۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای

حوزہ/ ایران کی کامیابی اسے عظیم رہبر پانے کی وجہ سے ہے جسن نے دنیابھرمیں عبادت اور ریاضت کوعام کیا ،یہ واحد قوم ہے جہاں  کی پلیس بھی عارفانہ گفتگوکیاکرتی ہے ،شہید سردار سلیمانی جودنیابھر کے کے لئے ایک نمونہ اور آیڈیل بنکے پیش ہوئے اسے قوم ہرگز فراموش نہیں کرسکتی۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کی ریاست بہار،بھیکپور میں حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای، ۲۹ شعبان المعظم۱۴۴۲ہجری،بعد از نمازمغربین استقبال ماہ مبارک کے عنوان سےعظیم الشان پروگرام منایاگیا، جواپنی توانائی کے مطابق اس وادی کاایک انوکھا اور منظم پروگرام ہے۔ جلسہ انس باقرآن ،مقالہ خوانی،افتتاحی تقاریر و کنگرہ بزم نظم سے منور رہیں۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سیدشمع محمدرضوی نے اطلاع دیتے ہوئے بتایا کہ پروگرام کا آغاز تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا جس نے  پوری فضا کونورانی بنایا، پروگرام کے ناظم  نے حجہ الاسلام والمسلمین مولاناسبط حیدر اعظمی مدیرحوزہ کو افتتاحی تقریرکے لئے زحمت دی۔

مولاناموصوف نےسب سے پہلے اس پروگرام کے عنوان پرایک دقیق بررسی کرتے ہوئے مومنین کو فال نیک سے تعبیر کیا کہ رحمت کا دروازہ کھلنے کےاستقبال کومومنین نے پرجوش اندازمیں استقبال کیا،مولانانے بیان کوآگے بڑھاتے ہوئے فرمایا!مجھے اس موقع پر جس نے سب سے زیادہ متاثر کیاوہ ایران کے رہبر عزیزکے وہ مطالب تھےجسےمجھے رہبرمعظم انقلاب اسلامی  کے اس بیانات کویہاں ذکرکرناضروری ہے جوآپ نے فرمایا!'''یہ روزہ مومنین کے لئے اللہ کا خاص عطیہ ہے"'یہ بھوک وپیاس دل کو پاکیزگی عطا کرتی ہے یعنی غوروفکر کے امکانات فراہم کرتی ہے’’تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ سَنَۃٍ‘‘۔غور وفکر کی یہ نوعیت اور قسم آدمی کے باطن اور دل و جان کی رجوع کی دعوت پر مبنی ہے جولوگوں کے لئے حقائق کو عیاں کرتی ہے اور حکمت کے باب کھولتی ہےجومشہور و معروف عارف اور عظیم الشأن فقیہ’’مرحوم حاج میرزا جواد آقاملکی تبریزی‘‘اپنی گرانقدر’’المراقبات‘‘میں فرماتے ہیں:’’روزہ ایک ایسا عطیۂ الٰہی ہے کہ جسے خداوندعالم نے اپنے بندوں اور مؤمنوں کوعنایت فرمایا ہے، ان کی تعبیر کچھ اس طرح ہے کہ’’اَلصَّوْمُ لَیْسَ تَکْلِیْفاً بَلْ تَشْرِیْفاً‘‘روزے کو ایک فریضے کی حیثیت سے نہ دیکھیں بلکہ تشریف وتکریم کی نگاہ سے دیکھیں کہ ’’یُوْجِبُ شُکْراً بِحَسَبِہٖ‘‘روزہ کے فریضہ کے سلسلہ میں (یہ توجہ جو کہ بندوں کے سلسلہ میں تکریم الٰہی ہے، خود ہی شکر کا باعث ہے)خدا کا شکر بجالانا چاہیئے،رمضان کے روزے جولوگ  فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں یعنی بھوک اور پیاس کی سختیوں کے بارے میں جو کہ مؤمنین کو اٹھانی پڑتی ہے، ان کے متعدد و فوائد بیان کرتے ہیں جن کو انھوں نے روایتوں سے اخذ کیا ہے یا آپ کےپاک و پاکیزہ اورنورانی دل کی آواز ہے۔

ان میں سے کچھ یا اہم ترین فوائد یہ ہیں،جس کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’یہ بھوک اور پیاس دل کو ایک ایسی پاکیزگی عطا کرتی ہے کہ یہ پاکیزگی ایسے غوروفکر کے امکانات فراہم کرتی ہے کہ’’تَفَکُّرُ سَاعَۃٍ خَیْرٌ مِنْ عِبَادَۃِ سَنَۃٍ‘‘۔غور و فکر کی یہ نوعیت اور قسم آدمی کے باطن اور دل و جان کی طرف رجوع کی دعوت پر مبنی ہے جولوگوں کے لئے حقائق کو عیاں کرتی ہے اور حکمت کے باب کھولتی ہے کہ جس سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ عمر کے بارے میں غور و فکر کریں کیونکہ یہ ہر آدمی کا اصلی سرمایہ ہے۔ یہ سبھی خیرات، اسی عمر یعنی، جلد گذر جانے والے لمحات کے ذریعہ حاصل ہوتی ہیں۔ یہ ایسا سرمایہ ہے جوانسانوں کے لئے بہشت جاوید اور ابدی سعادت کا امکان فراہم کرسکتا ہے۔ ہمکو اس عمر کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہے۔ گذراں عمر کا خیال زندگی کے شب و روز اور عمر کے لمحات اور اوقات کا احساس کریں، اس گذراں وقت کے بارے میں توجہ مبذول کریں’’عمر ایک برف کی مانند ہےیہ لمحہ بہ لمحہ گھٹتی ہی جاتی ہے اور یہ صرف اس لئے ہوتی ہے کہ یہ ہمارا حصول آخرت کے لئے  سرمایہ ہمیں یہ توجہ رکھنی ہوگی کہ سرمایہ کا استعمال کس طرح سے کریں اور کن چیزوں اور راہوں کے لئے اس کا استعمال عمل میں لائیں۔اس موت کے بارے میں غور و فکر جواس دنیا سے گذر کر دوسرے عالم کی جانب بازگشت ہے جو جسم سے روح کے نکلنےاور ملک الموت سے ملاقات اور روبرو ہونے کا وقت ہے، یہ لمحہ ہم ہمارےلئے پیش آتا ہے:’’کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَۃُ الْمَوْتِ‘‘۔(سورۂ آل عمران:۱۸۵) ہم سب کو اس کا مزہ چکھنا ہے۔اس وقت ہماری حالت کیاہوگی ؟ہمارے دلوں کی کیفیت کیسی ہوگی، یہ سب ایسی باتیں ہیں کہ جن پر غور و فکر کی ضرورت ہے اور ان سب چیزوں پر غور و فکر لازمی اوربنیادی تفکرات اور ضروریات میں سےہے۔

پروگرام کا سلسلہ کچھ ایسا رکھا گیاکہ لوگوں نے اپنے تاثرات  پیش کئے تو پھر محترم سید کوثر عباس رضوی(ایدوکیٹ) کو ناظم پروگرام نے پکار لگائی جنہوں نے ایران کے رہبر عزیزسے متاثرہوکر کہا! ایران کی کامیابی اسے عظیم رہبر پانے کی وجہ سے ہے جسن نے دنیابھرمیں عبادت اور ریاضت کوعام کیا ،یہ واحد قوم ہے جہاں کی پلیس بھی عارفانہ گفتگوکیاکرتی ہے ،شہید سردار سلیمانی جودنیابھر کے کے لئے ایک نمونہ اورآیڈیل بنکے پیش ہوئے اسے قوم ہرگز فراموش نہیں کرسکتی آپکی عبادت کا اور تلاوت کایہ عالم تھا کہ کسی جگہ ایصال ثواب کے انس باقرآن کا جلسہ منعقد  اتوآپ کی نظر پڑی فوراگاڑی سے اترے اور شامل ہوکرخوب تلاوت قرآن مجیدکی،آپکے جانے کے بعد لوگوں کوخبر ہوئی کہ آپ شہید سردار سلیمانی تھےخداانکی روح کوشاد اور آبادرکھے آمین ثم آمین۔ 

مولوی فیضان علی نے مقالہ کے اندازمیں اپنے مطالب کورمضان المبارک کی فضیلت اوراہمیت کے عنوان سے کچھ اسطرح سمیٹاکہ ماہ خداکی آمدآمد ہے، یہ برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن مقدس کا نزول اسی پاک مہینے میں ہوارمضان المبارک کی فضیلت اور اس کے تقاضے یہ ہے کہ اس ماہِ مبارک کی اپنی طرف خاص نسبت فرمائی ہےرمضان کی اہمیت کے بارے بہت ساری حدیثیں بیان ہوی ہیں،جب رمضان المبارک کا چاند نظر آتا تو حضرت محمدمصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ!یہ چاندخیروبرکت کاہے رسول اﷲصلی اﷲعلیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ  جب  ماہ مبار ک آتاہے تو شیاطین کو بند کرتے ہوئے جہنم کادروازہ بھی بند کیاجاتاہےاور بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک آواز دینے والا آواز دیتا ہے اے نیکی کے طالب آگے بڑھ کہ نیکی کا وقت ہے اور اے بدی کے چاہنے والے بدی سے رک جااوراپنے نفس کو گناہوں سے باز رکھ،،روزہ وہ عظیم فریضہ ہے جس کو رب ذوالجلال نے اپنی طرف منسوب فرمایا ہے اور قیامت کےدن رب اس کا بدلہ اور اجر بغیر کسی واسطہ کے بذات خود روزہ دار کو عنایت فرمائے گا۔خداوند کریم نے اپنے بندوں کے لئےعبادات کے جتنے بھی طریقے بتائے ہیں ان میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور پوشیدہ ہےپڑھا، اس لیے اس کے گناہ معاف کردیے جائیں ظاہرسی بات ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے روز مومنین صالحین کی شفاعت فرمائیں گے، اسی طرح خود آدمی کے اعمال بھی اس کے حق میں شفیع ہوتے ہیں۔ آدمی کے اعمال خدا کے حضور میں یہ شفاعت کرتے ہیں کہ یہ آدمی یہ نیکیاں کرکے آیا ہےکے اعمال خدا کے حضور یہ شفاعت کرتے ہیں ۔

قم المقدسہ ایران سے جانے والے حضرات میں یہ نمایاں خوبیاں پائی جاتی ہیں کہ جامعت المصطفیٰ العالمیہ سےجس نےبھی علمی،ثقافتی اورتحقیقی امورکودقت سےدیکھا،اسےبروئے کارلانے کی زحمت ضرورفرماتےہیں،چونکہ امام خمینیؒ کاانقلاب جہانی اور علمی،ثقافتی انقلاب ہےجس سے دوررہنے میں ہلاکت اوراسے گلے کاہارپہنانے میں نجات اورکامیابی ملتی ہے حوزہ علمیہ آیت اللہ خامنہ ای بھی۱۴سالہ خدمات کوبھی  گاہ بگاہ اسی امورکوپیش کرکےاپنے اوپرفخر کرتاہے۔

اسی سبب بعنوان سوال وجواب بھی اس موقع پرزحمت کش طلاب [مولوی صایم رضوی،مولوی مہدی رضوی اورمولوی فیضان رضوی]کے ذریعے ایک اہم اورنورانی مطالب پیش ہوئے۔

(۱) سوال:کیایہ وہ مہینہ ہے جس کے آغاز میں رحمت ہے، وسط میں مغفرت ہے اور آخر میں دوزخ سے رہائی ہے؟

جواب!جی ہاں ادھر اس مبارک مہینے کی آمدہوتی ہے جیسے ہی آپ روزہ رکھنا شروع کرتے ہیں ادھر اللہ کی رحمت آپ پر سایہ فگن ہوتی ہے،وسط تک پہنچتے پہنچتےخدائے متعال آپ کے قصوروں سے درگزر فرما لیتا ہے  اور آپ کی مغفرت ہوجاتی ہے۔ اس طرح جب آپ رمضان کے آخرمیں پہنچتے ہیں تو ادھر آپ آخری روزہ رکھتے ہیں، ادھر آپ کو دوزخ کے خطرے سے آزادی حاصل ہوجاتی ہےمغغفرت ہوجاتی ہے۔

