۳۰ فروردین ۱۴۰۳ |۹ شوال ۱۴۴۵ | Apr 18, 2024
شاعر اہلبیت عشرت لکھنوی انتقال کر گئے

حوزہ/ سکریٹری تنظیم المکاتب نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ مرحوم عشرت لکھنوی کا شمار دیندار شعراء میں ہوتا ہے، انھوں نے علم و فن کو اپنے دین اور دینی مقاصد کے لئے وسیلہ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ دیندار تھے دینی سرگرمیوں کو پسند کرتے تھے، علم دوست تھے علمی کاموں کی قدر کرتے تھے، ادارہ تنظیم المکاتب کی خدمات کو سراہتے تھے، ادارہ کے پروگرامس میں دعوت دی جاتی تو قبول فرماتے اور تشریف لاتے تھے۔ 

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،انتہائی افسوس ناک خبر موصول ہوئی کہ ممتاز ادبی شخصیت شاعر اہلبیت جناب عشرت لکھنوی صاحب اس فانی دنیا سے کوچ کر گئے اور ضیافت رحمن کے مہینہ میں اللہ کے دائمی مہمان بن گئے۔ مولانا سید صفی حیدر زیدی سکریٹری تنظیم المکاتب نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم عشرت لکھنوی کی ادبی شخصیت ہر چاہنے والے پر واضح ہے کہ آپ ہزاروں نوحوں، سلام، قصیدے، رباعیات اور قطعات کے خالق تھے لیکن جس بات نے انکی شخصیت اور فن کو چار چاند لگایا وہ ذمہ داری کا احساس، مقصد کی شناخت اور اس پر عمل تھا۔ جیسا کہ روایات میں ہے امام سجاد علیہ السلام نے جناب فرزدق کو، امام محمد باقر علیہ السلام نے جناب کمیت کو، امام جعفر صادق علیہ السلام نے اشجع اسلمی کو، امام موسی کاظم علیہ السلام نے بوڑھے مداح کو اور امام علی رضا علیہ السلام نے جناب دعبل اور ابراہیم بن العباس کو انکے قصائد اور مرثیے سن کر نوازا، لیکن جس نکتہ کی جانب امام محمد باقر علیہ السلام نے جناب کمیت سے دوران گفتگو اشارہ کیا کہ "میں تم سے وہی بات کہوں گا جو میرے جد نے حسان بن ثابت سے کہی تھی کہ جب تک تم ہمارا دفاع کرو گے روح القدس کی تائید تمہارے شامل حال رہے گی۔" 

انہوں نے کہا کہ یہ دفاع اور پاسبانی اسی وقت ممکن ہے جب انسان کو اہلبیت علیہم السلام کی معرفت ہو، احساس ذمہ داری ہو، مقصد کی شناخت ہو اور اسی کے مطابق عمل ہو، اگر ایسا نہ ہوا تو انسان اپنی شخصیت کو کوڑیوں کے بھاو بیچ دیتا ہے اور اسے اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ شاید  سی لئے امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نے بشریت کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا: "تمہارے نفس کی قیمت جنت کے علاوہ کچھ اور نہیں۔"  یعنی کامیاب انسان وہی ہے جو جنت کے علاوہ کسی اور چیز کا سودا نہ کرے۔ 

مولانا صفی حیدر زیدی نے کہا کہ مرحوم عشرت لکھنوی کا شمار دیندار شعراء میں ہوتا ہے، انھوں نے علم و فن کو اپنے دین اور دینی مقاصد کے لئے وسیلہ سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ دیندار تھے دینی سرگرمیوں کو پسند کرتے تھے، علم دوست تھے علمی کاموں کی قدر کرتے تھے، ادارہ تنظیم المکاتب کی خدمات کو سراہتے تھے، ادارہ کے پروگرامس میں دعوت دی جاتی تو قبول فرماتے اور تشریف لاتے تھے۔ 

آخر میں کہا کہ ایسے عالم میں ایک ایسے مخلص اور دیندار کی رحلت عظیم سانحہ ہے۔ خدا وند عالم رحمت نازل فرمائے، مغفرت فرمائے۔ جملہ پسماندگان، وابستگان، عقیدت مندان اور شاگردان کی خدمت میں تعزیت عرض ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .