۱۲ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۲۲ شوال ۱۴۴۵ | May 1, 2024
News ID: 374513
21 نومبر 2021 - 16:09
ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی

حوزہ/ بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا تھا وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں  گے۔

از قلم: حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر محمد یعقوب بشوی

حوزہ نیوز ایجنسی آج خوف خدا معاشرےمیں یا تو نظر ہی نہ آئے یا انتہائی کم رنگ صورت میں ملےگا۔ اس کی بنیادی وجہ خدا سے دوری اور قیامت کا بھول جانا ہے ،قیامت ایک ہولناک دن ہوگا کہ جس دن بچے خوف سے بوڑھے بن جائیں گے:" فَکَیْفَ تَتَّقُونَ إِن کَفَرْتُمْ یَوْماً یَجْعَلُ الْوِلْدَانَ شِیباً"(سورہ مزمل،ایت 17)اور جس دن کوئی اپنی مرضی سے بات تک نہیں کرسکے گا۔
"لَا يَتَكَلَّمُونَ إِلَّا مَنْ أَذِنَ لَهُ الرَّحْمَٰنُ وَقَالَ صَوَابًا"(نبأ،آیت34) تو کوئی بول نہ سکے گا مگر جس کو (خدائے رحمٰن) اجازت بخشے اور اس نے بات بھی درست کہی ہو .قیامت، حقیقت کا ظهور کادن ہوگااور اس دن دن سب پوشیده رازیں اور سب باطنی امور کھل کر سامنےآئیں گےاورسب خلق خدا کےسامنے انسان کےاعمال،عقائد،میلانات اور اسرار کی نمائش لگےگی :« يَوْمَ تُبْلَي السَّرائِرُ»(سوره طارق،آیه9)؛ جس دن پوشیده رازوں سےحجاب اٹھیں گےاور انسان کو شرمندگی ہوگی اور انسان فریاد کرےگا:« یا وَیْلَتَنا ما لِهذَا الْکِتابِ لایُغادِرُ صَغِیرَةً وَلا كَبِیرَةً إِلَّا أَحْصاها»(سوره کهف،آیت49)؛ہائےافسوس اس کتاب نےتو چھوٹابڑاکچھ نهیں چھوڑاہےبلکه سب کو جمع کیاہے!ہمیں اس دن کی رسوائی سے بچنےکے لئے اج ہی اپنی اصلاح کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔
لہذا ہمیں چاہےاپنی زرد فکر کو سبز بنائےاور خزاں زاده زندگی کی تعمیر کرےاور ٹیڑھااور زنگ آلود دل اور لنگڑےعمل کی اصلاح کرے:
نمى دانى كه در تبلى السرائر شود هر باطن آنجا عين ظاهر
ذرا سوچئے گا!اس دن نفسانفسی کا عالم ہوگا اور ہرایک اپنےعمل کےحساب میں گرفتار ہوگا :«کل نفس بماکسبت رهینه»(سوره مدثر،آیت38)،ایسےعالم میں کچھ بدنصیب لوگ ایسےبھی ہونگےجو اپنےگناہوں کےبوجھ تلے دبے ہونگے یہ لوگ اپنے گناہوں کے بوجھ کےعلاوه ان لوگوں کےگناهوں کابوجھ بھی اٹھائےہونگےاور قیامت میں آئیں گے یہ بوجھ ان کے ہونگے جن لوگوں کو انہوں نےپہلےدنیا میں گمراه اور راه حق سےدور کئےہونگے.قرآن مجید چونکہ کتاب زتدگی ہےاور ہر نازک اور حساس موڑ پر انسان کی هدایت کرتاہےاور اسے ہلاکت و بربادی سےبچاتاہےاورانسان کو حقیقی بیداری عطاءکرتاہےلہذا انسان کو پہلےسےہی خبردار کرتاہےکہ دوسروں کی زندگی کےساتھ کھیل کھیلنا بندکردےاور ہر قدم اور ہر بات احتیاط سےکرے کہ کہیں خدانخواستہ ایسانہ ہو کہ تمہاری غلط باتوں میں آکر دوسرا بنده کوئی غلطی کربیٹھےاور اس کی ایمانی زندگی تباہ ہوجائےتو یاد رکھے اس صورت میں اس کےتمام گناہوں میں تو نہ فقط شریک ہوگا بلکہ قیامت کےدن اس کےگناہوں کے بوجھ تلے دب جاو گے اللہ تعالی اسی حقیقت کو سامنے رکھ کر ارشاد فرمارہاہے:« لِيَحْمِلُوا أَوْزَارَهُمْ كَامِلَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ»(سوره نحل،آیت25)؛ اس لئے کہ قیامت کے دن اپنے پورے بوجھ اور کچھ ان لوگوں کے گناہوں کے بوجھ اٹھائیں جنہیں اپنی جہالت سے گمراہ کررہے ہیں ۔ سن لو ! یہ کیا ہی برا بوجھ اٹھاتے ہیں ۔
جو شخص دوسروں کو برائی کی طرف دعوت دیتاہے در حقیقت وه ان کےبرے عمل میں برابرکے شریک ہے :« وَمِنْ أَوْزَارِ الَّذِينَ يُضِلُّونَهُمْ».البته یه تمام عمل وه شخص جہالت کی وجہ سےکرتاہے اور آیت نےاس امر کی طرف بھی اشاره کیا ہےاسی وجه سےقرآن مجید انسان کو بدون علم،عمل سےروکتاہے:« وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا»( سوره اسراءآیت36)؛ اور اس بات کے پیچھے نہ پڑ جس کا تجھے علم نہیں بیشک کان اور آنکھ اور دل ان سب کے بارے میں سوال کیا جائے گاس آیت میں ہر اس عمل سےروکاہےجس کا علم انسان کو نہیں ہے، البتہ ایک سوال انسان سےہوگا اور دوسرا سوال خود ان اعضاءسے:« الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ »(سوره یس،آیت65)؛ آج ہم ان کے منہ پر مہر لگا دیتے ہیں اور ان کے ہاتھ ہم سے بولیں گے اور ان کے پاؤں گواہی دیں گے اس کے بارے میں جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا تاکہ وہ بول نہ سکیں ،پھران کے دیگر اَعضاء بول اٹھیں گے اور جو کچھ ان سے صادر ہوا ہے سب بیان کردیں گے تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ وہ اَعضا جو گناہوں پر ان کے مددگار تھے وہ اج ان کے خلاف ہی گواہ بن گئے ہیں۔بندہ اپنے جسم کے جن اَعضاء سے گناہ کرتا تھا وہی اَعضاء قیامت کے دن اس کے خلاف گواہی دیں گے اور اس کے تمام اعمال بیان کر دیں گے۔
گناہ کےلئےقرآن نےبوجھ کالفظ استعمال کیاہےاور کتنا برا بوجھ ہےجواٹھانےوالےکی کمرتوڑکےرکھ دے!اور اس کو قیامت کےدن خلق خدا کےسامنےرسواکرےگااور سرانجام وه اسفل سافلین کےحوالےهوجائےگا« أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ».کتنابرا انجام ہے اور کتنا بدنصیب ہوگاوه انسان جو اپنےگناهوں کےحساب ساتھ ساتھ دوسروں کے برےاعمال کا حساب بھی دے۔گناهوں کی لذت دوسرےاٹھائیں اور سزا اس کو ملے!
لہذا عاقل انسان کو اپنی نجات کی فکر کرنےکی زیاده ضرورت ہے۔کہیں ایسا نہ که دوسروں کی دنیا کےلئےاس کی اپنی آخرت تباه ہوجائے۔
اس حقیقت کی طرف توجه کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی قوم کا حاکم،سردار،نمائنده یاکوئی بھی شخص کسی معاشرےمیں جو بھی اچھا یا برا طریقہ ایجاد کرےگا اور لوگ اس کی پیروی کریں گے تو اس شخص کو بھی ان لوگوں کےعمل کےبرابرثواب یا گناہ ملےگااور وه ان کےعمل میں برابرشریک ہو گا اس لئے زندگی میں بڑی احتیاط سےچلنےکی ضرورت ہے۔
رسول اکرم حضرت محمدصلی الله علیه وآله وسلم کی حدیث مبارکہ ہے:« مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً فَلَهُ أَجْرُهَا وَ أَجْرُ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَمَنْ سَنَّ سنَّةً سَيِّئَةً کانَ عَلَيْهِ وِزْرَها وَ وِزْرَ مَنْ عَمِلَ بِها»(محمد تقی مصباح یزدی، بهترین ها و بدترین ها از دیدگاه نهج البلاغه،ج1،ص282) جس نے اچھا طریقہ جاری کیا اور اچھی رسم کی بنیاد رکھی تو ا س کے لئے اس کااجر ملےگااورجو لوگ اس طریقہ پر عمل کریں گےاسےان سب کاثواب اور اجر بھی ملےگااور جس نے برا طریقہ جاری کیا اور کسی غلط عمل کی بنیاد ڈال دی توپھر اس پر اس گناہ کابوجھ ہوگا اور جس جس نےوه برا طریقہ اپنایا ہوگا اس کاگناہ بھی اس کی گردن پر ہوگا اور خود گناہکار کو بھی اس برےعمل کی سزا ملے گی۔
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے رفتگان کی مغفرت اور ہم سب کی ہدایت فرمائے اور عاقبت بخیر کرے (آمین)۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .