ہفتہ 5 اپریل 2025 - 18:14
والدین کی زندگی اور موت کے بعد حقوق کی ادائیگی اولاد پر واجب ہے: مولانا نقی مهدی زیدی

حوزہ/ اگر والدین کی موت کے بعد اولاد ان کو فراموش کردے، ان کے لئے کارِ خیر بجا نہ لائے تو اس صورت میں اولاد عاقِ والدین شمار ہوگی۔ اگرچہ ان کی زندگی میں حقوق ادا بھی کیے ہوں اور مرتے وقت تک ان کی خدمت سرانجام دی ہو۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃالاسلام مولانا سید نقی مھدی زیدی نے تاراگڑھ اجمیر میں نمازِ جمعہ کے خطبہ میں نمازیوں کو تقویٰ الٰہی کی نصیحت کے بعد امام حسن عسکری علیہ السلام کے وصیت نامہ کی شرح و تفسیر کرتے ہوئے والدین کے حقوق کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ والد ین سے زندگی اور موت کے بعد نیکی کرنا والدین کی نافرمانی کرنا حرام اور ان کے ساتھ نیکی کرنا واجب ہے، چاہے وہ زندہ ہو ں یا مر گئے ہوں۔ با الفاظ دیگر، والدین کی موت کے بعد بھی اولاد کے ذمے ان کے حقوق باقی رہتے ہیں۔

اگر والدین کی موت کے بعد اولاد ان کو فراموش کردے، ان کے لئے کارِ خیر بجا نہ لائے تو اس صورت میں اولاد عاقِ والدین شمار ہوگی۔ اگرچہ ان کی زندگی میں حقوق ادا بھی کیے ہوں اور مرتے وقت تک ان کی خدمت سرانجام دی ہو۔

مرنے کے بعد والدین کے حقوق

١۔ ایسے واجبات کا ادا کرنا جو انہوں نے اپنی حیات میں انجام نہ دیئے ہوں۔ مثلاً نماز، روزہ، حج اور قرضے وغیرہ

٢۔ ان کی وصیت پر عمل کرنا

٣۔ ان کی مغفرت و بخشش کے لیے مختلف اعمال بجالانا چاہیئے۔ ان کی طرف سے صدقہ دینا، کارِ خیر انجام دینا، مستحب اعمال بجا لانا، مختصر یہ کہ جتنا ممکن ہو مادّی و معنوی تحائف اور ہدیے ان کو ایصال ثواب کریں۔ روایت میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا: قال ابو عبد الله(ع): "ما یمنع الرجل منکم ان یبر والدیه حیین او میتین، یصلی عنهما و یتصدق عنهما و یحج عنهما و له مثل ذلک، فیزیده الله(عز و جل) ببره و صلاته خیراً کثیراً"، کونسی چیز مانع ہے کہ انسان اپنے والدین سے نیکی کرے چاہے وہ زندہ ہو یا مردہ، اس طریقے سے نیکی کرے کہ والدین کی نیت سے نماز پڑھے، صدقہ دے حج بجا لائے اور روزہ رکھے کیونکہ اگر کوئی ایسا کرے تو اس کا ثواب والدین کو پہنچے گا اور اس شخص کو بھی اسی مقدار ثواب دیا جائے گا ، اس کےعلاوہ خدا وند عالم اس شخص کو اسکی نیکی اور نماز کی وجہ سے اس سے بہت زیادہ نیکی عطا کرے گا۔

امام جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:

اِیَّاکُمْ وَعُقُوْقِ الْوَلِدَیْنِ فَاِنَّ رِیْحَ الجَنَّةِ یُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَةِ اَلْفِ عَامٍ وَلَا یَجِدُ ھَا عَاقٍ وَّلَاقَاطِعُرَحِمٍ"، خبردار! والدین کی ناراضگی سے پرہیز کرو۔ بے شک بہشت کی خوشبو ایک ہزار سال دور کے فاصلے سے سونگھی جا سکتی ہے لیکن ماں باپ کے عاق اور رشتہ داروں سے قطعِ تعلق کرنے والا جنت کی خوشبو محسوس نہیں کر سکے گا۔ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے:"انَّ الْعَبْدَ لیَکُوْنُ بَارّاً لِوَالِدَیْہِ فِی حَیوٰتِھِمَا ثُمَّ یُموْتَانِ فَلَا یَقٓضِیْ عَنْھُمَا دَیْنُھمَا وَلَا یَسْتَغفِرُلَھُمَا فَیَکْتُبُہُ اللّٰہُ عَاقاً۔ وَاِنَّہُ لَیْکُوْنُ عَاقاً لَّھُمَا فِیْ حَیٰوتِھِمَا وَغَیْرُ بَارٍّم بھُمَا فَاِذا مَاتَا قَضیٰ دَیْنَھُمَا وَاسْتَغْفَرَ لَھُمَا فَیْکُتبُہُ اللّٰہُ بارّاً،" بے شک اگر ایک بندہ والدین کی زندگی میں تو نیک رہے اور جب وہ دونوں مر جائیں تو وہ اُنہیں بھول جائے، ان کے قرض ادا نہ کرے، اور نہ ہی ان کے لیے مغفرت و رحمت طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے نامہٴ اعمال میں عاق والدین لکھے گا۔ اور دوسرا بندہ ماں باپ کی زندگی میں تو عاق رہے مگر ان کی موت کے بعد ان کے قرضے ادا کرے اور ان کے لیے مغفرت و بخشش طلب کرے تو اللہ تعالیٰ اس بندے کا نام والدین کے ساتھ نیکی کرنے والوں کی فہرست میں لکھے گا۔

