اتوار 14 ستمبر 2025 - 05:49
امام علی علیہ السلام اور حقیقی ایمان کے چار ضروری ستون

حوزہ / امام علی علیہ السلام حکمت نمبر 31 نہج البلاغہ میں ایمان کو چار اراکین پر استوار قرار دیتے ہیں: صبر، یقین، عدل اور جہاد۔

حوزه نیوز ایجنسی کے مطابق، حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں "ایمان اور کفر اور شک کے اراکین" کے بارے میں نکات بیان فرماتے ہیں جس میں سے ہم یہاں ایمان کے متعلق فرمان کو آپ کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں:

حکمت 31:

"وَ سُئِلَ (علیه السلام) عَنِ الْإِیمَانِ، فَقَالَ الْإِیمَانُ عَلَی أَرْبَعِ دَعَائِمَ: عَلَی الصَّبْرِ وَ الْیَقِینِ وَ الْعَدْلِ وَ الْجِهَادِ."

ترجمہ:

امام علیہ السلام سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ایمان چار ستونوں پر قائم ہے: صبر، یقین، عدل اور جہاد پر۔

تشریح:

حضرت امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ایمان چار ستونوں پر قائم ہے: صبر، یقین، عدل اور جہاد پر۔

اب ان میں سے صبر خود چار شاخوں پر قائم ہے: اشتیاق (جنت کی)، خوف (جہنم کا)، زہد (دنیا سے بے رغبتی) اور انتظار (موت کا)۔

جو شخص جنت کا مشتاق ہو، وہ سرکش خواہشات کو بھلا دیتا ہے اور جو شخص جہنم کی آگ سے ڈرتا ہو، وہ گناہوں سے پرہیز کرتا ہے اور جو دنیا سے بے رغبت ہو (زاہد ہو) وہ مصیبتوں کو ہلکا سمجھتا ہے اور جو موت کا انتظار کرے وہ نیک اعمال کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے۔

اسی طرح یقین بھی چار شاخوں پر قائم ہے: ذہانت و ذکاوت اور گہری بصیرت، حکمت کی باریکیوں کو سمجھنا، عبرتوں سے نصیحت حاصل کرنا اور گذشتہ نیک لوگوں کی پیروی کرنا۔

جس کے پاس بصیرت ہو، اس کے لیے حکمت اور امور کی باریکیاں روشن ہو جاتی ہیں اور جس کے لیے امور کی باریکیاں روشن ہو جائیں وہ عبرت حاصل کرتا ہے اور جو عبرت حاصل کرے گویا وہ ہمیشہ گذشتہ (نیک) لوگوں کے ساتھ رہا ہے۔

عدل کی بھی چار شاخیں ہیں: دقیق سمجھ بوجھ، عمیق علم و دانش، صحیح اور واضح فیصلہ کرنا اور پختہ حلم و بردباری۔

جو شخص اچھی طرح سوچے (غور وفکر کرے) وہ علم کی گہرائیوں سے آگاہ ہوتا ہے اور جو علم کی گہرائیوں تک پہنچ جائے، وہ احکام کے سرچشمے سے سیراب ہوتا ہے اور جو حلم و بردباری کو اپنا شعار بنائے وہ اپنے معاملات میں کوتاہی اور تقصیر کا شکار نہیں ہوتا اور لوگوں میں باعزت زندگی گزارے گا۔

جہاد (بھی) چار شاخوں پر قائم ہے: نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا، جنگ کے میدانوں میں سچائی (ثابت قدمی) اور فاسقوں (نافرمانوں) سے دشمنی رکھنا۔

جو نیکی کا حکم دے اس نے مومنین کی پشت مضبوط کی اور جو برائی سے روکے، اس نے کافروں (اور منافقوں) کی ناک خاک میں ملا دی اور جو دشمن کے مقابلے میں میدان جنگ میں (یا ہر قسم کے مقابلے میں) سچائی (اور ثابت قدمی) سے ڈٹ جائے اس نے اپنا فرض (جہاد کے معاملے میں) ادا کر دیا اور جو فاسقوں سے دشمنی رکھے اور اللہ کے لیے غضبناک ہو تو اللہ اس کی خاطر غضبناک ہوتا ہے (اور اسے دشمنوں کے مقابلے میں محفوظ رکھتا ہے) اور قیامت کے دن اسے راضی کرے گا۔

ماخذ: کتاب پیام امام امیر المومنین (علیہ السلام)، شرح نهج البلاغه، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha