۱ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۱ شوال ۱۴۴۵ | Apr 20, 2024
استاد شیخ یعقوب بشوی

حوزہ/ رمضان المبارک کی مناسبت سے ، حجت الاسلام و المسلمین استاد شیخ یعقوب بشوی کے قرآنیات پر روزانہ درس بعنوان"قرآن کریم؛معاشرتی مشکلات اور ان کا حل"حرم مطہر حضرت فاطمہ معصومہ(س)سے براہ راست نشر کیا جارہا ہے۔جسے ہم اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی کے بیسواں درس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:

بسم الله الرحمن الرحیم

قال الله تبارک وتعالی:"وَأَنْفِقُوآ مِنْ ما رَزَقْناکُمْ"

طبقاتی نظام کا بانی کون؟

اسلام کا نظام انفاق کیا ہے؟

اسلام ایک معیشی نظام رکھتا ہے اور یہ نظام مختلف مجموعوں پر مشتمل ہے،اسلام آیا ہے معاشرے میں عدل وانصاف کو قائم کرنے کےلئے اور معاشرے میں محروم طبقہ کے حقوق کی پاسداری کرنے، اسی لئے اسلام برابری،مساوات، انصاف اور عدل کی بنیاد پر گفتگو کرتا ہے۔
 اسلام کاسب سے بڑا قانون قرآن مجید  ہے،جو عدل اور عدالت کا حکم دیتا ہے۔اگر معاشرے کا نظام معیشت درست نہ ہو تو معاشرے میں طبقاتی نظام وجود میں اجاتا ہے  اور نتیجتاً معاشرے کے تمام شعبوں میں کمزوری دیکھنے میں آئے گی۔

زمین پر طبقاتی نظام سب سے پہلے فرعون کے توسط سے وجود میں آیا

آج بھی دنیا میں تین بڑے اقتصادی نظام رائج ہیں:
1۔سرمایہ داری یا جاگیردارانہ نظام؛ اس نظام میں فرد کو حاکمیت حاصل ہے لیکن معاشرے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور امریکہ سمیت پورے یورپ میں پچھلے کئی سالوں سے جو تحریک چل رہی ہے وہ بھی اسی وجہ سے ہے کیونکہ وہاں کے 99 فیصد عوام بھوکے ہیں اور ان کا سرمایہ ایک فیصد افراد کی جیبوں میں جاتا ہے ، اسی طرح کمیونسٹ اور سوشلزم نظام فرد کو اہمیت نہیں دیتا ہے لیکن معاشرے کو اہمیت دیتا ہے لہذا ان نظاموں میں بھی مساوات نہیں ہے کیونکہ ایک میں فرد کی حاکمیت ہے تو دوسرے میں اجتماع کی حاکمیت ہے۔
 دین اسلام نہ فرد کو معاشرے پر قربان کرتا ہے اور نہ ہی معاشرے کو فرد پر قربان کرتا ہے بلکہ دین اسلام میں فرد کے حقوق کی پاسداری ہوتی ہے اور اجتماعی اور معاشرتی حقوق کی بھی ضمانت دیتا ہے۔
جس نظام نے معاشرے کو طبقاتی نظام کی طرف گامزن کیا وہ ہے نظام فرعونی، سورہ مبارکہ قصص کی4 آیت میں ارشاد ہوتا ہے:"إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ."فرعون نے زمین میں اپنے آپ کوبرتر سمجھ لیاتھا اوروہاں کے رہنے والوں کومختلف گروہوں میں تقسیم کردیاتھا۔اس نے ان میں سے ایک گروہ کوکمزور کردیا تھا، ان کے لڑکوں کو قتل کردیتاتھا اور ان کی لڑکیوں کو (کنیزی کےلیے ) زندہ رہنے دیتاتھا یقیناً وہ مفسدین میں سے تھا۔
  فرعون نے زمین پر برتری اور سرکشی کا آغاز کیا اور زمین پر اپنے آپ کو رب اعلی کے طور پر متعارف کرایا، لوگوں کو اپنا غلام بنایا،وجعل اھلھا شیعا اس نے زمین والوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا، یستضعف طائفتم منھم، اہل زمین میں سے ایک گروہ کو اس نے کمزور بنایا اور اس قدر ظلم وستم شروع کیا کہ یذبح ابنائھم ویستحئ نسائھم ان کے بیٹوں کو اس نے ذبح کیا اور ان کی خواتین کو اس نے زندہ چھوڑا۔
 آج بھی ہمارے معاشرے میں وہی فرعونی نظام چل رہا ہے،ہمیں ایسا کہیں بھی نظر نہیں آئے گا کہ معاشرے میں دوطبقے کے لوگ نہ ہوں، ایک مستضعف طبقہ ہے اور دوسرا حکام بالا اور دولتمند افراد کا طبقہ ہے۔
ثروتمند طبقہ حاکم طبقہ ہے اور جو غریب طبقہ ہے وہ محروم اور مجبور طبقہ ہے۔
 فرعون نے جو نظام قائم کیا اس میں فساد ہے اسی لئے قرآن نے کہا:"إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ."
یقیناً وہ مفسدین میں سے تھا۔ جب ہم زمین پر دو طبقے بنائیں گے اور لوگوں کو دو حصوں میں تقسیم کریں گے تو زمین پر فساد ہی پھیلے گا ، اسی لئے قرآن فرعون کو مفسدین کا سردار قرار دیا کیونکہ فرعون ہی کے توسط سے طبقاتی نظام وجود میں آیا اور اس نے طبقاتی نظام کی بنیاد ڈالی اور اسی وجہ سے جناب موسی(ع) نے فرعون کو خطاب کرکے کہا "وتلک نعمتہ تمنوھا علیا ان عبدت بنی اسرائیل" کہ تم نے بنی اسرائیل کو غلام بنایا اور آج بھی کمیونسٹ نظام معاشرے کو اپنا غلام سمجھتا ہے اور آج معاشرہ فکری،ثقافتی، سیاسی اور اجتماعی طور پر ان کا غلام ہے اسی لئے کمیونزم ہمارے معاشرے میں یاتوتعلیم کو عام ہونے نہیں دیتا یا تعلیمی نظام کو اپنی مرضی کے مطابق انتخاب کرتا ہے اور ظاہراً ہر جگہ ان کی بالا دستی ہے۔
دین اسلام کہہ رہا ہے کہ قرآن کے مطابق ، بالا دستی اسلامی نظریات اور اسلامی نظام کو حاصل ہے اور کسی بھی نظام کیلئے حکمرانی حاصل نہیں ہے۔فرعونی نظام کی حکمرانی ہماری غفلت کی وجہ سے ہے اس طبقاتی نظام کو ختم کرنے کیلئے ہمارے پاس نظام انفاق ہے۔
نظام انفاق قرآن مجید کا پیش کردہ نظام ہے، یہ نظام اسلام کا مالیاتی نظام ہے لیکن ابھی تک ہمارے معاشرے میں مجہول اور  متروک ہے ہمیں اس نظام کو زندہ کرنے ضرورت ہے تاکہ معاشرے میں تنگدستی ختم ہو سکے اور معاشرے میں برابری آجائے۔
نظام انفاق کے بارے میں پروردگارعالم سورہ مبارکہ منافقون کی 10ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:"۔وَأَنْفِقُوآ مِنْ ما رَزَقْناکُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ یَأْتِیَ أَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُولَ رَبِّ لَوْ لا أَخَّرْتَنی إِلی أَجَلٍ قَریبٍ فَأَصَّدَّقَ وَ أَکُنْ مِنَ الصَّالِحینَ."ہم نے تمہیں جو روزی دے رکھی ہے اس میں سے خرچ کرو ، قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کی موت آ پہنچے اور وہ یہ کہنے لگے . پروردگارا! تونے میری موت میں تھوڑی سی تاخیر کیوں نہ کی تاکہ میں صدقہ دوں اورصالحین میں سے ہوجاؤ۔

