حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے دسویں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"قال الله تبارك وتعالى:یتلوا عليهم آیاته و یزکیهم."
معاشرے میں لوگ قرآن سے دور ہوتے جا رہے ہیں، ہمیں ایک اسلامی اور الہی معاشرے کی تشکیل کےلئے پلٹ کر قرآن کی طرف آنے کی ضرورت ہے۔
در اصل قرآن کی تلاوت پیغمبر(ص) کا منصب ہے اور متعدد مقامات پر پیغمبر(ص) کے منصب کے طور پر آیتوں کی تلاوت کا ذکر کیا ہے تو یہاں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس تلاوت قرآن کی کتنی اہمیت ہے۔مکے کا مشرکانہ ماحول ہے اور پیغمبر(ص) چل رہے ہیں اور قرآن کی تلاوت کر رہے ہیں اور لوگ "یدخلون فی دین الله افواجا" دین الہی میں داخل ہو رہے ہیں تو تلاوت قرآن کاکتنا بڑا اثر ہے یہی وجہ ہے کہ مکے کے مشرکین جب پیغمبر(ص)کا مقابلہ نہ کرسکے تو انہوں نے ایک چال چلی کہ جو بھی باہر سے مکے میں داخل ہوجائے ان کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے کانوں میں روئی ڈالے تاکہ قرآن کی تلاوت نہیں سن سکیں اور ان کے مطابق لوگ گمراہی سے بچیں۔ اسی لئے جو بھی کعبے میں داخل ہو جاتا تو مشرکین ان کو پابند کرتے کہ خبردار وہاں پر ایک جادوگر ہے اس کی باتوں کو سننا نہیں ہے بلکہ اپنے کانوں میں روئی ڈالو اور ایک واقعہ عرب کا ایک مانا ہوا مشہور شخص کے ساتھ رونما ہوا کہ جب وہ کعبے میں داخل ہوا تو تو دیکھنے لگا کہ کچھ لوگ پیغمبر(ص) کے ارد گرد گھوم رہے ہیں اور پیغمبر قرآن کی تلاوت فرما رہے ہیں تو اس نے ایک مرتبہ یہ سوچا بلا میں سنوں تو صحیح کہ یہ کہتا کیا ہے اب اس نے اپنے کانوں سے روئی نکالی تو پیغمبر اسلام قرآن کی نورانی اور ہدایت بخش آیتوں کی تلاوت کر رہے تھے جب اس کے کانوں سے کلام الہی ٹکرایا تو اس کی زندگی بدل گئی اور اس نے کہا "ماھذا کلام ابو بشر" یہ جو گفتگو کر رہا ہے یہ کسی عام انسان کی گفتگو نہیں ہے اور وہی پر اس نے اسلام قبول کر لیا اور رسول خدا پر ایمان لے آیا۔
قرآن کریم کی تلاوت کا بہت بڑا اثر ہے:
تلاوت قرآن پیغمبر کا منصب ہے وہ منصب معنوی یتلوا علیھم آیاته ویزکیھم" پہلے قرآن کی تلاوت کرے اس کے نتیجے میں ان کے نفوس پاک ہوجائے اور تذکیہ نفس ہوجائے تو پہلی بات ہے کہ قرآن کی تلاوت کرنا عام بندوں کا منصب نہیں ہے خود پیغمبر کی رسالت میں شامل ہے بعثت پیغمبر کے اہداف میں سے ایک بڑا ہدف آیتوں کی تلاوت ہے اور یہ ہدف قیامت تک جاری رہے گا اور قیامت تک قرآں کی تلاوت کرنا، بعثت رسالت کا حصہ ہے۔
تلاوت قرآن کی فضیلت:
قرآن کہہ رہا ہے "بل ران علی قلوبھم بما کانوا یکسبون" کچھ لوگ ایسے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر زنگ لگ چکا ہے جب دلوں پر زنگ لگ جائے تو دل اپنا کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، زنگ لگنے کے بعد چیزیں اپنا اثر نہیں دکھا سکتی ہیں۔
پیغمبر نے فرمایا:کچھ دل ایسے ہیں کہ گناہوں کی وجہ سے ان دلوں پہ زنگ لگ جاتا ہے،"إن هذه القلوبَ تَصْدَأُ كما يَصْدَأُ الحديدُ إذا أصابه الماءُ، قيل : يا رسولَ اللهِ وما جَلاؤُها ؟ ! قال : كثرةُ ذِكْرِ الموتِ، وتلاوةُ القرآنِ؛"
پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے قلوب ہیں ان کو زنگ لگ جاتا ہے جس طرح لوہے پر پانی آجائے تو لوہے کو زنگ لگ جاتاہے اسی طرح تمہارے دلوں کو زنگ لگ جاتا ہے تو صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ جب ہمارے دلوں کو زنگ لگے تو اس کو ہم کیسے ختم کر سکتے ہیں؟ تو آپ نے فرمایا دلوں کو صیقل دینے کےلئے دو اہم کام کرنے کی ضرورت ہے؛ ایک کثرت سے موت کو یاد کرو دلوں کا زنگ دھل جائے گا اور دوسرا یہ کہ قرآن کی تلاوت کرو۔لہٰذا تلاوت قرآن دلوں کو نور دیتی ہے۔
اگر ہم تلاوت قرآن نہ کریں تو قیامت کے دن یہ قرآن مجسم ہو کر شکایت کرے گا روایتوں میں آیا ہے کہ قیامت کے دن تین چیزیں مجسم ہوکر آجائیں گی، وہ دن کہ جس دن اعمال مجسم ہوجائیں گے فقط اعمال نہیں بلکہ افکار مجسم ہوں گے اور فقط افکار ہی نہیں بلکہ نیتیں بھی مجسم ہوں گی۔
یاد رہے کہ یہ ایک انتہائی عمیق اسلامی بحث ہے کہ نیتیں کیسے مجسم ہوجائیں گی؟
یہاں تک کہ کیفیتیں مجسم ہو جائیں گی ، قیامت کے دن مسجد اور قرآن مجسم ہوکر آئیں گے اور شکایت کریں گے، عترت پیغمبر شکوہ لےکر آئیں گی اس لئے کہ آج دنیا میں کتنے ایسے ممالک ہیں جہاں عترت کے دستورات کی حاکمیت نہیں ہے ، پیغمبر نے "انی تارکم فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی" کہا ہے کہ میرے بعد نجات کے دو راستے ہیں ایک قرآن اور دوسرا عترت؛ لیکن کونسا ایسا مسلمان ملک ہے کہ جہاں پر ثقلین کی حکومت ہو؟لوگ لڑ رہے ہیں مغربی ثقافت کو زندہ کرنے کےلئے، جس جہنمی ثقافت سے اسلام نے ہمیں نجات دلائی ہے، اسی جہنمی ثقافت نے آج اسلامی ثقافت کو جہنم میں تبدیل کیا ہے فساد اخلاقی سے لےکر فساد خانوادہ یعنی ہر شعبہ زندگی میں آپ کو فساد اور بغاوت نظر آئیں گے جہاں پر نہ ماں کی حرمت ہے نہ بیٹی کی حرمت ہے نہ بہن بھائی کی حرمت کا خیال ہے جہاں پر شریعت اور دین کی پابندی نہیں ہے یعنی وہی حیوانی معاشرہ، تو لہٰذا ہمیں حیوانی معاشرے سے بچنے کےلئے قرآن کا سہارا لینے کی ضرورت ہے۔
آج مسلمان ملکوں میں جہنمی ماحول کو دوبارہ مسلط کرنے کےلئے کچھ عقل اور فہم سے خالی لوگ کوشش کر رہے ہیں!
کسی نے کیا اچھا کہاکہ آج کافر ملکوں میں مسلمان لڑکیاں ڈوپٹے کےلئے لڑ رہی ہیں اور مسلمان ملکوں میں لڑکیاں ڈوپٹہ اتارنے کےلئے لڑ رہی ہیں۔
قرآن مجید کی تلاوت دستور دین ہے، پیغمبر فرماتے ہیں :"نوروا بیوتکم بقرائۃ القرآن" اپنے گھروں کو قرآن کی تلاوت سے نورانی کرو! یہاں پر امر نورو سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ جس گھر میں قرآن کی تلاوت ہوجائے تو اس گھر میں ایک تو خیر وبرکت کا اضافہ ہوجائے گا قرآن کی تلاوت اپنے ساتھ برکت اور خیر کو لے آتی ہے۔ اسی طرح ایک اور نورانی حدیث میں امیر المومنین فرماتے ہیں: "البیت الذی یقرئ فیه القرآن تکثر برکته"جس گھر میں قرآن کی تلاوت زیادہ ہوگی ، اس میں برکت بڑھتی ہے، یعنی برکت بڑھنے کا مطلب مال کی کثرت نہیں ہے بہت سارے لوگ کثرت دولت رکھنے کے باوجود مہینے کی بیس تاریخ کو سب کچھ لٹا دیتے ہیں لیکن برکت نہیں ہے ایک مزدور دس ہزار مہینے میں کماتا ہے اور آخری مہینے تک گھر بھی چل جاتا ہے، بچوں کے ٹیوشن کی فیس بھی ادا کر دیتا ہے اور اپنی دوسری ضروریات کو بھی پورا کر دیتا ہے، اس کے علاوہ مہینے کے آخر میں کچھ بچا بھی دیتا ہے، یہ برکت کی مثال ہے جس قدر ہم چشمہ سے لیں گے چشمہ میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔لہذا قرآن پڑھنے سے رزق و روزی اور زندگی میں برکت آجاتی ہے ، جس گھر میں قرآن پڑھا جائے اس گھر میں خدا برکت دیتاہے اور اس گھر میں خدا کے فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔
ان سب آثار و برکات کے علاوہ ایک اہم اثر کہ شیاطین اس گھر کو چھوڑ دیتے ہیں اور وہ گھر شیاطین سے خالی ہو جاتا ہے اور وہ گھر مختلف برکت،رحمت اور مغفرت کے فرشتوں سمیت ایمان و یقین اور تقوی الہی کا مرکز بن جاتا ہے۔
ایک اور اہم ترین خصوصیت کہ جس گھر میں قرآن کی تلاوت ہوتی ہو وہ گھر،جس طرح رات کے اندھیرے میں آسمانی ستارے ہمیں روشنی دیتے ہیں اسی طرح وہ گھر، آسمان والوں کےلئے نور کا مجسم بن کر نورانیت اور روشنی عطا کرتا ہے۔
لہٰذا تلاوت قرآن کی بہت ساری برکتیں ہیں ۔یہاں ایک انتہائی اہم مطلب کو بیان کریں گے کہ ہمارے استاد بتا رہے تھے کہ تہران میں ایک بچہ تھا وہ ابھی بلوغت کی دنیا تک پہنچا نہیں تھا وہ خاندانی اعتبار سے مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا ، اس کے ماں باپ قرآن پڑھتے تھے تو وہ بچہ کہتا کہ بابا آپ کے منہ سے نور نکل رہا ہے اور پورا گھر نورانی بن جاتا وہ کہتا ہے کہ پورا گھر نورانی ہے،اس کی ماں کسی آیت کی تلاوت کرتی یا کوئی سورہ پڑھتی تو وہ بچہ کہتا اماں آپ کے منہ سے نور نکل رہا ہے جس کی وجہ سے یہ پورا کمرہ نورانی ہو رہا ہے اگر کسی کمرے میں قرآن کی تلاوت ہو جائے تو وہ پورا کمرہ اس بچے کو نورانی نظر آتا اور جب یہ سلسلہ کچھ عرصہ چلا تو انہوں نے کہا یہ بچہ ہے، ہم بھی کہتے ہیں کہ بچوں کی باتوں کا کیا اعتبار؟
ہم اہمیت نہیں دیتے لیکن چونکہ روح لطیف کی وجہ سے وہ حجاب کبھی اٹھ جاتا ہے تو جو چیزیں ہمیں گناہوں کی وجہ سے نظر نہیں آتی وہ معصومیت کی وجہ سے ان کو نظر آتی ہیں۔
اس کےبعد میں انہوں نے کچھ اور لوگوں سے بھی اس کا تذکرہ کیا اور جب یہ بچہ کسی اور گھر میں جاتاجہاں تلاوت ہو رہی ہو تو یہ بچہ کہتا یہ کمرہ نورانی ہی نورانی ہے تو بعض لوگوں نے یہ منصوبہ بنایا ہم اس بچے کو آزماتے ہیں اب انہوں نے ایک دور جگہے پر، جہاں بچے کا کے وہم وگمان بھی نہیں پہنچ سکے،قران کو رکھ دیا اور اس بچے نے دیکھا بھی نہیں تھا اور کئی منزلہ عمارت کے اندر گھروں کے سارے دروازے کھول کے رکھ دیئے اور آخری منزل پر جاکر ایک کمرے میں کسی سے کہا اس میں تلاوت کرے اب کسی نے اس کمرے میں تلاوت کی اس کے بعد فون کرکے بلایا بچے کو کہ آپ آجائے اب بچہ آیا گاڑی سے اترا سیدھا عمارت میں داخل ہوا پہلی منزل میں جب داخل ہوا کہیں ادھر ادھر جانے کی زحمت نہیں کی دوسری منزل کی طرف بڑھا یہ کسی کمرے میں نہیں جاتا اور آخری منزل پہ بچہ پہنچ جاتا ہے اور وہاں سے اسی کمرے میں چلا جاتا ہے کہ جس کمرے میں قرآن کی تلاوت ہوئی تھی وہ کہتا ہے کہ اس پوری منزل میں کہیں کوئی نور نہیں ہے فقط اور فقط اس کمرے سے نور نکل رہا ہے پورا کمرہ نور سے روشن ہے اور یہ نور آسمان کی طرف جا رہا ہے۔
بچے سے پوچھا گیا کہ آپ کو کیسے پتہ چلا؟ کہا جوں ہی میں گاڑی سے نیچے اترا تو ایک نور کا راستہ بنا ہوا تھا اس کمرے تک اور اسی کمرے سے ایک نور آسمان کی طرف جا رہا تھا۔
مولا نے فرمایا: اپنے گھروں کو نورانی بناؤ قرآن کی تلاوت سے!
جس شیء کی معیت میں ہم رہیں گے اسی شیء کی خصوصیت خودبخود ہم میں منتقل ہو جائے گی اسی وجہ سے کہا بچے کو ناپاک گود میں نہ دو اس لئے کہ اس گود کی خصوصیت منتقل ہو جائے گی اور کسی ناپاک ماحول میں نہ رکھو اس لئے کہ اس ماحول کا اثر ہو جائے گا۔
جاری ہے۔