تحریر: جناب سید حسین موسوی
حوزہ نیوز ایجنسی। ہم نے مسلسل یہ تو بیان کیا ہے کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام نے فرمایا ہے :
"ہماری خوشی میں خوشی کریں اور غم میں غم کریں"
لیکن ہم نے یہ بیان نہیں کیا کہ آئمہ اہل بیت علیہم السلام کس چیز کو خوشی کہتے ہیں اور کس چیز کو غم؟ اس لیے مندجہ بالا حکم تو ہم نے اہل بیت علیہم السلام سے لیا لیکن خوشی اور غمی کے طریقے اپنے معاشرے میں رائج ثقافت سے لیے۔ ہمارے معاشرے میں خوشی کی رسم گانے اور ناچنے کے علاوہ اور کوئی نہیں سمجھی جاتی۔ اسلیے ہم نے وہی روایات دینی خوشی میں شامل کر دیے۔
آئمہ اہل بیت (ع) کی سیرت میں خوشی:
حضرت علی علیہ السلام سے لیکر آخری امام تک سب ہی آئمہ کی زندگی میں دینی خوشیاں یعنی عیدیں باربار آتی رہی ہیں، آخر وہ کیسے خوشی مناتے تھے؟۔ اگر ان کی سیرت پر نظر کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سیرت میں خوشی کے دن یہ چیزیں ملتی ہیں:
1۔ غسل کرنا، خوشبو لگانا اور اچھا لباس پہننا۔
2۔ چندر رکعت نماز پڑھنا۔
3۔ مخصوص دعائیں پڑھنا۔
4۔ مؤمنین کو کھانا کھلانا۔
5۔ حاجتمندوں کی ضرورت پوری کرنا اور صدقہ دینا۔
6۔ دوست احباب اور رشتیداروں سے ملنا اور انہیں تحائف دینا۔
7۔ مستحب روزا رکھنا (سواء عید قربان اور عید الفطر کے)۔
8۔ امام حسین علیہ السلام کی زیارت پڑھنا۔
9۔ مؤمنین کے ساتھ ملکر علمی مذاکرہ کرنا۔
10۔ دینی معارف اور احکام سیکھنا۔
11۔ دینی اخوت کو بڑھانے کے کام کرنا۔
ہو سکتا ہے کہ آپ کہیں کہ ان میں سے اکثر چیزیں تو ہمیں خوشی نہیں دیتی ہیں بلکہ ایک طرح سے ہمارے اوپر بار ہوتی ہیں۔
جواب:
یہ بات درست ہے کہ یہ چیزیں یا ان میں سے بعض چیزیں ہمیں خوشی ہیں دیتی ہیں، جبکہ یہ خوشی کا دن ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم ان چیزوں میں موجود خوشی اورسکون کو محسوس نہیں کر پاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہمارا روحانی مزاج بیمار ہے۔ جب انسان بیمار ہو تو پانی اسے کڑوا محسوس ہوتا ہے، حقیقت میں پانی کڑوا نہیں ہوتا، انسان کا ذائقہ خراب ہو گیا ہے۔ اسی طرح ہم نے گناہ کرکے اپنے روح کا ذائقہ خراب کر لیا ہے، ہمیں چاہیے کہ اپنے روح کا ذائقہ درست کریں۔