 یہاں پر خداوند ارشاد فرما رہا ہے کہ اس نظام کو معاشرے میں لاگو اور زندہ کرو تاکہ معاشرے میں غریبوں، مسکینوں اور فقیروں کو اپنی غریبی کا احساس نہ ہو، فرمایا: موت کے آنے سے پہلے اس نظام کو قائم کرو۔
سورہ فاطر میں پروردگار نظام انفاق کو تجارت سے یاد کر رہا ہے یہ اسلام کا تجارتی نظام ہے اور اس نظام کو چھپ کر اور ظاہر ہوکر بھی قائم کرو اور اس نظام میں ہرگز دھوکہ نہیں ہے ہرگز اس نظام میں خسارہ نہیں ہے بلکہ اسلام کہہ رہا ہے یہ ایسی تجارت ہے جو ہمیشہ منفعت بخش ہے، اس تجارت کے علاوہ ممکن ہے دوسری تجارت میں نقصان ہو۔
 نظام انفاق انسان کےلئے بہترین ذخیرہ ہے "وما انفقتم من شیء فھو یخلفه وھو خیر الرازقین" کہ جو کچھ تم خرچ کروگے وہ تمہارے لئے بقاء کا ضامن ہے وہ بہترین سرمایہ ہے جوتم اس دنیا سے چھوڑ کے جا رہے ہو اور وہی تمہارا جانشین بنےگا: "مَا عِنْدَكُمْ یَنْفَدُ وَ مَا عِنْدَ اللّٰهِ بَاقٍؕ؛" جو تم خرچ کرتے ہو وہ ختم ہونے والا ہے لیکن جو اللہ کے پاس ہے وہ باقی رہنے والا ہے لیکن اس انفاق میں ایمان کی شرط ہے اس لئے کہ انفاق کرنے والا مومن نہ ہوتو خدا کسی کافر سے اس انفاق کو قبول نہیں فرمائے گا اور فی سبیل اللہ بھی شرط ہے۔ ارشاد پروردگار ہے وہ لوگ جو سونا اور چاندی ذخیرہ کرتے ہیں اور فی سبیل اللہ خرچ نہیں کرتے وہ نظام انفاق کوقائم کرنے والے نہیں ہیں ان کے لئے دردناک عذاب کی بشارت دو اس لئے کہ معاشرے کو انہوں نے طبقاتی نظام میں تبدیل کیا معاشرے میں ذخیرہ اندوزی کو رواج دے کر غریبوں کے گھر میں جو چولہا جل رہا تھا بجھا دیا۔
ان لوگوں کا نظریہ یہ ہے کہ جیسا بھی ہو پیسہ جمع کرو لہذا ایسے لوگوں کےلئے دردناک عذاب ہے اور اسی طرح قرآن کہہ رہا ہے اس نظام کو قائم کرو اس کے لئے رات دن دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سورہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر274:"الذين ينفقون أموالهم بالليل والنهار سراََ وعلانية فلهم أجرهم عند ربهم ولا خوف عليهم ولا هم يحزنون؛  پروردگار عالم فرما رہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنی دولت کو رات دن خرچ کرتے ہیں خدا کی راہ میں دینے کےلئے نہ وہ رات کا انتظار کرتے ہیں اور  نہ دن کا چھپ کر بھی وہ خرچ کرتےہیں اور ظاہر ہوکر بھی خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے اجر ہے ان کے لئے نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی پریشانی ہے۔
سورہ مبارکہ بقرہ آیت نمبر261 پروردگارعالم اس نظام انفاق کو قائم کرنے والوں کی مثال بیان فرما رہا ہے :مَثَلُ الَّذِیْنَ أَمْوالَهُمْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ کَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنابِلَ في‏ کُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَ اللَّهُ يُضاعِفُ لِمَنْ يَشاءُ وَ اللَّهُ واسِعٌ عَليمٌ ؛ پروردگارعالم خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے مال کو ایک دانے سے تشبیہ دے رہا ہے کہ جو لوگ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں گویا کہ یہ اس ایک دانے کی طرح ہے کہ جسے سات خوشے نکلیں اور ان سات خوشوں میں سو سو دانے ہیں آپ سوچئے کہ ایک دانہ زمین کے حوالے کرے تو ایک دانے کی وجہ سے سات خوشے اور ہر خوشے میں سو سو دانے ہوں؛یعنی نظام انفاق کو قائم کرنے والوں کےلئے یہ بشارت دے رہا ہے کہ اگر تم اس نظام کو قائم کرو اور خدا کی راہ میں دو تو ایک کے بدلے ہم سات سو تمہیں واپس کر دیں گے بلکہ پروردگار جسے چاہئے کئی گنا اضافہ کر دے گا چونکہ خدا وسعت والا اور جاننے والا ہے تو یہاں پر پروردگار عالم نظام انفاق کی طرف لوگوں کے اذہان کو مبذول فرما رہا ہے کہ دیکھو اگرغریبوں ،بیواؤں اور محتاجوں پر خرچ کروگے تو ایک کے بدلے میں سات سو تمہیں خدا واپس کرے گا اسی طرح پوچھا گیا کہ یسئلونک ماذا ینفقون تو ان سے کہہ دو قل ما انفقتم من خیر فالوالدین والاقربین والیتامی والمساکین وبن السبیل تو نظام انفاق میں والدین ہیں  اقربین، یتیم، مساکین اور اسی طرح جو لوگ سفر میں ہیں  یہ سب ضرورت مند لوگ ہیں تو نظام انفاق کے حقدار یہ لوگ ہیں اس نظام کے اندر دو قسم کے نظام ہیں،ایک نظام مالیاتی ہے جو آپ خرچ کریں گے والدین اقربین ،یتامی، مساکین پر اور اس کا دوسرا پہلو کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا کہ ہم کیا خرچ کریں ؟تو فرمایا قل العفو؛ ایک دوسرے کو معاف کردیا کرو، یہ نظام انفاق کا دوسرا پہلو ہے۔
ہمیں کسی پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک دوسرے کو معاف کریں یعنی معاشرے میں ایک وسعت قلبی اور ایک وسعت فکری کا مظاہرہ کریں تاکہ معاشرے کے افراد پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں اور وہ لوگ بھی اس نظام میں شامل ہو سکیں۔
جاری ہے۔

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .