۹ فروردین ۱۴۰۳ |۱۸ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 28, 2024
حضرت ایوب

حوزہ/ خداوندمتعال نے حضرت ایوب 7 کو مبتلا کیا، اور مال، اولاد اوران کے گھر کے منہدم ہونے کو بیان کرتا ہےیہ سب چیزیں نابود ہوچکی تھی، ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضرت ایوبؑ کیوں مختلف بلاؤں اور امتحانوں میں گرفتار ہوئے؟

تحریر: حجت الاسلام مولانا ذوالفقار حسین

حوزہ نیوز ایجنسیl پیغمبروں میں سے جو پیغمبر ایک جو سخت امتحان میں گرفتار ہوئے ان میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام تھے، قرآن کریم فرماتا ہے:

( إِذْ نَادَى‏ رَبَّهُ أَنىّ‏ِ مَسَّنىِ‏َ الضُّرُّ وَ أَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحمِين[1])

ترجمہ: اور ایوب علیہ السلام کو بھی ( اپنی رحمت سے نوازا) جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا مجھے ( بیماری سے) تکلیف ہورہی ہے اور تو ارحم الراحمین ہے۔

1 ۔1 بلا‎ؤں اور امتحان میں گرفتار حضرت ایوب علیہ السلام

علامہ طباطبائی 1 مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: " کہ (الضرّ) کا معنی وہ مخصوص بلائیں ہیں جو سیدھے آدمی کی جان سے وابستہ ہوتی ہے۔ جیسے مریضی، لاغری اور اس کے ماننداور (ضَرّ) زبر کے ساتھ۔ تمام انواع و اقسام کی بلاؤں کو شامل ہوتاہے۔

اسی طرح بیان کرتے ہیں کہ ایوب علیہ السلام پر بلاؤں کی بارش ہوئی، تمام ان کے اموال ہاتھ سے چلا گیا، تمام ان کی اولاد مرگئی۔ایک شدید قسم کی بیماری ان کے بدن پر ظاہر اور مسلّط ہوگئی اور مدتوں تک ان کو آزار دیتی رہی یہاں تک کہ انہوں نے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا ہوئے اور اپنے حال کو خدا کے سامنے بیان کیا، خدا نے ان کی دعا کو مستجاب کیا۔[2]

1۔2 مال ، اولاد اور بیماری کے ذریعے امتحان

صاحب "تفسیر بیضاوی " مذکورہ آیۂ شریفہ کے بارے میں لکھتے ہیں : " کہ خداوندمتعال نے حضرت ایوب 7 کو مبتلا کیا، اور مال، اولاد اوران کے گھر کے منہدم ہونے کو بیان کرتا ہےیہ سب چیزیں نابود ہوچکی تھی، ایک سوال ذہن میں آتا ہے کہ حضرت ایوبؑ کیوں مختلف بلاؤں اور امتحانوں میں گرفتار ہوئے؟[3]

جیسا کہ پہلے بھی ہم بیان کر چکے ہیں کہ یہ ایک طرح کی آزمائش تھی اس لئے کہ ان کے درجات و مقامات اور زیادہ ہوسکے۔

بہرحال حضرت ایوب 7 کی بیماری و مصیبتیں اور مختلف امتحانات اٹھارہ سال یا تیرہ سال تک جاری رہا۔ اور نوبت یہاں تک پہونچ چکی تھی کہ ان کے رشتہ دار اور دوستوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا صرف ان کی زوجہ تھی کہ جو ان کے با نسبت وفاداری اور استقامت کو اپنایا۔[4]

حضرت ایوب 7 کا واقعہ قرآن کریم میں صرف دو مقام پر ذکر ہواہے ایک سورۂ انبیاء اور دوسرا سورۂ ص میں جس میں خداوندمتعال فرماتا ہے:

( وَ اذْكُرْ عَبْدَنَا أَيُّوبَ إِذْ نَادَى‏ رَبَّهُ أَنىّ‏ِ مَسَّنىِ‏َ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَ عَذَاب‏[5])

ترجمہ: اور ہمارے بندے ایوب 7کا ذکر کیجئے جب انہوں نے اپنے رب کو پکارا شیطان نے مجھے تکلیف اور اذیت دی ہے۔

1۔3 مس شیطان اور حضرت ایوب علیہ السلام

علامہ طباطبائی 1 مذکورہ آیۂ شریفہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں : کہ آیت کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ "نُصب اورعذاب" سے مراد وہ بدحالی اور مصیبتیں ہیں جو ان کے جسم اور خاندان والوں پر آئی تھی وہ مصیبتیں جو سورۂ انبیاء میں حضرت ایوب 7جس کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں ( مَسَّنىِ‏َ الضُّرُّ وَ أَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحمِين[6]) البتہ اس صورت میں ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ"ضُرّ" کا کلمہ ایسی مصیبت کو شامل ہو جو خودپر اور خاندان والوں پر ہوتی ہےاور اس سورہ میں اور سورہ انبیاء میں کوئی اشارہ بھی ان کے اموال کے نابود ہوجانے کی طرف نہیں کیا گیا ہے اگرچہ یہ مطلب روایات میں ذکر ہواہے۔

علامہ طباطبائی " مسّ شیطان اور نصب و عذاب" کے سلسلے میں کہتے ہیں ظاہراً " مسّ شیطان اور نصب و عذاب " سے مراد یہ ہے کہ نصب و عذاب کسی طرح اس سبب اور تاثیر کو خدا کی طرف نسبت دے اور خلاصہ کیا جائے کہ شیطان ان سب مصیبتوں میں موثر اور دخیل ہے اور یہی معنی روایات میں ذکر ہوا ہے۔[7]

1۔4 روایت میں حضرت ایوب علیہ السلام کے امتحان کا تذکرہ

ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ: " شیطان طبیعی صورت میں حضرت ایوب 7کی زوجہ کے سامنے ظاہر ہو اور اس نے کہا کہ میں حضرت ایوب 7کو شفا دوں گا اس کے ساتھ کہ تو اس کے شفا پا جانے کے بعد بولو کہ تو ( شیطان) نے شفا دی حضرت ایوب 7کی زوجہ نے اس بات کو حضرت کے سامنے بیان کیا حضرت ناراحت ہوئے اور قسم کھایا کہ بہبود پانے کے بعد سو تازیانے ان کو ماروں گا۔[8] "

یہ خالص توکل اور آگاہ نہ صبر ہے جس کے سلسلے میں خداوندمتعال فرماتا ہے:

( إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا نِّعْمَ الْعَبْدُ إِنَّهُ أَوَّاب‏[9])

ترجمہ: ہم نے انہیں صابر پایا وہ بہترین بندے تھے بے شک وہ ( اپنے رب کی طرف ) رجوع کرنے والے تھے۔

تجزیہ ، تحلیل اور نتیجہ

جو مطلب آیات وروایات سے حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام شدید مصیبت اور بیماری سے مقابلہ کر کے خدائے لاشریک کا شکر ادا کرتے تھے اور اس شکر سے دو پیغام نکالا جاسکتا ہے اوّل یہ کہ استراحت اور راحتی و آرامش کے عالم میں بھی شکر گذار خداوندمتعال رہیں اور حالت امتحان و مصیبت میں بھی خدا کے شکر کرنے سے دریغ نہ کریں جو انسان کے اور مومن کے فائدہ میں ہے اور خدا کی مصلحت اسی میں ہے۔ جیسا کہ ہم نے بیان کیا کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے ساتھ ان کی زوجہ نے بھی صبر اور استقامت کیا۔


[1]۔ انبیاء/۸۳۔

[2]۔ المیزان، ج۱۴، ص۴۴۳۔

[3]۔ عبداللہ بن عمر، بیضاوی، انوار التنزیل و اسرار التاویل، ج۴، ص۵۸۔

[4]۔ تفسیر نمونہ، ج۱۹، ص۲۹۶۔

[5]۔ ص/۴۱۔

[6][6]۔ انبیاء/۸۳۔

[7]۔ المیزان، ج۱۷، ص۳۱۷۔

[8]۔ مجمع البیان، ج۷۔۸، ص۷۴۶۔

[9]۔ ص/۴۴۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .