حوزہ نیوز ایجنسی I قرآنِ کریم کے مطابق انسان کی موت دو طرح کی ہے: اجلِ مسمّی اور اجلِ معلّق۔ یہ تقسیم محض علمی یا لفظی نہیں بلکہ اس میں گہری حکمتیں پوشیدہ ہیں جو خدا اور انسان کے تعلق، اختیار، عدل اور تربیت سے جڑی ہوئی ہیں۔
اجلِ مسمّی: موتِ قطعی اور غیرقابلِ تغییر
اجلِ مسمّی وہ موت ہے جو قطعی اور یقینی ہے اور "لوح محفوظ" میں درج ہے۔ اس میں تبدیلی یا تاخیر ممکن نہیں۔ یہ ہر انسان کی قدرتی عمر کے انجام کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
قرآن میں فرمایا گیا ہے: «فَإِذا جاءَ أَجَلُهُم لا یَستَأخِرونَ ساعةً وَ لا یَستَقدِمونَ»"پس جب ان کا وقت (مقررہ) آ پہنچے، تو نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹ سکیں گے اور نہ آگے بڑھ سکیں گے" (یونس: ۴۹)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ خدا کا علم اور فیصلہ مطلق ہے، اور کوئی طاقت اس میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہ دراصل خدا کی قطعی اور حتمی تقدیر ہے۔
اجلِ معلّق: موتِ مشروط اور قابلِ تغییر
اس کے برعکس، اجلِ معلّق وہ موت ہے جو حالات اور انسان کے اعمال کے مطابق آگے پیچھے ہو سکتی ہے۔ یہ "لوح محو و اثبات" سے تعلق رکھتی ہے۔ نیک اعمال جیسے دعا، توبہ، صلہ رحم اور تقویٰ انسان کی عمر کو بڑھا سکتے ہیں، جبکہ گناہ اور ظلم عمر کو گھٹا سکتے ہیں۔
قرآن میں فرمایا گیا: «وَیَمْحُوا اللَّهُ مَا یَشَاء وَیُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْکِتَابِ»"خدا جو چاہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہے برقرار رکھتا ہے، اور اصل کتاب (لوح محفوظ) اسی کے پاس ہے" (رعد: ۳۹)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "یہ دو اجل ہیں؛ ایک مشروط ہے جس میں خدا جو چاہے کرتا ہے اور ایک محتوم ہے"۔
یعنی اجل معلّق خدا کی تربیت اور امتحان کا ذریعہ ہے، تاکہ انسان اپنے اعمال سے اپنی زندگی کی سمت متعین کرے۔
حکمتِ تقسیم: عدلِ الٰہی اور اختیارِ انسان
یہ تقسیم اس لیے ہے تاکہ دونوں پہلو باقی رہیں:
خدا کا قطعی علم اور فیصلہ (اجلِ مسمّی)
اور انسان کی آزادی و اختیار (اجلِ معلّق)
اگر موت صرف قطعی اور غیرقابلِ تغییر ہوتی، تو دعا، نیکی اور اصلاح کی کوئی جگہ نہ رہتی۔ اور اگر سب کچھ مشروط ہوتا، تو علمِ قطعیِ خدا پر سوال اٹھتا۔
دعا اور نیک اعمال کا اثر
روایات میں آیا ہے کہ دعا اور عملِ صالح اجلِ معلّق کو بدل سکتے ہیں، حتیٰ کہ بعض اوقات اجلِ مسمّی میں بھی خدا کے حکم سے تبدیلی ممکن ہو جاتی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: "دعا تو قضا و قدرِ حتمی کو بھی بدل دیتی ہے"۔
یعنی دعا انسان کے مقدر میں اہم کردار رکھتی ہے، خاص طور پر اجلِ معلّق میں۔
اجلِ مسمّی کا مخفی رہنا: امتحان اور بیداری
قرآن اور روایات بتاتی ہیں کہ انسان کو اس کا قطعی وقتِ موت نہیں بتایا جاتا تاکہ وہ ہمیشہ ہوشیار اور تیار رہے، غفلت اور غرور کا شکار نہ ہو۔ یہ دراصل ایک امتحان ہے تاکہ انسان ہر لمحہ عمل کی فکر کرے۔
قرآن کہتا ہے:"اور انسان کو وہی ملے گا جس کی اس نے کوشش کی ہوگی" (نجم: ۳۹)
اجل صرف فرد کا نہیں، قوموں کا بھی ہوتا ہے
قرآن میں ذکر ہے کہ صرف افراد ہی نہیں بلکہ امتوں اور قوموں کی بھی ایک مدت مقرر ہے:«وَ لِکُلِّ أُمَّةٍ أَجَلٌ...» (اعراف: ۳۴) "اور ہر امت کے لیے ایک وقت مقرر ہے..."
یعنی جب کوئی قوم ظلم اور فساد میں ڈوب جاتی ہے تو اس کا اجتماعی اجل آ جاتا ہے اور وہ تباہ ہو جاتی ہے، پھر ایک نئی قوم یا نظام اس کی جگہ لیتا ہے۔
نتیجہ
قرآن اور روایات کی روشنی میں موت کے دو پہلو ہیں:
اجلِ مسمّی: جو قطعی اور غیرقابلِ تغییر ہے۔
اجلِ معلّق: جو اعمال اور دعا کی بنیاد پر آگے پیچھے ہو سکتا ہے۔
یہ تقسیم دراصل اس حقیقت کو واضح کرتی ہے کہ انسان کا اختیار اور ذمہ داری بھی باقی ہے، اور خدا کا علم اور فیصلہ بھی برحق ہے۔









آپ کا تبصرہ