سوال:اس آزادی کا مطلب کیاہے؟                             

جواب! اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ جب آپ آخری روزے کی وجہ سے آپ کو دوزخ سے آزادی حاصل ہوگئی تو اب آپ آزاد ہیں کہ جو جی چاہے کرتے پھریں، اب آپ پر کوئی گرفت نہیں ہوگی۔ ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ بعض لوگ رمضان کے ختم ہوتے ہی وہ سب پابندیاں توڑ ڈالتے ہیں جو اس مبارک مہینے میں انھوں نے اپنے اُوپر عائد کر رکھی ہوتی ہیں بس رمضان ختم ہوا اور وہ عین عید کے دن (یعنی شوال کی پہلی ہی تاریخ کو) سینما دیکھنے چلے گئے اور پھر اس سے آگے بڑھ کر ناچ گانے کا شوق بھی کرلیا۔ پھر کہیں بیٹھ کر کچھ تھوڑا بہت جوا وغیرہ بھی کھیل لیا۔ یہ سب کچھ اگر ایک شخص نے کرڈالا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ادھر وہ دوزخ کے خطرے سے آزاد ہوا اور اِدھر اس نے پھر اس میں کودنے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ ظاہرسی بات ہے کہ کوئی بھلا آدمی، جس کے دل میں ایمان کی کچھ روشنی اور خوفِ خدا کی کوئی رمق موجود ہو تویہ کھیل کھیل نہیں  سکتا اورخودکواتنے سستے میں نہیں بیچ سکتا؟

(۳) سوال :ماہ رمضان اور روزہ کے فضائل کے بارے آپ کیابیان کرسکتے ہیں؟

جواب !رمضان المبارک توبہ و استغفار ، رحمت، بخشش و مغفرت، دعاؤں کی قبولیت اوراللہ کا خاص قرب حاصل کرنے کا مہینہ ہے۔ یہ نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے امت محمدی کو بخشنے کا بہانہ اور ذریعہ ہے لہٰذا ہمیں اس ماہ مبارک میں خوب عبادت،ریاضت،توبہ و استغفار کے ذریعہ خداوندعالم کو راضی کرکے اپنی بخشش ومغفرت کا سامان کرنا ہوگا۔ معبودحقیقی  نے سابق امتوں کی طرح امت محمدی پر بھی روزے فرض کیے تاکہ یہ اس کے ذریعہ تقویٰ و پرہیز گاری حاصل کرے۔                             

(۴) سوال :رسول اسلام(ص) نے  ماہ رمضان کے حوالے سے صحابیوں سےکیا بیان فرمایا؟

جواب: رمضان المبارک ہی وہ مقدس مہینہ ہے کہ جسمیں خداوندعالم نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کی صورت میں نازل فرمائی جو قیامت تک آنے والے لوگوں کیلئے رشد و ہدایت کا ذریعہ ہےاوریہ آنے والا مہینہ بڑاہی مبارک مہینہ ہے۔  اس میں شبیں (شبِ قدر) ہے جو ہزارمہینوں سے بڑھ کر ہے،،،،یہ مہینہ صبر کا ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ لوگوں کے ساتھ غم خواری کرنے کا ہے اور اس مہینہ میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے، جو شخض کسی روزہ دار کاروزہ افطار کرائے اس کیلئے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے نجات کا سبب ہوگا۔                                             

(۵)سوال: کیاافطاری کے سلسلے سےکوئی حدیث رسول اسلام(ص) سے بیان کرسکتے ہیں؟

جواب!جب حضرت محمد(ص) نے افطاری کی فضیلت بیان کی توکسی نے کہایانبی خدااگرکوئی شخص اتنی وسعت نہیں رکھتا کہ روزہ دارکو افطار کرائے توآپؐ نے فرمایا کہ (پیٹ بھر کر کھانے پر موقوف نہیں) یہ ثواب تو اللہ تعالیٰ، ایک کھجور سے افطار کرا دے یا ایک گھونٹ پانی پلا دے وہ بھی اس ثواب کامستحق ہو۔

 اس اہم پروگرام میں مصرعہ (قرآن کی بہارہے ماہ صیام میں)بھی دیاگیا جسے ندیم رضوی،کرارسلمہ،ممتازبھیک پوری،کلب عباس وارث، انتظاررضوی، وفادرارضوی،قمرمظفرپوری،یعسوب عباس رضوی،جناب رضا عباس گوپالپوری،اورڈاکٹراعجازبھیک پوری مشاق شعراع کرام نے اپنے سامعین کے قلوب کو منور کیا۔

تصویری جھلکیاں:

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .