حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ، استاد شیخ یعقوب بشوی کے دسویں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ."
بہت سارے لوگ معاشرے میں دعا کرنے سے کتراتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ دعا کرنے کا کیا فائدہ؟
دعا کہاں کہاں انسان کو نفع دیتی ہے؟
بعض اوقات ہم دعا تو کرتے ہیں لیکن دعا قبول نہیں ہوتی دراصل ہمیں یہاں پر یہ دیکھنا ہوگا کہ اگر کسی کی دعا قبول نہیں ہوتی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
کیونکہ قرآن اور حدیث نے کچھ ایسے موانع کا تذکرہ کیا ہے کہ جن کی وجہ سے ہماری دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔
اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ یہ موانع ہیں کیا؟ اور جب تک ان کو دور نہ کریں ہماری دعاقبول نہیں ہوگی دعا فقط عبادت نہیں ہے بلکہ مخ العبادہ ہے ، یعنی عبادتوں کا مغز ہے،اس وجہ سے دعاکی بہت زیادہ اہمیت ہے۔
دعا مستجاب نہ ہونے کی علتیں:
گناہ
انسان جب گناہ کرتا ہے تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی اس لئے کہ گناہگاروں کی دعائیں بارگاہِ الٰہی تک نہیں پہنچ سکتیں، چونکہ گناہگاروں کی دعاؤں میں پرواز نہیں ہے "الیه یصعد الکلم الطیب والعمل الصالح یرفعه"قرآن کہہ رہا ہے کہ خدا کی طرف دو چیزیں جائیں گی ، ایک کلمہ طیب اور دوسری چیز عمل صالح، البتہ یرفع کے دو معنی کئے ہیں؛ بعض نے کہا: عمل صالح کلمہ طیب کو اوپر اٹھائے گا اور بعض کے مطابق ؛کلمہ طیب عمل صالح کو اوپر اٹھائے گا لیکن یہاں پر دونوں مراد ہو سکتے ہیں اس لئے کہ کلمہ طیب اس کے بہت سارے مصادیق ہیں،مثلاً آپ کا کلمہ پڑھنا، آپ کا ایمان اور اسی طرح سے بہت ساری چیزیں کلمہ طیب کے ضمن میں آتی ہیں جب تک آپ کا عقیدہ صحیح نہ ہو آپ کے عمل کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا، اسی بناء دعا کو کلمہ طیب میں شمار کیا جاسکتا ہے۔
جب تک دعا طیب نہ ہو اوپر اٹھ نہیں سکتی، جب تک دعا میں پاکیزگی اور طہارت نہ ہوں قبول نہیں ہو سکتی، کلام آلودہ ہی گناہ کے ارتکاب سے ہوتا ہے اور آلودہ کلام کو خدا پسند نہیں فرماتا،آلودہ کلام میں پرواز کی صلاحیت نہیں ہوتی،آلودہ کلام اس پرندے کی مانند ہے کہ جس کے پروں کو کاٹ دیاہو ایسے پرندے نہیں اڑ سکیں گے تو لہذا دعا میں طہارت شرط ہے اور گناہ سے دوری بھی ضروری ہے۔
دعائے کمیل میں امیر المومنین علیہ السلام ہمیں یہ تعلیم فرماتے ہیں: "اللھم اغفرلی الذنوب التی تحبس الدعاء" تمہاری دعاؤں میں سے بعض دعائیں گناہ کی وجہ سے زندانی ہیں وہ دعائیں بارگاہ الٰہی تک نہیں پہنچ سکتی۔
فرمایا: خدایامیرے ان گناہوں کو بخش دے جو میری دعاؤں کی قبولیت کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
امام سجاد علیہ السلام بھی عدم استجابت دعاکے کچھ علل و اسباب بیان فرماتے ہیں:
ناپاک باطن؛
اگر انسان کا باطن ناپاک ہو تو اس کی دعا قبول نہیں ہوتی یہ مانع ہے حجاب ہے۔
منافقت؛
ہمارے معاشرے میں بہت سارے لوگ ایسے ہیں جو آپ کے سامنے کچھ اور پیٹ پیچھے کچھ اور کہیں گے، مثلاً سامنے کہیں گے ہم آپ کے بہت چاہنے والے ہیں اور آپ کی عدم موجودگی میں کچھ اور کہیں گے، معصومین علیہم السلام کے مطابق ، ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی، کیونکہ ایمان کی تعریف یہ ہے "اقرار باللسان والتصدیق بالجنان وعمل بالارکان" زبان سے اقرار، دل اس کی تصدیق کرے اور ظاہری عمل سے بھی معلوم ہو، اسی وجہ سے کسی کے دل اور زبان میں یگانگت نہ ہو تو،اس کی دعا کو خداوند قبول نہیں فرماتا اور یہ خود ایک گناہ ہے۔
عدم اطمینان؛
انسان دعا تو کرتا ہے لیکن اپنے رب پر اطمینان اور یقیں نہیں ہے ، حالت شک میں دعا کرتا ہے تذبذب میں ہے تو ایسے مذبذبین کی دعا قبول نہیں ہوتی اور یہ تذبذب کا شکار ہونا ہی عامل ہے دعا کے قبول نہ ہونے کا۔
اول وقت میں نماز برپا نہیں کرنا؛
انسان اگرنماز کی ادائیگی میں تاخیر کرے بہت سارے ایسے لوگ ہیں کہ جن سے کہیں کہ وقت پر نماز پڑھو تو وہ کہتے ہیں بس پڑھیں گے اتنی تاخیر سے پڑھتے ہیں کہ مشکلوں سے ادا ہو جاتی ہے ایسے لوگوں کیلئے اس سے بڑھ کر ضرر اور نقصان کیا ہوسکتا ہے کہ پروردگار ان کی دعا کو نہیں سنتا اور ان کی دعا مستجاب ہی نہیں ہوتی،لہذا یہ بھی ایک گناہ ہے۔
بدکلامی؛
امام سجاد علیہ السلام کی نگاہ میں عدم قبولیت دعا میں سے ایک گناہ بدکلامی،فحش نکالنا ہے۔یعنی انسان جو بھی زبان پر آئے اس سے بکے، معاشرے میں ہم بہت سارے مرد و زن کو دیکھتے ہیں کہ لوگ ان کی بدکلامی سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں،لہذا یہ بھی ایک گناہ ہے جس کی بنا پر خدا ہماری دعاؤں کو مستجاب نہیں کرتا۔
ایک گروہ ایسا بھی ہے،وہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم دعا کریں گے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، عمل کا تصور اور کوشش ہی نہیں کرتے بس کہتے ہیں کہ دعا کریں خدا سب کچھ عطا کرے گا تو خدا ایسے لوگوں کی دعاؤں کو بھی قبول نہیں کرتا کیونکہ یہ نظام فطرت،کائنات اور طبیعت کے بر خلاف عمل کر رہے ہیں، اس لئے کہ خدا نے نظام طبیعت کو وجود میں لا کر"لیس للانسان"کی مہر لگانے کے ساتھ یہ کہا ہے کہ تو کوشش کر اور اس کوشش کے ساتھ دعا کرو تو تیری کوشش کا نتیجہ دیں گے اور تمہاری دعا بھی قبول کریں گے لیکن کوشش کیے بغیر فقط اللہ سے مانگو تو اللہ ایسی دعاؤں کو رد فرماتا ہے۔
عدم قبولیت دعا کے سلسلے میں امام صادق علیہ السلام چار قسم کے لوگوں کو بیان فرماتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہمارا روزانہ کی بنیاد پر واسطہ پڑتا ہے ۔
1۔ وہ افراد جو گھر بیٹھے خدا سے دعا کریں اور عملی اقدامات اٹھانے کی کوشش نہ کریں۔
2۔ وہ افراد جن کی بیویاں نافرمان ہوں اور وہ خدا سے دعا کریں خدایا ہمیں ان کے شر سے بچا تو ایسی دعا بھی بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوتی۔
3۔ فضول خرچی کرنے والے لوگوں کی دعا قبول نہیں ہوتی۔وہ اللہ کا عطا کردہ مال سے قناعت پسندی کے خلاف فضول خرچی سے کام لے اور جب مال و دولت ختم ہو جائے اور دعا کرے خدایا میرے رزق و روزی میں برکت عطا فرما لہذا ایسے افراد کی دعا بھی قبول نہیں ہوگی۔
4۔ وہ افراد ہیں جو کسی کو قرض الحسنہ دیتے ہیں لیکن گواہ وغیرہ کا اہتمام نہیں کرتے، قرآن و حدیث کی روشنی میں ضروری ہے کہ کہ قرض لینے اور دیتے ہوئے گواہ مقرر کیا جائے اور جب قرض لینے کا وقت آجائے اور مقروض انکار کرے کہ میں نے آپ سے کب قرضہ لیا ؟اور جب یہاں قرضہ دینے والا دعا کرتا ہے تو خدا اس کی دعا قبول نہیں کرتا۔لہذا ہمیں دعا کے آداب و اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بارگاہِ ایزدی میں دست بدعا ہونے کی ضرورت ہے۔
جاری ہے ۔