با ادب بھی اور بے ادب بھی، با کمال و باشرف بھی اور بے کمال و پست بھی، عزت دار بھی اور ذلیل رسوا بھی، دنیا سے بے رغبت بھی اور دنیا پرست بھی، نیک و متقی پرہیز گار بھی اور گناہ کرنے والے بھی، باایمان بھی اور بے ایمان بھی، مظلوم بھی اور ظالم بھی، ناصح بھی اور گمراہ کرنے والے بھی، محبت کرنے والے بھی اور دشمنی کرنے والے بھی، اور بہت سے ایسے لوگ بھی مل جائیں گے جن کے یہاں نیکیاں اور اچھائیاں زیادہ پائی جاتی ہیں، اور بہت سی صفتوں اور خصوصیتوں کے حامل ہوتے ہیں، نیک بھی ہوتے ہیں، شریف بھی ہوتے ہیں، سخی بھی ہوتے ہیں، اس کے علاوہ اور بھی دوسری بہت سی خصوصیتیں ان کے یہاں پائی جاتی ہیں،
لیکن ایسا کوئی بھی انسان نہیں ملے گا جس کے اندر ایک ہی وقت میں ہر طرح کی فضیلت اور ہر طرح کا کمال پایا جاتا ہو بلکہ ایک ہی وقت متضاد اور اپوزٹ چیزیں پائی جاتی ہوں، مثلا ایک ہی وقت میں فقیر بھی ہو اور مالدار و سخی بھی، کمزور و ناتواں بھی ہو اور شجاع و بہادر بھی، بہت زیادہ گریہ کرنے والا بھی ہو اور خوش رہنے والا بھی، یہ ساری چیزیں ایک ہی ساتھ صرف ایک ہی ذات گرامی میں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ہے امام المتقین، امیر المومنین، مولائے کائنات، امیر بیان حضرت علی علیہ السلام کی ذات مقدسہ، آپ کے اندر ایک ہی وقت میں متضاد اور اپوزٹ چیزیں پائی جاتی ہیں،
امام علی علیہ السلام کی مدح صفی الدین حلی اس طرح سے کرتے ہیں فرماتے ہیں:
"جمعت فی صفاتک الاضداد"
"فلهذا عزت لک الانداد"
"زاهد حاکم حلیم شجاع"
"فاتک ناسک فقیر جواد"
"خلق یخجل النسیم من اللطف"
"و بأس یذوب منه الجماد"
"ظهرت منک للوری مکرمات
"فأقرت بفضلک الحساد"
"إن یکذب بها عداک فقد"
"کذب من قبل قوم لوط و عاد"
"جل معناک أن یحیط به الشعر"
"و یحصی صفاته النقاد"
(سفینة البحار ج 3 ص 10 ناشر- اسوہ قم)
1- آپ کے اندر متضاد اور اپوزٹ صفات پائے جاتے ہیں، جس کہ وجہ سے کوئی بھی آپ کے ہم مثل اور نظیر نہیں ہو سکتا ہے،
2- آپ زاہد بھی ہیں حاکم بھی ہیں حلیم بھی ہیں شجاع بھی ہیں، عبادت گزار بھی ہیں بے باک و بہادر بھی ہیں فقیر و تنگدست بھی ہیں اور جواد و سخی بھی ہیں،
3- آپ کا اخلاق اتنا نرم اور لطیف ہے کہ اس کی لطافت کے سامنے ہوا کی لطافت و نرمی شرمندہ ہوجاتی ہے،
اور ساتھ ہی ساتھ اتنا رعب و ہیبت ہے کہ پتھر اور جمادات پگھل جاتے ہیں،
4- آپ کی ذات سے کرامتیں اور فضیلتیں اہل دنیا کے لئے آشکار ہیں کہ آپ سے حسد کرنے والے بھی ان فضائل کا اعتراف اور اقرار کرتے ہیں،
5- اور اگر آپ کے دشمن آپ کے ان فضائل کا انکار کریں تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس سے پہلے بھی قوم عاد اور ثمود نے اپنے پیغمبروں کو جھٹلایا ہے،
6- آپ کے اندر جو معانی اور مفاہیم پائے جاتے ہیں وہ اس سے بلند و بالا ہیں جنھیں شعر بیان کرے اور نقاد اور شمار کرنے والے انھیں شمار کریں-
واقعا ایسا کون سا انسان ہے جس کے اندر متضاد اور اپوزٹ چیزیں پائی جاتی ہوں، جو زاہد بھی ہو، حاکم بھی، ہو حلیم بھی ہو، شجاع بھی ہو، عابد بھی ہو، بے باک و بہادر بھی ہو، عبادت کے میدان میں جس سے بڑا کوئی عابد نہیں، شجاعت کے میدان میں جس سے بڑا کوئی بہادر نہیں، عبودیت و بندگی میں جس سے بڑا کوئی بندہ نہیں سخاوت کے میدان میں جس سے بڑا کوئی سخی نہیں، یتیم پروری میں جس سے بڑا کوئی دلسوز اور ہمدرد نہیں،
ابن فارض نے آپ کی مدح اس طرح سے کی ہے:
"هُو البکاءُ فِی المِحرابِ لَیلاً"
"هُو الضَحَّاک إذا اشتدَّ الضّرابُ"*(سفینة البحار ج ٧ ص 66 ناشر اسوہ قم)
"آپ رات کو محراب میں بہت زیادہ گریہ کرنے والے اور میدان جنگ میں بہت زیادہ خوش رہنے والے تھے"
یہ ہیں مولائے کائنات جن کے اندر ایک ہی وقت میں متضاد اور اپوزٹ چیزیں پائی جاتی ہیں جن کی وجہ سے ان کی کوئی برابری نہیں کر سکتا ہے،
ہم خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے بلکہ اگر پوری زندگی صرف ایک ہی بات کا شکریہ ادا کرتے رہیں تب بھی کم ہے کہ اس نے ایسے گھر میں پیدا کیا جس میں مولائے کائنات کی محبت پائی جاتی ہے، ایسے ماں باپ عطا کئے جو مولائے کائنات کے چاہنے والے ہیں، امیرالمومنین علیہ السلام سے محبت اور آپ کی ولایت کوئی معمولی چیز نہیں ہے اس لئے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"وَلاَيَتِي لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ وِلاَدَتِي مِنْهُ لِأَنَّ وَلاَيَتِي لَهُ فَرْضٌ وَ وِلاَدَتِي مِنْهُ فَضْلٌ"(بحارالانوار ج 39 ص 299 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
"مجھے علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں ان کی نسل سے ہوں اس لئے کہ آپ کی ولایت ہمارے اوپر فرض ہے اور آپ کی اولاد ہونا فضل و شرف ہے"
یہ جملہ کون کہہ رہا ہے کوئی معمولی انسان نہیں کہہ رہا ہے بلکہ امام معصوم کہہ رہے ہیں جن کے نام سے آج ہماری شریعت جانی اور پہچانی جاتی ہے،
اب اس سے بڑھ کے اور بھی کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ ہم مولائے کائنات کے چاہنے والے اور آپ کے ماننے والے ہیں، اسی لئے تو غدیر کے دن کے لئے ہے کہ جب ہم ایک دوسرے سے ملیں تو کہیں:
"الْحَمْدُ لِلہ الَّذِی جَعَلَنَا مِنَ الْمُتَمَسِّکِینَ بِوِلاَیَةِ أَمِیرِ الْمُؤْمِنِینَ وَ الْأَئِمَّةِ المعصومین عَلَیْهِمُ السَّلاَمُ"(زاد المعاد ص 204 ناشر موسسة الاعلمی للمطبوعات بیروت)
"خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دیا ہے جن کے اندر مولائے کائنات اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی ولایت و محبت پائی جاتی ہے"
اسی لئے شاعر کہتا ہے کہ
"تمام لذت عمرم ھمین است کہ" "مولایم امیرالمؤمنین است"
"یعنی ہماری زندگی کی ساری لذت اور سارا مزہ اسی میں ہے کہ ہمارا مولا امیرالمؤمنین ہے"
پیغمبر اکرم (ص) مولائے کائنات سے فرماتے ہیں:
"أُخَاصِمُكَ بِالنُّبُوَّةِ وَ لاَ نَبِيَّ بَعْدِي وَ تُخَاصِمُ اَلنَّاسَ بِسَبْعٍ وَ لاَ يُحَاجُّكَ فِيهِنَّ أَحَدٌ مِنْ قُرَيْشٍ لِأَنَّكَ أَنْتَ أَوَّلُهُمْ إِيمَاناً وَ أَوْفَاهُمْ بِعَهْدِ اللہ وَ أَقْوَمُهُمْ بِأَمْرِ اَللَّهِ وَ أَقْسَمُهُمْ بِالسَّوِيَّةِ وَ أَعْدَلُهُمْ فِي الرَّعِيَّةِ وَ أَبْصَرُهُمْ فِي الْقَضِيَّةِ وَ أَعْظَمُهُمْ عِنْدَ اللہ مَزِيَّةً"(خصال صدوق ج 2 ص 363 ناشر جامعہ مدرسین قم)
"میں اپنی نبوت کے ذریعہ سے تمہارے اوپر دلیل اور حجت پیش کروں گا میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہوگا، اور تم لوگوں پر سات چیزوں کے ذریعہ سے دلیل اور حجت پیش کرو گے اور قریش کا کوئی ایک آدمی بھی تمہارے اوپر دلیل اور حجت پیش نہیں کرسکتا ہے اس لئے کہ
1- تم ان میں ایمان لانے والے پہلے ہو،
2- اور عہد الہی کے سلسلہ سے ان سے زیادہ با وفا ہو،
3- اور خدا کے حکم اور اس کے فرمان کے انجام دینے میں سب سے زیادہ محکم اور پائیدار ہو،
4- اور بیت المال کے تقسیم کرنے میں سب سے زیادہ مساوات کرنے والے ہو،
5- اور اپنی رعایا کے سلسلہ سے سب سے زیادہ عادل ہو،
6- اور فیصلہ کرنے میں سب سے زیادہ بصیرت کے مالک ہو،
7- اور تمہارا مقام خدا کے نزدیک سب سے زیادہ بلند و برتر ہے،
پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی اس حدیث میں مولائے کائنات کے سارے فضائل کو جمع کر دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ دنیا کا کوئی بھی انسان امیر کائنات کی برابری نہیں کرسکتا ہے،
مولائے کائنات کے فضائل کو اللہ اور اس کے رسول کے علاوہ کوئی بیان ہی نہیں کر سکتا یے اس لئے کہ پیغمبر اکرم(ص) فرماتے ہیں:
"لَوْ أَنَّ الرِّيَاضَ أَقْلَامٌ وَ الْبَحْرَ مِدَادٌ وَ الْجِنَّ حُسَّابٌ وَ الْإِنْسَ كُتَّابٌ مَا أَحْصَوْا فَضَائِلَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِب"(بحارالانوار ج 38 ص 19 ناشر-داراحیاء التراث العربی بیروت)
"اگر سارے باغ قلم ہو جائیں اور سارے سمندر روشنائی ہو جائیں اور تمام جنات شمار کرنے والے ہو جائیں اور تمام انسان لکھنے والے ہو جائیں تب بھی علی بن ابی طالب(علیہما السلام) کے فضائل کو شمار اور بیان نہیں کر سکتے ہیں"
اگر خدا نے ہمیں اتنی بڑی نعمت سے نوازا ہے تو ہمیں اس نعمت عظمی کی قدردانی کرنا چاہیئے اور اپنے کو ایسا بنانا چاہیئے جس سے لگے کہ ہم مولائے کائنات کے چاہنے اور آپ کے ماننے والے ہیں، اور ایسا نہ ہو کہ ایمان و معرفت، تعقل و تفکر، اور حق کی شناخت و پہچان کے سلسلہ سے کمزور و ضعیف ہو جائیں اس لئے کہ خود مولا کے زمانہ میں ایسے لوگ تھے جن کے اندر معرفت اور شناخت کی کمی تھی اور مولا نے ان کے سلسلہ سے گلہ اور شکوہ کیا ہے آپ فرماتے ہیں:
"أَیُّهَا الْقَوْمُ الشَّاهِدَةُ أَبْدَانُهُمْ، الْغَائِبَةُ عَنْهُمْ عُقُولُهُمْ، الْمُخْتَلِفَةُ أَهْوَاؤُهُمْ، المُبْتَلَى بِهمْ أُمَرَاؤُهُمْ. صَاحِبُکُمْ یُطِیعُ الله وَ أَنْتُمْ تَعْصُونَهُ، وَ صَاحِبُ أَهْلِ الشَّامِ یَعْصِی اللهَ وَ هُمْ یُطِیعُونَهُ. لَوَدِدْتُ وَاللهِ أَنَّ مُعَاوِیَةَ صَرَفَنی بِکُمْ صَرْفَ الدِّینَارِ بِالدِّرْهَمِ، فَأَخَذَ مِنِّی عَشَرَةً مِنْکُمْ وَ أَعْطَانِی رَجُلا مِنْهُمْ"*(نہج نہج البلاغہ خطبہ97)
"اے وہ قوم جس کے بدن حاضر ہیں اور عقلیں غائب ہیں، تمہارے خواہشات مختلف ہیں اور تمہارے حکام اور امراء تمہاری بغاوت میں مبتلا ہیں، تمہارا امیر اللہ کی اطاعت کرتا ہے اور تم اس کی نافرمانی کرتے ہو اور شام کا حاکم اللہ کی معصیت کرتا ہے اور اس کی قوم اس کی اطاعت کرتی ہے، خدا گواہ ہے کہ مجھے یہ بات پسند ہے کہ معاویہ مجھ سے درہم و دینار کا سودا کرلے کہ تم میں کے دس لے کر اپنا ایک دیدے"
مولائے کائنات کے اس بیان سے ان کے درد کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح سے اپنے درد کو بیان کررہے ہیں یہ صرف اسی زمانہ کے لئے نہیں ہے بلکہ آج کے لئے بھی ہے کہ ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے اور غور کرنا چاہیئے کہ کہیں ہمارے قول و فعل اور عمل کے ذریعہ سے ہمارے امام کو تکلیف تو نہیں پہونچ رہی ہے، اگر ایسا نہیں ہے تو ہمیں خدا کا شکر ہے ادا کرنا چاہیئے اور اگر ایسا ہے تو اپنی اصلاح کرنا چاہیئے،
آج مولائے کائنات تو نہیں ہیں لیکن آپ کا وارث موجود ہے جس کی خدمت میں ہمارے اعمال پیش ہوتے ہیں ہمیں کوشش کرنا چاہیئے کہ ہم ایسے اعمال انجام دیں جس سے ہمارا وقت کا امام ہم سے راضی و خوشنود رہے،
آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں مولائے کائنات کے راستہ پہ چلنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہمیشہ ہمارے اور ہماری اولاد کے دلوں میں مولا کی محبت کو باقی رکھے ساتھ ہی ساتھ آپ کی شفاعت ہمارے نصیب فرمائے-(آمین)

تبصرہ ارسال

You are replying to: .