حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے 22واں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
بسم الله الرحمن الرحیم
قال الله تبارک وتعالی:"مَنْ ذَا الَّذی یُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضاً حَسَناً"
دین اسلام ایک بہترین معیشت کی طرف بلاتا ہے آج جس سسٹم کی زیادہ ضرورت ہے وہ ہے نظام قرض الحسنہ۔نظام قرض الحسنہ قرآن اور دین اسلام کی طرف سے معاشرے کی فلاح و بہبود اور غربت کے خاتمے کےلئے ایک اہم ترین فارمولا ہے۔
نزول قرآن سے پہلے عرب دنیا میں قرض ربوی(سود) رائج تھا، لوگ کچھ پیسے دیتے تھے اور مد مقابل سے اضافی رقم لیتے تھے یہ نظام روز بروز بڑھتا گیا اور معاشرے میں ایک انتہائی خطرناک سودی نظام نے شکل اختیار کی۔
جب دین اسلام کے قوانین نازل ہوئے تو اس سودی نظام کو حرام قرار دیا اور سودی نظام کے مقابلے میں قرض الحسنہ کے نظام کو متعارف کرایا۔
سورہ مبارکہ بقرہ کی245 ویں آیت میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے کہ"مَنْ ذَا الَّذی یُقْرِضُ اللَّه قَرْضاً حَسَناً"کون ہے جو خدا کو قرض حسنہ دے۔
یہاں پر پروردگار عالم ایک سوال سے گفتگو شروع کر رہا ہے، کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے؟پر پروردگارعالم دراصل ایک سنت حسنہ کو متعارف کرا رہا ہے جو کہ واجب نہیں ہے بلکہ مستحب ہے اور انتہائی اجر وثواب اور انتہائی معنوی اور مادی اثرات کا حامل نظام ہے۔
یہاں پر فقیر کے لفظ کو استعمال نہیں کیا ظاہری بات ہے کہ جب ہم قرضہ دیتے ہیں تو یہ قرضہ کوئی فقیر آکر لیتا ہے، ایسا بندہ لیتا ہے جس کو ضرورت ہو تو یہاں پر پروردگارعالم نے انسان کی عزت کا خیال رکھتے ہوئے مذکورہ بالا آیت میں فقیر اور محتاج کی جگہ اپنے آپ کو رکھ لیتا ہے، پروردگار عالم یہ کہہ سکتا تھا کون ہے جو مسکین کو قرضہ دے لیکن پروردگارعالم اس کام کی حیثیت اور اہمیت کو دکھانا چاہتا ہے کہ قرض الحسنہ ایک ایسا نظام ہے کہ اس کی قدر و منزلت اور اہمیت پر اسلام نے تاکید کی ہے۔
پروردگارعالم اپنے ہی بندوں سے قرض مانگ رہا ہے اسے اس اہم ترین اقتصادی اصول کی اہمیت اور ضرورت ہمارے سمجھ میں آجاتی ہیں۔
قرض الحسنہ دینے کی وجہ سے معاشرے سے ناانصافی، نابرابری، ظلم اور ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ ہو جائے گا اور معاشرے میں انصاف کا بول بالا ہو گا۔
اس نظام سے خداوند کریم ہر انسان کو ایک باعزت زندگی عطا کرنا چاہتا ہے،قرض حسنہ اس نظام معیشت کا نام ہے جو بغیر احسان کے فقیر اور محتاجوں کو رسوا کئے بغیرکو دیا جاتا ہے اور اگر قرض الحسنہ فقرا و نادار لوگوں کے عزت نفس کا خیال رکھتے ہوئے مال حلال سے مخفیانہ دے تو یہ قرض الحسنہ شمار ہو گا جس کی خدا تعریف کرتا ہے۔
قرض الحسنہ کا نتیجہ کیا ہوگا؟
"فَیُضاعِفَه لَه اٴَضْعافاً کَثیرَةً"
جب ہم کچھ دیتے ہیں تو لینے کی فکر میں رہتے ہیں ، انسان منفعت طلب ہے یہاں پر اضعاف کے ساتھ لفظ کثیر کو لایا ہے، آیت کی شان نزول یہ ہے کہ مدینے میں ابی درداء نے پیغمبر(ص) کے پاس آکر کہا کہ میرے پاس دو باغ ہیں تو پیغمبر(ص) نے فرمایا اگر ایک باغ خدا کے نام پر دو تو پروردگارعالم دوبرابر تمہیں عطا فرمائے گا اس لئے کہ قرآن کہہ رہا ہے "من جاء باالحسنہ فلہ خیر منھا" جو حسنہ لے کر آئے گا پروردگار اسے بہتر دے گا تو جب اس نے اللہ کی راہ میں ایک باغ قربان کیا اس کے بعد کہا میں نے باغ کو راہ خدا میں دے دیا ہے تو پیغمبر(ص) نے فرمایا تمہارے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے" من جاء بالحسنة فله عشر امثالھا"؛جو ایک حسنہ لائے پروردگار اس کےلئے دس حسنہ عطا کرے گا ، تو یہاں پر پیغمبر نے اللہ سے مزید عطا کی درخواست فرمائی تو پروردگار کی جانب سے یہ آیت"من اذ الذی یقرض الله قرضا حسنا فیضاعفه له اضعافا کثیرة"نازل ہوئی۔
پروردگار ایک کے بدلے میں کثیر عطا فرمائے گا، روایت میں آیا ہے کہ اگر خدا کے نام قرض دے تو پروردگارعالم ہر دینار و روپیہ کے بدلے میں کوہ احد ،کوہ رضوان اور طور سینا کے وزن کے برابر اجر وثواب اور حسنہ عطا فرمائے گا یہاں پر پروردگارعالم ایک اور خبر دے رہا ہے، ہم مال خرچ کرتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کہیں مال و دولت میں کمی واقع نہ ہو لہذا پروردگارعالم لوگوں سے وعدہ کر رہا ہے:
پہلا وعدہ یہ ہے کہ پروردگارعالم تمہارے لئے کثیر عطا فرمائے گا۔
دوسرا وعدہ یہ ہے کہ واللہ یقبض ویبسط، رزق کا دینا اور نہ دینا اللہ کا کام ہے اللہ خیر الرازقین،واللہ یرزق من یشاء بغیر حساب ہے، خدا جب دیتا ہے تو بغیر حساب دیتا ہے اور تیسری خبر یہ ہے کہ والیہ ترجعون تم نے اس دنیا میں رہنا نہیں ہے جس قدر مال تمہارے پاس ہو بالآخر تم نے اپنے رب کی طرف لوٹنا ہے جو کچھ یہاں پر ہے یہیں رہ جائے گا لیکن جو کچھ اللہ کے نام پر دے وہ روز قیامت تمہارے لئے باقی رہے گا۔
قرض الحسنہ اسلام کا خوبصورت ترین نظام ہے قرض الحسنہ کا نظام دنیا میں کہیں نہیں ہے یہ فقط مکتب اسلام کا ایک منفرد نظام ہے تاکہ اس نظام کے ذریعے معاشرے سے فقر کو دور کیا جا سکے اور معاشرے کے اندر عدالتی اور اجتماعی عدالت قائم کیا جا سکے۔
اسلام کے پاس نہ فقط قرض الحسنہ کا نظام ہے بلکہ اسلام کے پاس ایک اور نظام ہے وہ نظام خمس ہے۔نظام خمس اور زکات بھی معاشرے سے فقر و تنگدستی کے خاتمے کا سبب ہے۔
کون کہتا ہے کہ دین اسلام کے پاس اقتصادی نظام نہیں ہے؟
اسلام کے پاس بہترین اقتصادی نظام ہے اسلام کے پاس سب سے اعلی ترین اقتصادی نظام ہے اس کے علاوہ نظام کفارہ، خیرات اور نذر ونیاز کا سسٹم ہے یہ تمام اسلامی مالیاتی امور ہیں تاکہ معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہو سکے اور کوئی غریب نہ رہے۔
اسلام چاہتا ہے ہر انسان باعزت زندگی گزارے اسی وجہ سے اسلام فقر کا مقابلہ کرتا ہے لیکن اسلام کہتا ہے جو مال تم کسب کرو وہ حلال راہوں سے کسب کرو تو پروردگارعالم اس میں برکت عطا فرماتا ہے اور ان اموال میں سے معاشرے کے حقدار سائل، محروم، رشتہ دار، ابن سبیل ،مساکین اوراقرباء کے حقوق بھی ادا کرو، اسلام غریبوں کا کتنا خیال رکھتا ہے کونسا مکتب ایسا ہے جو غریبوں کا اتنا خیال رکھے؟
یہ دین اسلام کا منفرد اعزاز ہے اگر کوئی غریب ہے تو بیت المال کا دروازہ بند کرنے کا حق نہیں ہے جب تک غریب کی غربت ختم نہ ہو جائے یہ ہے اسلام کا اقتصادی نظام،جب تک ایک فقیر معاشرے میں موجود ہے حاکم کو بیت المال کا دروازہ بند کرنے کا حق نہیں ہے، یہ ہے دین کا نظام،یہ ہے اسلام کا وہ روشن اقتصادی نظام جو دنیا کے سامنے فخر سے پیش کرتا ہے۔
آج اگر معاشرے میں فقر ہے یہ سب نالائق، نااھل حکمرانوں کی وجہ سے ہے جو اقتدار پر قابض ہیں،اسی لئے معاشرے میں غربت اور فقر و تنگدستی وجود میں آتے ہیں کیونکہ طاقت کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کرنے والے نظام طبقاتی کے حامل ہوتے ہیں یہ ایک فرعونی نظام ہے۔
اسلام اس نظام کو جڑ سے ختم کرنے کےلئے آیا ہے، اسلام کا نظام محمدی،علوی، حسینی اور مہدوی نظام ہے کہ اس نظام میں حاکم عادل ہوگا اور نظام عدالت پر مبتنی نظام ہوگا اور اس نظام میں جو قانون چلے گا وہ قرآنی قانون ہوگا،حاکم خدا کا منتخب کردہ حاکم ہوگا اور لوگ اس حاکم کی بیعت، خدا و رسول اور اولی الامر کی اطاعت کی بنیاد پر کریں گے تو یہ بیعت رسول اللہ اور چہاردہ معصومین (ع)کی بیعت ہے اگر ایسا حاکم آجائے تو معاشرے سے فقر و تنگدستی کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا اور ہمارا معاشرہ پوری دنیا میں رول ماڈل کے طور پر متعارف ہو گا۔
جاری ہے ۔