۵ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۵ شوال ۱۴۴۵ | Apr 24, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی نے کہا کہ صبر ایک ایسی سواری ہے جو اپنے سوار کو گرنے نہیں دیتی اور انسان صبر کا مظاہرہ کرنے سے اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی نے "ایمان"کو صبر کی توسیع اور تقویت میں ایک اہم عنصر قرار دیتے ہوئے کہا کہ قرآن کریم اس بارے میں فرماتا ہے کہ"وَبَشِّرِ الصَّابِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ"مصیبت اور سختیوں کے دوران مؤمن صرف خدا کو یاد کرتا ہے، نتیجتاً اس پر تمام مصیبتیں اور سختیاں آسان ہو جاتیں ہیں۔

انہوں نےصبر کے مراحل میں اولیاء الہی کو نمونہ عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس مسئلے میں معصومین علیہم السلام کی زندگیوں میں کوئی کمی نہیں نظر آتی کیونکہ حضرات آئمہ معصومین علیہم السلام خدا کے حضور ہیں۔

استاد جامعہ المصطفی نے امام حسین علیہ السلام کو صابرین کیلئے نمایاں نمونہ قرار دیا اور مزید کہا کہ امام حسین علیہ السلام پر اتنی کمر شکن مصیبتیں پڑنے کے باوجود آپ علیہ السلام نے صبر کا دامن تھامے رکھا کیونکہ امام خدا کو حاضر و ناظر اور اپنے آپ کو خدا کے حضور پا رہے تھے لہذا تمام اعوان و انصار یہاں تک کہ حضرت علی اصغر(ع) کی شہادت کے بعد ، امام اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھا کر کہتے ہیں کہ خدایا یہ ساری مصیبتیں میرے لئے آسان ہیں کیونکہ تو دیکھ رہا ہے۔

حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(ع) کے ادارہ برائے بین الاقوامی تعلقات کی جانب سے منعقدہ قرآنی دروس کی نشست سے خطاب کرتے ہوئے حجت الاسلام بشوی نے کہا کہ خدا اور قیامت پر ایمان رکھنے والا انسان ہمیشہ محفوظ رہتا ہے اور کامیابیاں اس کے شامل حال ہوتی ہیں،سختیوں کا تحمل کرنا مقام صبر ہے،مؤمن وہ ہے جس کا خدا پر یقین ہوتا ہے ، یہ مصیبتیں خدا کی مرضی کے بغیر نہیں پڑتیں اور یہ مؤمن کیلئے امتحان اور ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا سبب ہوتی ہیں۔

انہوں نے صبر کی تقویت کے دوسرے مرحلے کو دعا قرار دیتے ہوئے کہا کہ خداوند اس کو طالوت و جالوت کے قصے میں بیان کرتا ہے ، سورہ مبارکہ بقرہ کی 249-250 آیتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں"وَالَّذینَ آمَنُوا مَعَه قالُوا لا طاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجالُوتَ وَ جُنُودِہِ قالَ الَّذینَ یَظُنُّونَ اٴَنَّهمْ مُلاقُوا اللَّهِ کَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلیلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثیرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ وَ اللَّهُ مَعَ الصَّابِرینَ".
"وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ". 
ترجمہ:اور جب طالوت بنی اسرائیل کے لشکر کی فرمانروائی کے لیے مقرر ہو گئے اور وہ لشکر کو باہر لے گئے تو ان سے کہا کہ خدا تمہارا پانی کی ایک لہر کے ذریعے امتحان لےگا تو جو لوگ (ہیاس کے وقت ) اسے پی لیں گے وہ مجھ سے نہیں ہیں اور جو اپنے ہاتھ سے ایک پیالے سے زیادہ نہیں پئیں گے وہ مجھ سے ہیں چند افراد کے علاوہ سب نے اس سے پانی پی لیا اس کے بعد وہ( اور ان پر ایمان لانے والے اور امتحان کی کسوٹی میں پورے اترنے والے ) نہر سے گزر گئے ۰اب وہ اپنی تعداد کی کمی پر پریشان ہو گئے اور ایک گروہ کے لوگ کہنے لگے آج ہم جالوت اور اس کی فوج سے لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے لیکن وہ جو جانتے تھے کہ خدا کی ملاقات ہوگی (اور وہ قیامت پر ایمان رکھتے تھے ) کہنے لگے کہ کتنے ہی ایسے تھوڑے لوگ تھے جو حکم خدا سے بڑے بڑے گروہوں پر غالب آئے ٴ اور کامیاب ہو گئے اور خدا صابرین ( اور استقامت دکھانے والوں ) کے ساتھ ہے۔
250۔اور وہ جالوت اور اسکے لشکر کے سامنے ڈٹ گئے تو کہنے لگے کہ پروردگار !ہم پر شکیبائی اور استقامت نازل فرما اور ہمیں ثابت قدم رکھ اور ہمیں کافر قوم پر کامیابی عطا فرما۔ ان آیات سے صبر کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

حجت الاسلام و المسلمین شیخ یعقوب نے درس کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "صبر" کی تقویت کے تیسرے مرحلے کو قرآن مجید نے نصرت الہی قرار دیا ہے،سورہ مبارکہ یوسف کی 18ویں آیت میں رب العزت ارشاد فرماتا ہے:"وَجَآؤُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ."
ترجمہ:اور یوسف کے کُرتے پر جھوٹا خون لگاکر لے آئے -یعقوب نے کہا کہ یہ بات صرف تمہارے دل نے گڑھی ہے لہذا میرا راستہ صبر جمیل کا ہے اور اللہ تمہارے بیان کے مقابلہ میں میرا مددگارہے۔اس آیت مجیدہ میں "اللہ" بعنوان تکیہ گاہ آیا ہے اور یہاں پر صبر جمیل کا تذکرہ کیا گیا ہے ، "صبر جمیل" اس صبر کو کہا جاتا ہے کہ جس میں کسی سے حتی شکوے کی گنجائش بھی موجود نہیں ہوتی۔ خدا کی قربت صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اولیاء اللہ صبر جمیل کے مالک ہیں اور وہ خدا کے علاوہ کسی کو تکیہ گاہ نہیں سمجھتے ہیں۔اگر ہمارا معاشرہ صبر کا دامن تھامے رکھے تو یقیناً کامیابیاں شامل حال ہوں گی۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .