حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی نے سورہ مبارکہ ہود کی 114ویں آیت "إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ"کیونکہ نیکیاں برائیوں (اور ان کے آثار) کو برطرف کردیتی ہیں،کو عنوان درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پروردگار عالم نے قرآن کو اتارا، در اصل اجتماعی قوانین اس قرآن کے اندر ہیں اور انسان کی نجات کے راستے، سعادت، بلندی اور تکامل کے طریقے قرآن نے بیان کیا ہے۔
استاد شیخ یعقوب بشوی نے انسانوں کے تکامل کی طرف نہیں بڑھنےکی وجوہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ انسانوں کے تکامل کی جانب نہ بڑھنے کی دو وجہ ہے یا انسان تلاش نہیں کرتا اس لئے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا یا انسان گناہوں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکتا، اس لئے قرآن نے واضح طور پر اجتماعی قانون کا اعلان کیا کہ"وَ أَنْ لَیْسَ لِلانْسانِ ِلاَّ ما سَعی."اوریہ کہ انسان کے لیے اس کی اپنی سعی وکوشش کے علاوہ اور کوئی حصہ نہیں ہے۔ تو یقیناً عبادت اور تکامل کی طرف جانے کےلئے انسان کو زحمتیں اٹھانے کی ضرورت ہے انسان کو دن اور رات ایک کرکے الہی رضایت کےلئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے تو اگے بڑھنے کےلئے ایک رکاوٹ کوشش نہ کرنا اور سستی برتنا ہے۔
حجۃ الاسلام شیخ یعقوب نے اسلام کی نگاہ میں تلاش کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا کہ اسلام نے مختلف امور میں تلاش و سعی کرنے پر تاکید کی ہےانسان اور قرب الہی کے درمیان گناہ ایک مانع اور رکاوٹ ہے،کیوں ہماری عبادتوں اور دعاؤں میں لذت، حلاوت وطراوت اور میٹھاس نہیں ہے؟ گناہوں کی وجہ سے پروردگار عالم وہ معنوی لذتوں کو اٹھالیتا ہے۔
جامعۃ المصطفی کے استاد نے مزید کہا کہ قرآن مجید مایوس اور ناامید انسانوں کو امید دلاتا ہے کوئی اگر برا کرے تو ہم اس کے مقابلے میں اچھے عمل کریں تو یہ ہمارے تکامل کےلئے ایک عامل ہے۔ آگے بڑھنا صابروں اور عمل کرنے والوں کی نشانی ہے۔
انہوں نے معاشرے کے مختلف امور پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا معاشرہ الہی معاشرہ ہے ہی نہیں، ہمارے معاشرے میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش ہوتی ہے ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے کی گردن کو اپنے لئے سیڑھی بنا لے کیونکہ اسلامی معاشرے میں گرے ہوئے انسانوں کو تھامنا ہوتا ہے لیکن اگر معاشرہ غیر الہی معاشرہ ہو تو دوسرے کو گرانے کی کوشش میں رہتا ہے، در اصل یہ تمام رفتار اور سوچ گناہ ہے اور ان گناہوں کی وجہ سے ہم آگے بڑھ نہیں سکتے تو یہاں پر خداوند عالم نے ہمارے سامنے ایسے معاشرے کی خدوخال اور نقشہ پیش کیا کہ جب ایسا معاشرہ گناہ میں آلودہ ہو تو ایسے معاشرے میں جب سب امیدیں ٹوٹ جائیں تو ایک امید باقی رہتی ہے اور وہ ہے اللہ کی امید، تو وہی ارحم الراحمین ہے وہی غفور اور رحیم ہے اور وہی بخشنے اور سعادت تک لے جانے کےلئے بہانے ڈھونڈتا ہے یہ لطف الہی کا تقاضا ہے کہ وہ بہانے ڈھونڈتا ہے تاکہ ہمیں گرنے نہ دیں کسی نہ کسی طریقے سے ہمیں نجات دلانے کیلئے کوشاں رہتا ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین شیخ یعقوب نے کہا کہ چونکہ گناہ رکاوٹ اور حائل ہے، گناہ انسانوں کو آگے بڑھنے نہیں دے رہا اور ہمیں آگے بڑھنے کی ہمت نہیں ہے جب گناہ انسان کو گیر لے تو اس کے بعد ایمان بھی آہستہ آہستہ رخصت ہو جاتا ہے۔
انہوں نے درس کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ پروردگار عالم نے کئی مراحل کو گناہ کے خاتمے کیلئے بیان کیا ہے پہلا مرحلہ یہ ہے کہ کوئی بھی نیکی کرو کوئی بھی نیک عمل انجام دو! "من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزا مثلھا وھم لا یظلموں."(سورہ مبارکہ انعام آیت160) خداوند برائی کرنے والے اور اچھائی کرنے والے انسانوں کو سامنے لا رہا ہے کہ جو اچھائی کرے گا جو ایک نیکی کرے گا خداوند اس ایک نیکی کے بدلے میں دس نیکیاں اسے عطا کرے گا اور کوئی بارگاہ الہی میں برائی لے کر آجائے تو ایک برائی کے مقابلے میں اسی کی صدا دے گا اور اس پر ظلم نہیں ہوگا یعنی یہ عدل الہی سے کام نہیں لے رہا بلکہ رحمت الہی سے لطف الہی سے صفت رحمانیت اور رحیمیت سے خدا کام لے رہا ہے۔ اسی وجہ سے خدا نے فرمایا:تم ایک اچھا کام لے کر آؤ ایک کے بدلے میں ہم دس تمہیں دیں گے لیکن اگر برائی کرو گے تو ایک کا بدلہ ایک یہ پہلا مرحلہ ہے اور اس میں ہمارے لئے خوشخبری ہے دس برائی کر لے ایک نیکی کرلے تو وہ دس برائی کے مقابلے میں یہ ایک نیکی ہے چونکہ یہاں خدا ایک کے بدلے میں دس عطا فرمائے گا تو یہ اہل بصیرت کے لئے راہ حل ہے یہ ایک قرآنی اور الہی فارمولہ ہے کہ گناہ کی کثرت کو دیکھ کر مایوس نہ ہو جاؤ بلکہ نیکی کرو چونکہ پروردگار اس کے بدلے میں دس نیکیاں عطا فرمائے گا۔
استاد جامعۃ المصطفی نے اس سلسلے کے دوسرے مرحلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پروردگار عالم قرآن مجید میں بیان فرما رہا ہے کہ اگر نیکی کرو تو خدا تمہاری نیکی کو ایک قوت عطا کرے گا نیکی کے لئے خدا ایک پاور دے گا اور وہ پاور تمہاری نیکی تمہاری بدی کو لے جائے جس طرح اگر کسی کمرے میں گندگی آجائے تو آپ اس کو جاڑو کے ذریعے ختم نہیں کر سکتے بلکہ اس کو صاف کرنا پڑتا ہے اور صاف کرنے کا مطلب اس کا وجود ابھی باقی ہے تو یہاں پر خداوند ناامید لوگوں کو ایک خوشخبری دے رہا ہے کہ تم نیکی کرو تو ہم تمہاری نیکی میں وہ قدرت رکھیں گے کہ تمہاری نیکی تمہاری برائیوں کو لے جائے اب تمہارے وجود پر کوئی برا عمل نہیں ہے تمہارا وجود صاف ہے اسی وجہ سے فرمایا:"إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَاتِ" تو یہاں پر کہا کہ یہ حسنات کیا ہیں کوئی بھی نیکی مثلا توبہ کرو یہ حسنہ ہے، استغفارحسنہ ہے، صلہ رحمی حسنہ ہے، دعا حسنہ ہے، انفاق حسنہ ہے، صدقہ حسنہ ہے، خیرات حسنہ ہے احترام، نرمی، صبر، اچھائی، نیک رفتار اور اچھے اخلاق حسنہ ہے، یہ تمام چیزیں حسنہ کے مصادیق میں سے ہیں لیکن سب سے اہم ترین مصداق جو تمہارے گناہوں کو سرے سے ہی ختم کر دے وہ تمہاری نماز ہے۔لہذا ہمیں نماز پر زیادہ سے زیادہ توجہ مرکوز رکھنے کی ضرورت ہے۔
جاری ہے۔