خطیب جمعہ تاراگڑھ نے کہا کہ: حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ تمہیں کس چیز کی مشکل درپیش ہے کہ والدین کی حیات و موت میں ان کی خدمت نہیں کرتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ پہلے والدین کے مرنے کے بعد نیکی کرنے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں: ان کی نماز پڑھو (یعنی ان کی قضا نمازیں خود یا اُجرت دے کر پڑھوائیں، اگر ان کے ذمے قضا نماز نہ ہو تو نوافل خود پڑھے یا اُجرت دے کے پڑھوائے)، ان کی طرف سے صدقہ دو، ان کے قضا روزے رکھو اور حج ادا کرو۔ تم جو کچھ عمل بجا لاؤ گے اس کا ثواب دونوں کو ملے گا، اس کے علاوہ والدین کے حق میں نیکی کرنے کا صلہ دو گنا عطا ہو گا۔ ایک اصل عمل بجا لانے کے سلسلے میں ، دوسرا والدین کے حق میں نیکی کرنے کے صلے میں، حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و آلہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ سے دریافت کیا کہ کیا والدین کے مرنے کے بعد بھی میرے ذمے ان کے کچھ حقوق باقی رہتے ہیں؟

قَالَ نَعَمْ، الصَّلوٰةُ عَلَیْھِمَا وَالْاِسْتِغْفَارُ لَھُمَا وَاِکْرَامُ صَدِیْقِھِمَا وَصِلَةُ رَحِمِھُمَا،" فرمایا، ہاں۔ ان کے لیے نماز پڑھو اور استغفار کرو اور ان کے دوستوں کا احترام کرو، ان کے رشتہ داروں سے حسن سلوک رکھو۔

مولانا نقی مھدی زیدی نے کہا کہ: شرع مقدس اسلام میں یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ کچھ امور میں اولاد ماں باپ دونوں سے یا کسی ایک سے اجازت حاصل کرے۔ جیسے وجوبِ کفائی مثلاًجہاد یا مستحبات مثلاً مستحبّی روزہ یا بعض عقود مثلاً عہد، قسم اور نذر بجا لانے میں ان سے اجازت لینا چاہیئے۔

شہیدِ اول نے کتاب قواعد میں حقوق والدین بیان فرماتے ہوئے دس عنوانات ترتیب دیئے ہیں۔اختتام انہیں عناوین پر زیادہ مناسب سمجھتا ہوں۔

اولاد کے سفر کے متعلق قول شہید

۱۔ مباح اور مستحب سفر والدین کے اذن کے بغیر حرام ہے لیکن تجارت کا سفر جس سے فائدہ حاصل کرنا مقصود ہو یا تحصیلِ علم کے لیے سفر کرنا، جبکہ جس جگہ والدین رہتے ہیں، ممکن نہ ہو ، ایسی صورت میں بعض فقہاء سفر جائز سمجھتے ہیں۔

۲۔ بعض فقہاء قائل ہیں کہ بیٹے پر ہر جگہ اور ہر حالت میں والدین کی اطاعت واجب ہے اگر چہ اس میں شک و شبہ بھی ہو۔ پس اگر والدین حکم کریں کہ ہمارے ساتھ غذا تناول کرو اور بیٹا غذا میں شبہ کی نظر رکھتا ہو، پھر بھی واجب ہے کہ اطاعت بجا لائے اور ان کے ساتھ کھانا کھائے۔ کیونکہ والدین کی اطاعت بجا لانا واجب ہے اور شبہات چھوڑنا مستحب ہے۔

۳۔ جبکہ نماز کا وقت داخل ہو اور والدین کسی کام کی انجام دہی کے لیے حکم دیں تو اطاعتِ والدین کو مقدم سمجھیں چونکہ اوّل وقت میں نماز پڑھنا مستحب ہے اور اطاعتِ والدین واجب ہے۔

(جو سفر ماں باپ کی تکلیف کا باعث ہو، حرام ہے اور انسان کو اس سفر میں نماز پوری پڑھنا پڑے گی اور روزہ بھی رکھنا ہو گا۔ اگر اولاد ماں باپ کے روکنے کے باوجود سفر کرے جبکہ وہ سفر ان پر واجب ہو ۔ البتہ حج واجب کا سفر ہے تو نماز قصر پڑھے۔ دیکھو توضیح المسائل امام خمینی مسئلہ ۱۲۹۲․۱۲۹۱، الخوئی مسئلہ ۱۳۰۵․۱۳۰۴ )

۴۔ نماز جماعت سے منع کرنا اقرب یہ ہے کہ والدین اپنے فرزند کو نماز ِباجماعت میں شرکت سے منع نہیں کرسکتے۔ مگر جبکہ بیٹے کی جماعت میں شرکت ان کے لیے تکلیف کا باعث بن جائے۔ مثلاً بیٹا نمازِ عشاء یا نمازِ فجر جماعت سے پڑھنے کے لیے مسجد جائے تو والدین کو خوف محسوس ہوتا ہو اپنے جان و مال کا یاپھر خود اولاد کی جان کا۔

۵۔ اس صورت میں جبکہ جہاد کے لیے سفر کرنا فرزند پر واجب ِ عینی نہ ہو تو والدین اس سفر سے منع کر سکتے ہیں۔

۶‌ واجباتِ کفائی میں والدین اولاد کو صرف اُسی صورت میں روک سکتے ہیں جبکہ دوسرے افراد کے ذریعے اسے انجام دینے کا گمان یا یقین حاصل ہو جائے۔ اس صورت میں والدین تمام واجباتِ کفائی سے بیٹے یا بیٹی کو روک سکتے ہیں۔

۷۔ بعض فقہاء کہتے ہیں کہ اگر مستحبّی نماز میں مشغول ہو اور والدین اس کو بلائیں تو وہ نماز توڑ سکتا ہے۔

۸۔ باپ کے اذن نہ دینے کی صورت میں مستحبّی روزہ ترک کر دینا چاہیئے۔

۹۔ قسم اور عہد کے عقود کے بارے میں اگر والدین اجازت نہ دیں تو پھر ترک کر دینا چاہیئے۔

۱۰۔ اولاد پر واجب ہے کہ والدین کو کسی قسم کی تکلیف نہ دے یا کوئی دوسرا تکلیف پہنچانے کا ارادہ کرے تو اپنے امکان و قوت کے مطابق ان کا دفاع کرنا چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ: والدین کے امر و نہی واجبات عینی اور محرماتِ الٰہی کے مقابل کوئی حقیقت نہیں رکھتے۔ مثلاً والدین اگر اولاد کو شراب پینے کا حکم دیں یا اُس کو واجب نماز روزے سے روکیں تو ایسی صورت میں والدین کی اطاعت ممنوع ہے۔ چنانچہ سورہٴ لقمان کی پندرھویں آیت میں اس کی تصریح فرمائی ہے:

وَاِنْ جَاھَدَکَ عَلٰے اَنْ یُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہ عِلْمٌ فَلَا تُعِطھُمَا۔

"اگر تمہارے ماں باپ تمہیں اس بات پر مجبور کریں کہ تم میرا شریک کسی ایسی چیز کو قرار دو جس کا تمہیں کچھ علم نہیں، تو تم ان کی اطاعت نہ کرنا۔"

یہ حدیث شریف اس آیت کریمہ کی تائید کرتی ہے:

لَاطَاعَةَ لِمَخلُوْقٍ فِیْ مَعْصِیَةِ الْخَالِقِ "مخلوق کی اطاعت جائز نہیں جبکہ اس میں خالق کی نافرمانی ہو۔"

ان دو صورتوں کے علاوہ تمام مستحبات و مکروہات اور مباحات بلکہ وجوب کفائی انجام دینے کی صورت میں والدین کی رضایت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔اگر یہ عمل والدین کی ناراضگی کا سبب بن جائیں یا تکلیف کا موجب ہوں تو ان کی مخالفت کرنا حرام اور گناہ کبیرہ ہے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha