۱ آذر ۱۴۰۳ |۱۹ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 21, 2024
ظفر عباس رضوی

حوزہ/ جس طرح سے ہم دنیا کے نفع و نقصان اور فائدہ کے بارے میں اتنا پریشان رہتے ہیں اور ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اسی طرح آخرت کے فائدہ کے بارے میں بھی اگر اتنا سوچنے لگیں تو ہماری آخرت کی تیاری تو ہوگی ہی ساتھ ہی ساتھ دنیا بھی سنور جائے گی

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید ظفر عباس رضوی زیر تحصیل حوزہ علمیہ قم المقدسہ نے ماہ مبارک رمضان کی برکت و فضیلت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہماری زندگی میں عام طور سے ہوتا یہ ہے کہ ہم جس چیز کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور دوست رکھتے ہیں اس کا بے صبری سے انتظار کرتے ہیں، چاہے وہ کوئی یادگار لمحہ ہو، یا پھر زندگی کا کوئی اہم واقعہ ہو جیسے ولادت اور سالگرہ کی تاریخ  یا پھر کوئی اور اہم دن اور تاریخ وغیرہ ہو تو ہم چاہتے ہیں کہ وہ یادگاری لمحہ جلدی سے آئے اور اس میں کچھ ایسا کام انجام دیا جائے جس کی وجہ سے وہ ہمیشہ کے لئے یادگاری بن جائے اس لئے کہ وہ ہمارے لئے کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اور ویسے بھی انسان جس چیز کو پسند کرتا ہے اس کے لئے خاص اہتمام اور آمادگی کرتا ہے، تو اب اگر پورے سال میں کوئی ایسا مہینہ ہو جو سارے مہینوں سے بہتر ہو، جس مہینہ کا ایک ایک لمحہ ثواب سے خالی نہ ہو ایک ایک سانس تسبیح کا ثواب رکھتی ہو، جس مہینہ میں نیند بھی عبادت ہو جس کا ہر لمحہ عبادت میں شمار ہوتا ہو، جو بخشش  کا ذریعہ ہو جس میں توبہ قبول ہوتی ہو، جس میں بندگی اور عبادت کا مزہ ہی الگ ہو جو رحمت، مغفرت اور برکت کا مہینہ ہو تو اس مہینہ کے لئے ہمیں کتنا زیادہ انتظار اور اہتمام کرنا چاہئیے۔

انہوں نے اضافہ کرتے ہوئے کہا کہ جس طرح اگر ہم کوئی بزنس اور کام وغیرہ شروع کرتے ہیں تو چاہتے ہیں کہ پیسے کم لگیں اور نفع اور فائدہ زیادہ ہو چھوٹے سے لے کے بڑے سے بڑے کاموں میں ہماری سوچ یہی ہوتی ہے کہ فائدہ زیادہ سے زیادہ ہو، اپنے کاموں اور بزنس میں ہم ذرا سا بھی گھاٹا اور نقصان پسند نہیں کرتے ہیں جتنا زیادہ فائدہ ہو جائے اتنا ہی بہتر سمجھتے ہیں، ہماری یہ سوچ ہوتی ہے کہ تھوڑا سا خرچ کریں اور زیادہ فائدہ اٹھائیں اور ہماری یہ فکر مادی اور دنیوی چیزوں کے لئے ہوتی ہے، ہونی بھی چاہئیے لیکن دنیا کی زندگی بہر حال کسی نہ کسی طرح کٹ جائے گی تھوڑی سی سختی اور پریشانی کے ساتھ ہی سہی اس لئے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جن کے پاس بہت زیادہ مال و دولت ہے ان کی بھی زندگی گزر رہی ہے اور جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہے ان کی بھی کسی نہ کسی طرح سے گزر رہی ہے بس فرق اتنا ہے کہ جن کے پاس نہیں ہے ان کی زندگی سختی اور دشواری سے گزرتی ہے، لیکن گزر سب ہی کی جاتی ہے۔لہذا دنیا کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے اور فکر کرنے سے فائدہ نہیں ہے، لیکن جس طرح ہم دنیا کے بارے میں اتنا زیادہ سوچتے ہیں اور فکر کرتے ہیں جب کہ دنیا کو ایک دن ختم ہوجانا ہے اسی طرح آخرت کے بارے میں بھی سوچیں جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے ہمیں اس کے بارے میں بھی فکر کرنا چاہئیے اور آمادگی کرنا چاہئیے اور اس کے نفع و نقصان کے بارے میں بھی سوچنا چاہیئے، اور ویسے بھی پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا
"أكيَسُ الكَيِّسِينَ مَن حاسَبَ نفسَهُ و عَمِلَ لِما بَعدَ المَوتِ"(مجموعة ورام ج 2 ص 94 ناشر- مکتبہ فقیہ قم)
"لوگوں میں سب سے زیادہ ذہین اور ہوشیار انسان وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لئے کام اور آمادگی کرے"

مولانا ظفر عباس نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج اگر کوئی دنیوی تعلیم کے اعتبار سے زیادہ پڑھا لکھا ہو اور کسی چیز کا ماہر ہو، سائنس وغیرہ کی اچھی معلومات ہو، اسی طرح سے اگر کسی کا بزنس وغیرہ بہت اچھا ہو کافی پیسہ کماتا ہو بڑا نام ہو یا کسی کا سیاست وغیرہ میں زیادہ نام ہو تو ایسے لوگوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ واقعا کتنے دماغ والا آدمی ہے کتنا ذہین آدمی ہے کہ کامیابی اس کے پاؤں چھوتی ہے، لیکن پیغمبر اکرم(ص) کی حدیث کے مطابق ذہین اور ہوشیار انسان وہ ہے جو موت کے بعد کے بارے میں سوچے یعنی آخرت کی آمادگی کرے، تو جس طرح سے ہم دنیا کے نفع و نقصان اور فائدہ کے بارے میں اتنا پریشان رہتے ہیں اور ہر طرح کی مشکلات کو برداشت کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں اسی طرح آخرت کے فائدہ کے بارے میں بھی اگر اتنا سوچنے لگیں تو ہماری آخرت کی تیاری تو ہوگی ہی ساتھ ہی ساتھ دنیا بھی سنور جائے گی، اسی طرح ہم چاہتے ہیں کہ اگر ایک روپیہ خرچ کریں تو کم سے کم اس کے دو برابر فائدہ ملے لیکن خدا کتنا مہربان ہے کہ ہمارے ایک عمل کے بدلے کئی گنا زیادہ ثواب اور اجر دیتا ہے، لہذا جو مہینہ آنے والا ہے اس میں ہر عمل کا ثواب بہت ہی زیادہ ہے ہمیں اس مبارک مہینہ کے لئے زیادہ سے زیادہ آمادگی اور تیاری کرنا چاہیئے اور ویسے بھی ہم لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی میں وسائل اور سامان وغیرہ خریدنے کے لئے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی اچھے آفر اور زیادہ چھوٹ کا زمانہ آئے تو اس میں خریداری وغیرہ کریں، اس لئے کہ کم پیسوں میں زیادہ چیزیں مل جائیں گیں، اگر ہماری یہی سوچ ہے تو خدا نے ماہ مبارک کی صورت میں ہمیں کتنا بڑا تحفہ اور آفر دیا ہے کہ ذرا سا کوئی نیک کام انجام دیں ثواب ہی ثواب ہے یہاں تک کہ نیند بھی عبادت ہے، اب اس سے بڑا اور بھی کیا آفر ہو سکتا ہے،  اسی طرح  اگر ہمیں دنیا کے کسی صاحب منصب اور کسی بڑی شخصیت کے یہاں مہمان بننے کا موقع مل جائے تو ہم کتنا خوش ہو جاتے ہیں، وہاں جانے کے لئے آمادگی کرتے ہیں اور شخصیت کے شایان شان تیاری کرتے ہیں، دنیا کے سارے لوگ اور ساری شخصیتیں چاہے جتنی ہی بڑی کیوں نہ ہوں خدا کے سامنے تو کچھ بھی نہیں ہیں، تو اگر ہمیں خدا کی مہمانی نصیب ہو رہی ہے تو کتنا خوش ہونا چاہئیے، وہ بھی ایک دو دن نہیں بلکہ پورے ایک مہینہ ہم خدا کے مہمان رہیں گے اور وہ میزبان، جب خدا میزبان ہو تو پھر ایسی مہمانی کا کیا کہنا، تو ہمیں بھی اسی کے اعتبار سے آمادگی اور تیاری کرنی چاہئیے۔

اس مبارک مہینہ کی عظمت اور فضیلت اسی بات سے لگائی جاسکتی ہے کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
"لا تقولوا هذا رمضان، و لا ذهب رمضان و لا جاء رمضان، فان رمضان اسم من اسماء الله عز و جل لا یجییء و لا یذهب و انما یجیی‏ء و یذهب الزائل و لکن قولوا شهر رمضان"(کافی ج 4 ص69 ناشر- دارالکتب الاسلامیہ تہران)
"یہ نہ کہا کرو کہ یہ رمضان ہے، اور رمضان گیا، اور رمضان آیا، اس لئے کہ رمضان، اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، اور اللہ کہیں آتا جاتا نہیں، زائل اور تمام ہونے والی چیز آتی جاتی ہے، لہذا ماہ رمضان کہا کرو"
خدایا میں تجھے اس مہینہ کے حق اور ان بندوں کے حق کا واسطہ دے کر سوال کر رہا ہوں جنھوں نے اس مہینہ میں ابتدا سے لے کر انتہا تک تیری عبادت کی ہے چاہے وہ ملک مقرب ہو یا نبی مرسل یا وہ بندہ صالح جسے تو نے اپنا بنا رکھا ہے کہ محمد وآل محمد پر رحمت نازل فرما اور ہمیں اس کرامت کا اہل قرار دے دے جس کا تو نے اپنے اولیاء سے وعدہ کیا ہے اور ہمارے لئے لازم قرار دیئے ہیں جو تیری انتہائی اطاعت کرنے والے ہیں اور ہمیں اس جماعت میں شامل کردے جو تیری رحمت کی بنا پر تیری رفاقت کی بلند منزل پر فائز ہئں"۔

مزید بیان کیا کہ اگر ہم غور کریں تو ہمیں پتہ چل جائے گا کہ امام علیہ السلام نے اس مبارک مہینہ کا کس طرح سے استقبال کیا ہے اور خدا سے کس طرح سے دعا کی ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ایک مرتبہ پھر ہمیں موقع دیا کہ ہم انشاءاللہ ماہ مبارک کو درک کریں البتہ اس سال کا ماہ مبارک دوسرے برسوں کے ماہ مبارک سے ظاہری طور پہ کافی فرق کرے گا ہر سال ماہ مبارک میں ظاہری طور پہ کافی بھیڑ بھاڑ اور رونق دکھتی تھی لیکن اس بار سناٹا رہے گا نماز اور اعمال وغیرہ بھی ظاہرا مسجدوں میں نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی گھروں میں رہ کر کے ساری چیزیں انجام پائیں گی اور انشاءاللہ خدا اس مبارک مہینہ کے صدقہ میں اس منحوس اور مہلک بیماری سے پوری دنیا کو نجات دے دے گا۔

آخر میں کہا کہ ہمیں اس مبارک مہینہ میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل انجام دینا چاہیئے اور اس کی رحمتوں اور برکتوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہیئے اس لئے کہ یہ مہینہ ہمارے لئے ایک بہترین موقع اور فرصت ہے اپنے آپ کو بنانے، سنوارنے اور سدھارنے کا، لہذا جتنا بھی ہو سکے ہم اس مہینہ میں نیک عمل انجام دیں تاکہ اس مہینہ کی برکت سے پورے سال زیادہ سے زیادہ نیک اعمال انجام دے سکیں۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .