تحریر: مولانا سید ظفر عباس رضوی،قم المقدسہ
حوزہ نیوز ایجنسی। آج کے اس موجودہ حالات پہ اگر ہم نظر ڈالیں اور غور کریں تو ہم کو پتہ چلے گا کہ تقریبا دو سال سے پوری دنیا کے لوگ کرونا جیسی مہلک اور منحوس بیماری میں مبتلا ہیں خاص طور سے اس وقت ہندوستان کے لوگ، ہر روز کسی نہ کسی کے مرنے کی خبر آ رہی ہے اور ہر وقت یہ خوف رہتا ہے کہ کب کون سی خبر آ جائے نہیں پتہ، بوڑھے ہوں یا جوان سب مر رہے ہیں۔
یسے اسیے لوگ مر رہے ہیں جن کے بارے میں لوگوں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی دنیا سے چلے جائیں گے، شاید یہ زندہ رہنے والوں کے لئے عبرت ہو، ہر انسان مضطرب اور پریشان ہے اور موت سے ڈرا ہوا ہے، شہرت کے مطابق ندیوں میں لاشیں بہہ رہی ہیں۔
ایک عجیب سا سماں، افرا تفری کا ماحول اور حشر کا منظر ہے، پیسہ ہونے کے باوجود بھی لوگ علاج نہیں کروا پا رہے ہیں، جن کے پاس نہیں ہے اور جو غریب ہیں ان کی بات ہی الگ ہے، اس وقت شاید ہی کوئی ایسا غافل انسان ہو جسے موت یاد نہ آ رہی ہو۔
اس بیماری کے سلسلہ سے علماء اور مراجع نے بہت بعض چیزیں بیان کی ہیں جیسے حدیث کساء، زیارت عاشورہ، آیت الکرسی، سورہ فیل، صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا کا پڑھنا اور صدقہ وغیرہ نکالنا، اس کے علاوہ بہت سے افراد متعدد نسخہ بیان کر رہے ہیں، لیکن اس وبا اور مرض کا سب سے بڑا علاج یہ ہے کہ انسان جتنا ہو سکے احتیاط کرے اور گھر میں رہے باہر نہ نکلے، چند لوگ ایک ساتھ جمع نہ ہوں اور بھیڑ والی جگہوں پہ نہ جائیں۔
ہمارے وطن عزیز میں طبقاتی فاصلے بہت زیادہ ہیں یعنی جن کے پاس ہے بہت ہی زیادہ ہے اور جن کے پاس نہیں ہے کھانے کو بھی نہیں ہے، اب اس احتیاط اور لاک ڈاؤن کے زمانہ میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو مزدور اور کام کرنے والا طبقہ ہے جو ہر روز کام کر کے اپنا پیٹ پالتا تھا، اور اگر وہ گھر سے باہر نہیں نکلے گا تو پھر اس کے یہاں چولہا بھی نہیں جل سکے گا اور وہ بھوک سے مر جائے گا، ایسے میں بہت سی تنظیمیں ہیں، جماعتیں ہیں اور بہت سے نیک اور اللہ والے لوگ ہیں جو دوسروں کی مدد کررہے ہیں کھانے پینے کے سامان فراہم کر رہے ہیں اور واقعا وہ لائق تعریف بھی ہیں خدا ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور ان کے مال و دولت میں بھی اضافہ فرمائے، اور جس کے پاس ہے اور اللہ نے دیا ہے تو اسے خرچ کرنا بھی چاہیئے، اور جس کے پاس جتنا بھی ہو لیکن وہ خدا کے سامنے فقیر ہی ہے چاہے جتنا ہی بڑا آدمی کیوں نہ ہو اس لئے کہ خود قرآن نے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ أَنْتُمُ الْفُقَرَاءُ إِلَى اللہ وَاللہ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيدُ"(فاطر 15)
"انسانو تم سب اللہ کی بارگاہ کے فقیر ہو اور اللہ صاحب دولت اور قابل حمد و ثنا ہے"
انسان فقیر ہی نہیں بلکہ سراپا فقر ہے، پھر جب سارے انسان سراپا فقر ہیں تو جس کے پاس ہے اسے دوسروں کی مدد کرنا چاہیئے ویسے بھی خرچ اور انفاق کرنے سے برکت ہوتی ہے اور مال و دولت میں اضافہ ہوتا ہے لیکن شیطان خرچ کرنے سے روکتا ہے قرآن مجید میں خدا وند عالم نے فرمایا:
"الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ ۖ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا" (بقرہ 268)
"شیطان تم سے فقیری کا وعدہ کرتا ہے اور تمہیں برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خدا مغفرت اور فضل و احسان کا وعدہ کرتا ہے"
جب کوئی خرچ کرنا چاہتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ خرچ مت کرو ورنہ فقیر ہوجاؤگے، لیکن ہمیں پتہ ہونا چاہیئے کہ دوسروں کی مدد کا کتنا زیادہ اور عظیم ثواب اور اجر ہے، امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"مَنْ عَرِقَتْ جَبْهَتُهُ فِى حاجَةِ اَخِيهِ فِى اللّهِ عَزَّوَجَلَّ لَمْ يُعَذِّبْهُ بَعْدَ ذلِكَ" (مشکاة الانوار ص 193 ناشر- المکتبة الحيدرية نجف)
"اگر کسی کی پیشانی پہ اپنے مومن بھائی کی حاجت پوری کرنے کے سلسلہ سے پسینہ آجائے تو خدا اس کے اوپر اس کے بعد عذاب نازل نہیں کرے گا"
حدیث میں یہ نہیں ہے کہ اس نے حاجت پوری کی یا نہیں بس اتنا ہے کہ اس نے سعی و کوشش کی اور اس کی پیشانی پہ پسینہ آگیا تو خدا اس کے بعد اس کے اوپر عذاب نہیں کرے گا، اب اس سے بڑھ کے نیکی کرنے کی اور بھی کیا فضیلت ہو سکتی ہے-
دوسری جگہ پہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا:
"مَنْ قَضی لِمُؤمنٍ حاجةً قَضی اللهُ لَهُ حوائجَ كثیرةً أَدْناهُنَّ الجنَّةُ"
(قرب الاسناد ص119 ناشر- موسسہ آل البیت علیہم السلام قم)
"اگر کوئی شخص اپنے مومن بھائی کی ایک حاجت کو پوری کرتا ہے تو خدا اس کی بہت سی حاجتوں کو پوری کرے گا ان میں سے سب سے کم اور ادنی حاجت جنت ہوگی"
اتنا زیادہ ثواب ہے دوسروں کی ایک ضرورت کو پوری کرنے کا کہ خدا سب سے کم یہ اجر دے گا کہ نیکی کرنے والے کو جنت میں داخل کر دے گا-
لیکن انھیں مدد کرنے والوں میں سے بعض ایسے بھی مل جائیں گے جو اس طریقہ سے مدد کرتے ہیں کہ ایک غیرت مند اور خوددار انسان شرم و حیا سے ڈوب مرے اور کبھی مدد لینا پسند نہ کرے، بہت سے ایسے لوگ ہیں جو بہت معمولی سی مدد کرتے ہیں اور پوری دنیا کو خبر ہو جاتی ہے، فورا اخبار میں فوٹو آجاتی ہے اور موبائل سے ویڈیو بھی بن جاتی ہے، کسی غریب اور ضرورت مند کو ایک عدد پھل دئیے جا رہے ہیں تو کئی لوگ مل کے دے رہے ہیں اور فوٹو بھی لے رہے ہیں، اگر اس طریقہ سے مدد ہوگی تو غریب انسان بھوک سے مرنا پسند کرے گا لیکن مدد لینا پسند نہیں کرے گا، خدا وند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرما رہا ہے کہ:
"إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقاتِ فَنِعِمَّا هِیَ وَ إِنْ تُخْفُوها وَ تُۆْتُوهَا الْفُقَراءَ فَهُوَ خَیْرٌ لَكُمْ وَ یُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَیِّئاتِكُمْ وَ اللَّهُ بِما تَعْمَلُونَ خَبیر"(بقرہ271)
"اگر تم صدقہ کو علی الاعلان دو گے تو یہ بھی ٹھیک ہے اور اگر چھپا کر فقراء کے حوالے کر دوگے تو یہ زیادہ بہتر ہے اور اس کے ذریعہ سے تمہارے بہت سے گناہ معاف ہو جائیں گے اور خدا تمہارے اعمال سے خوب واقف اور باخبر ہے"
جب کہ حدیث میں آیا ہے پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا کہ:
"فَإِذَا تَصَدَّقَ أَحَدُكُمْ بِیَمِینِهِ فَلْیُخْفِهَا عَنْ شِمَالِه"* (دعائم الاسلام ج 1 ص 241 ناشر- موسسہ آل البیت علیہم السلام قم)
"نیکی اس طرح سے کرو کہ اگر داہنے ہاتھ سے کرو تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو"
اس حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ اس طریقہ سے مدد کرو کہ بایئں ہاتھ کو خبر نہ ہو یعنی خود لینے والے کو بھی احساس نہ ہو کہ کس نے دیا۔
دوسری جگہ پہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"صَدَقَةُ السِّرِّ مَثْرَاةٌ لِلْمَال"*(کشف الغمة في معرفة الأئمة ج 2 ص 206 ناشر- بنی ہاشم تبریز)
"مخفی اور پوشیدہ طور سے نیکی کرنے سے مال و دولت میں اضافہ اور برکت ہوتی ہے"
دوسری جگہ پہ امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:
"الْبِرُّ وَ صَدَقَةُ السِّرِّ یَنْفِیَانِ الْفَقْرَ وَ یَزِیدَانِ فِی الْعُمُرِ وَ یَدْفَعَانِ عَنْ سَبْعِینَ مِیتَةَ سَوْءٍ"* (کافی ج7 ص209 ناشر-دارالحدیث قم)
"پوشیدہ اور مخفی طور سے نیکی اور انفاق کرنا فقر کو دور کرتا ہے، عمر کو لمبی اور طولانی کرتا ہے اور ستر قسم کی حادثاتی اور ناگہانی موت کو دور کرتا ہے"
اسی طریقہ سے ایک اور جگہ پہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا:
"صَدَقَةُ السِّرِّ تُطْفِئُ الْخَطِیئَةَ كَمَا تُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ وَ تَدْفَعُ سَبْعِینَ بَاباً مِنَ الْبَلَاء"*(مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل ج 7 ص 184 ناشر- موسسہ آل البیت علیہم السلام قم)
"چھپ کے اور پوشیدہ طور سے نیکی کرنا گناہ کو اسی طرح مٹا دیتا ہے جس طرح سے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، اور ستر بلاء و آفت کو دور کر دیتا ہے"
حدیثوں کو پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے انسان نیکی اور مدد مخفی طور پہ اور چھپ کے انجام دے اور ائمہ علیہم السلام کا بھی یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ حضرات زیادہ تر رات کے اندھیروں میں ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کے دروازوں پہ جاتے تھے اور اپنے چہرے کو بھی ڈھک لیتے تھے تاکہ کوئی پہچان نہ سکے اور خود لینے والا بھی پہچان نہ سکے، یہ ہے نیکی اور مدد کرنے کا طریقہ جو معصومین علیہم السلام نے ہمیں بتایا اور سکھایا ہے،
اور ویسے بھی ہماری اردو زبان میں ایک مثل بولی جاتی ہے کہ "نیکی کر دریا میں ڈال"
اس مثل کا دو ہی مطلب سمجھ میں آتا ہے، پہلا یہ کہ اگر نیکی کرو تو اسے جتاؤ نہیں اور دوسرا یہ کہ نیکی کرنے بعد یہ توقع نہ رکھو کہ جس کے ساتھ نیکی کی ہے وہ بھی تمہارے ساتھ نیکی کرے، جس کے لئے نیکی کی ہے وہ اجر دے گا،
تو اگر ہم واقعا معصومین علیہم السلام کے ماننے والے ہیں تو ہمارا بھی نیکی کرنے کا طریقہ اور انداز انھیں جیسا ہونا چاہیئے، اس لئے کہ جس کے لئے ہم یہ کام کر رہے ہیں وہ دیکھ رہا ہے اس کے لئے فرق نہیں کرتا کہ نیکی اور مدد دن کے اجالے میں انجام دی جائے یا رات کی تاریکی میں، موبائل سے فوٹو لیں تب بھی اسے پتہ چل جائے گا اور نہ لیں تب بھی اسے خبر ہو جائے گی، وہ تو بس نیت اور خلوص دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق ثواب اور اجر دیتا ہے،
لہذا ہمیں دوسروں کی مدد اور حاجت روائی خدا کے لئے کرنی چاہئیے نہ کہ لوگوں کے لئے اور نہ ہی شہرت و اخبار اور موبائل کی زینت بننے کے لئے،
اس سخت اور مشکل حالات میں واقعا غریبوں، مزدوروں، اور حاجت مندوں اور بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا بہت ہی ضروری ہے اور جو جس اعتبار سے بھی جس کی بھی مدد کر سکتا ہے وہ کرے، اس لئے کہ یہی نیک اعمال دنیا میں بھی کام آئیں گے اور کل کو آخرت میں بھی نجات اور بخشش کا سبب بنیں گے انشاءاللہ، اور اس دو دن کی دنیا میں اس کے علاوہ کچھ ہے بھی نہیں اور ویسے بھی انسان کو ہمیشہ یہاں پہ رہنا بھی نہیں ہے۔
لہذا ہمیں دوسروں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنا چاہیئے بس مدد کرتے وقت اتنا خیال رہے کہ ہماری وجہ سے کسی کی غربت اور ضرورت کا مذاق نہ اڑنے پائے اس لئے کہ اگر ہمارے ساتھ یہی کام کوئی دوسرا کرے تو ہماری غیرت کو گوارہ نہیں ہوگا، اسی طرح ہم کو بھی دوسروں کی غیرت اور عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئیے اور اس کو ذرہ برابر بھی احساس کمتری اور ذلت و ندامت کا احساس نہیں ہونے دینا چاہیئے-
آخر میں خداوند عالم سے دعا ہے کہ خدا محمد(ص) و آل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں اس منحوس اور مہلک بیماری کو جلد سے عالم بشریت سے دور فرمائے اور جو بھی حضرات اس مہلک بیماری میں مبتلا ہیں انھیں جلد سے جلد شفائے کامل و عاجل ساتھ ہی ساتھ ہم سب کو دوسروں کی مدد اور ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