۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی نے کہا کہ معاشرے کے اندر صبر کے بے پناہ اثرات ہیں اور یہ انسان کو ولی اللہ کے مقام تک لے جاتا ہے۔ایک انتہائی اہم اور خوب صورت حدیث کہ جسے اہل سنت دانشور اور رجال دان جناب البانی نے سلسلہ احادیث الصحیحہ میں بیان کیا ہے اور اس حدیث کو صحیح کہا ہے اسی طرح شیعہ عالم دین جناب علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے اصحاب سے فرمایا :"سيأتي قوم من بعدكم الرجل الواحد منهم له أجر خمسين منكم، قالوا: يا رسول الله نحن كنا معك ببدر واحد وحنين، و نزل فينا القرآن، فقال: إنكم لو تحملوا لما حملوا لم تصبروا "؛اس روایت میں یہ بشارت رسول اللہ (ص) دے رہے ہیں کہ ایک قوم آئے گی اور اس قوم کا اجر50صحابہ کے اجر کا برابر ہوگا!اصحاب نے پوچھا: یا رسول اللہ!ہم آپ کےساتھ جنگ بدر،احد اور حنین میں لڑ چکے ہیں اور ہمارے بارے میں قرآن نازل ہوا ہے یعنی اتنی ساری فضیلتوں کے باوجود کیسے ہم 50لوگوں کا اجر اس ایک بندے کو ملے گا؟۔

حجت الاسلام استاد بشوی نے مزید کہا کہ پیغمبر اکرم(ص) یہاں ایک راز سے پردہ اٹھاتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ یہ تمام اجر، صبر اور تحمل کی وجہ سے ہے۔کچھ لوگ، اخلاقی فسادات اور سازشوں کے طوفان کے مقابلے میں پہاڑوں کی مانند ڈٹ جاتے ہیں یہ ان کے صبر و اسقامت کی دلیل ہے۔

استاد جامعہ المصطفی نے مذکورہ بالا حدیث پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ان لوگوں نے رسول اللہ(ص) کو دیکھے بغیر ایمان لایا ہے اور اسی ایمان پر ثابت قدم ہیں یہی لوگ سب سے زیادہ فضیلت کے لائق اور حقدار ہیں اور اس قوم کا ہر فرد، بدر و احد اور حنین میں پیغمبر کے ساتھ جنگوں میں شریک 50صحابہ کے برابر اجر و ثواب پائے گا!تمام گمراہی کے اسباب مہیا ہوتے ہوئے یہ لوگ ایمان پر قائم ہیں اور صبر کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

انہوں نے بے صبری کے اسباب کو  گناہ قرار دیتے ہوئے بیان کیا کہ بے صبری گناہ کی وجہ سے وجود میں آتی ہے، سورہ آل عمران آیت 155میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا ہے: "إِنَّ الَّذِينَ تَوَلَّوْاْ مِنكُمْ يَوْمَ الْتَقَى الْجَمْعَانِ إِنَّمَا اسْتَزَلَّهُمُ الشَّيْطَانُ بِبَعْضِ مَا كَسَبُواْ "؛ماضی کا گناہ انسان سے اس کا مستقبل چھین لیتا ہے بما کسبوا؛یعنی گناہ اپنا اثر چھوڑتا ہے اور نیکی کی توفیق سلب ہوتی ہے ،گناہ ایک رکاوٹ ہے اور اس کا انتہائی گہرا اثر ہے اس آیت نے بتادیا رسول اللہ کی معیت بھی انسان کو گرنے سے نہیں بچا سکتی جب تک انسان خود پاکیزہ نہ ہو۔

حجت الاسلام و المسلمین شیخ یعقوب نے بتایا کہ نجات کا واحد راستہ برداشت ہے۔خدا مومن کو آزماتا ہے ۔قرآن بعض انبیاء کو رول ماڈل کے طور پہ بیان کرتا ہے ان میں سے ایک جناب ایوب علیہ السلام ہیں اللہ نے ان کو مال و اسباب و اولاد دی پھر ایک ایک کرکے سب کو اٹھا لیا اور مختلف بیماریوں میں مبتلا کیا لیکن ایوب علیہ السلام نے کبھی اللہ سے شکوہ نہیں کیا بلکہ 18سال صبر کرنے کے بعد اللہ سے دعا کی۔ اور وہ بھی اس کی صفت رحمانت کا واسطہ دے کر دعا کی:"وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ "؛اللہ نے ان کی دعا کو قبول کیا اور 80سال کی عمر میں پہلے سے کئی گنا زیادہ ایوب علیہ السلام کو عطا فرمایا۔دنیا نے جناب ایوب کو تنہا چھوڑ دیا لیکن ان کی باوفا بیوی نے انہیں نہیں چھوڑا ان کی بیوی رحیمہ جناب یوسف پیغمبر کی بیٹی تھی جو جناب زلیخا کے بطن سے تھی اللہ نے ان کی بیوی کی جوانی لوٹا دی اور ان سے کئی فرزند وجود میں آئے،دونوں ماں بیٹی کو اللہ نے دو نبیوں کی محبت میں دوبارہ جوانی لوٹا دی۔

استاد بشوی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ البتہ صبر دشمن کے مظالم کے آگے گردن جھکانے کا نام نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں لوگ صبر کا یہی معنی مراد لیتے ہیں جو کہ سراسر غلط معنی ہے، بلکہ صبر کا صحیح معنی؛مشکلات کے آگے ڈٹ جانا اور ان کا مقابلہ کرنا ہے اس طرح انسان کامیابی حاصل کرسکتا ہے در اصل ان تمام کامیابیوں کی اصل وجہ صبر اور برداشت ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .