تحریر: مولانا سید کرامت حسین شعور جعفری
حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا میں کچھ تصورات ایسے ہیں جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں؛ وہ دل کے اندر خاموش لہروں کی طرح ہلچل پیدا کرتے ہیں، ان میں سے ایک ہے نسل اور تسلسل کا تصور کہ انسان اپنے وجود کا کچھ حصہ اپنے بعد باقی دیکھنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کسی نہ کسی صورت میں جاری رہے، اس کی محنت، محبت، یاد اور اثر مٹ نہ جائے؛ یہی احساس اسے کارِ خیر پر آمادہ کرتا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا تسلسل صرف خون کی رگوں سے نہیں بہتا، بلکہ عملِ صالح، علمِ نافع، اور خیرِ عام کے راستوں سے بھی رواں رہتا ہے۔ انسان اپنے اچھے اعمال، اپنے علم، اپنی خدمت، اور اپنی محبت سے بھی نسلیں پیدا کرتا ہے — ایسی نسلیں جو جسم سے نہیں، روح سے جنم لیتی ہیں۔
قرآن کی روشنی میں “نسلِ صالحہ” کا مفہوم:
قرآنِ کریم انسان کو یہ سبق دیتا ہے کہ زندگی کی اصل زینت اور دوام، جسمانی اولاد نہیں بلکہ اعمالِ صالحہ ہیں — وہ نیکیاں جو زمانے کے اندر پھیلتی ہیں اور قیامت تک ثواب کے پھول کھلاتی رہتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:“الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَالْبَاقِيَاتُ الصَّالِحَاتُ خَيْرٌ عِندَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرٌ أَمَلًا”(سورۃ الکہف: 46)“مال اور اولاد دنیا کی زینت ہیں، لیکن باقی رہنے والے نیک اعمال تیرے رب کے نزدیک بہتر ہیں بدلے کے لحاظ سے اور بہتر ہیں امید کے لحاظ سے۔”
یہ آیت گویا زندگی کے فلسفے کو بدل دیتی ہے۔
یہ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ جو چیز انسان کے ساتھ نہیں رہتی، وہ زینت ہے؛ اور جو اس کے بعد بھی باقی رہتی ہے، وہ حقیقی اولاد ہے۔
نیک اعمال، صدقۂ جاریہ، خیرات، تعلیم، اور کسی کے دل میں امید پیدا کر دینا — یہی وہ نسل ہے جو فنا نہیں ہوتی۔
نیک اعمال: روحانی اولاد:
انسان کا ہر اچھا عمل ایک بیج ہے جو زمین پر بو دیا جاتا ہے۔
وہ بیج کبھی تعلیم کی شکل میں اُگتا ہے، کبھی کسی کی خوشی میں، کبھی خدمت میں، کبھی دعا میں۔
وہ نیکی جو آپ نے کسی کے دل میں بوئی، وہ آپ کے بعد بھی پھوٹتی رہتی ہے
ہر وہ نیکی جو انسان دنیا میں کرتا ہے — وہ اُس کی اولاد ہے۔
ہر وہ علم جو انسان کسی کو سکھاتا ہے ، وہ اُس کا فرزند ہے۔
ہر یتیم بچہ جس کے سر پر ہم نے ہاتھ رکھا، وہ ہمارا بیٹا ہے۔
ہر غریب جس کی بھوک تم نے مٹائی، وہ تمہاری اولاد ہے۔
ہر درخت جو تم نے لگایا، ہر چراغ جو تم نے جلایا، ہر آنسو جو تم نے کسی کے چہرے سے پونچھا — یہ سب تمہارے نام کا صدقہ ہیں، جو روحانی اولاد ہیں۔
رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا:“إِذَا مَاتَ الإِنسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلاثٍ: صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، أَوْ عِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ.”(صحیح مسلم)“جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ منقطع ہو جاتا ہے، مگر تین چیزیں باقی رہتی ہیں: صدقہ جاریہ، وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے، اور نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرے۔”
اب غور کریں — یہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ نے “صدقہ جاریہ” اور “علمِ نافع” کو بھی اولاد کے برابر قرار دیا۔
یعنی اگر تمہارے گھر میں کوئی بچہ نہیں تو تمہارا مدرسہ، لائبریری، کنواں، درخت، علم یا نیکی —یہ سب تمہارے بچے ہیں، جو تمہارے بعد بھی تمہارے لیے دعا کرتے رہیں گے۔
راہِ خدا میں خرچ کیا گیا مال — “اولادِ جاوداں”
قرآن کہتا ہے:“مَثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ، فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ”(سورۃ البقرۃ: 261)“جو لوگ اپنے مال کو راہِ خدا میں خرچ کرتے ہیں، ان کی مثال اس دانے کی ہے جو سات بالیاں اُگاتا ہے، ہر بالی میں سو دانے۔” یعنی ایک نیکی، سات سو نیکیوں میں بدل جاتی ہے۔
اور ہر نیکی — ایک نئی روح، ایک نئی نسل کی طرح بڑھتی جاتی ہے۔
انسان اگر کسی کے لیے تعلیم کا بندوبست کرتا ہے کسی بچے کی تعلیم کی ذمہ داری لے لیتا ہے، کسی بیمار کے علاج کے لیے دوائی خریدواتا ہے —تو دراصل وہ اپنی روحانی نسل کو بڑھا رہا ہے ۔
انسان کا مال مرنے کے بعد بھی انسان کے لیے ثواب کا ذریعہ بنا رہتا ہے جبکہ اولاد تو اکثر بھول جاتی ہے۔
محبت، تعلیم اور دعا — اولاد کی دوسری صورتیں:
حضرت علیؑ نے فرمایا:“علم دو، یہ سب سے بہتر میراث ہے۔”
علم، محبت، دعا — یہ تین ایسی اولادیں ہیں جنہیں کوئی زمانہ ختم نہیں کر سکتا۔
تم اگر ایک بچے کو قرآن پڑھنا سکھاتے ہو ایک دل کو امید دیتے ہو، ایک بے سہارا انسان کے لیے دعا کرتے ہو —تو تمہاری اولاد بڑھ رہی ہے، تمہارا دامن بھرتا جا رہا ہے۔
اللہ تعالی کی طرف سے بشارت: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:“يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ، أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَيَجْعَلُ مَنْ يَشَاءُ عَقِيمًا”(سورۃ الشوریٰ: 49-50)اللہ کسی کو بیٹیاں دیتا ہے، کسی کو بیٹے، اور کسی کو دونوں —اور جسے چاہتا ہے، بے اولاد رکھتا ہے۔
لیکن غور کرو!
اللہ “عقیم” بھی “يَجْعَلُ” یعنی چن کر بناتا ہے۔
یہ محرومی نہیں، بلکہ انتخاب ہے۔
ایسے لوگوں کے لیے دروازہ بند نہیں، بلکہ دوسرا دروازہ کھلتا ہے —
عبادت، صدقہ، تعلیم، یتیم نوازی، اور دعا کا دروازہ: یہ وہ اولادیں ہیں جو نہ جوان ہو کر بدتمیز ہوں گی نہ تم سے رشتہ توڑیں گی نہ تمہیں بوڑھا کر کے چھوڑ جائیں گی —بلکہ تمہارے مرنے کے بعد بھی تمہارے لیے مغفرت مانگتی رہیں گی۔
حضرت فاطمہ زہراؑ کی مثال:
خاتونِ جنت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات میں اولادِ حقیقی کے ساتھ اولادِ ایمانی بھی جھلکتی ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:“فاطمہؑ اُمّ اَبِیها ہیں، اور تمام مومنین کے لیے رحمت ہیں۔”یعنی ان کی اولاد صرف حسنینؑ نہیں —بلکہ ہر وہ مومن جو راہِ خدا میں صدق دل سے عمل کرتا ہے، ان کی روحانی اولاد ہے۔
ہر دل میں ایک “اولاد” پلتی ہے:
ہر انسان کے اندر کچھ نہ کچھ جنم لیتا ہے —کسی کے قلم سے کتاب، کسی کے ہاتھ سے نیکی کسی کے دل سے دعا، کسی کے علم سے روشنی۔
یہ سب “اولاد” ہیں — جو جسم سے نہیں، روح سے جنم لیتی ہیں۔
دنیا میں “بے اولاد” کوئی نہیں؛ بس کچھ لوگ اولاد کو گود میں دیکھتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے دن اپنے اعمال کی شکل میں دیکھیں گے۔
خدایا! جنہیں تو نے ظاہری اولاد نہیں دی، انہیں نیکی، صبر اور دعا کی ایسی نسل عطا فرما جو کبھی منقطع نہ ہو۔
ان کے دلوں میں وہ اطمینان نازل فرما جو تیرے فیصلے پر یقین سے پیدا ہوتا ہے۔
انہیں وہ روشنی عطا کر جس سے وہ دوسروں کے لیے چراغ بن جائیں —اور جب وہ تیری بارگاہ میں حاضر ہوں تو ان کے سامنے ان کی “روحانی اولادیں” صف بستہ ہوں اور تو فرمائے:“ھٰذَا مَا قَدَّمْتُمْ لِأَنْفُسِكُمْ، فَكُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ”(الْحَاقَّة: 24)“یہ وہ اعمال ہیں جو تم نے اپنے لیے بھیجے تھے، اب مزے سے کھاؤ پیو، جو تم نے عمل کیے۔”
واقعی، کوئی بھی انسان بے اولاد نہیں ہوتا، کیونکہ ہر نیکی، ہر دعا، ہر خیر —ایک نئی زندگی ہے جو انسان کے وجود سے پھوٹتی ہے، وہی اس کی اولاد ہے ، وہی اس کی نسل ہے، جو اُسے ہمیشہ زندہ رکھتی ہے۔









آپ کا تبصرہ