بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
فَقَاتِلْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا تُكَلَّفُ إِلَّا نَفْسَكَ ۚ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِينَ ۖ عَسَى اللَّهُ أَنْ يَكُفَّ بَأْسَ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ وَاللَّهُ أَشَدُّ بَأْسًا وَأَشَدُّ تَنْكِيلًا. النِّسَآء(۸۴)
ترجمہ: اب آپ راسِ خدا میں جہاد کریں اور آپ اپنے نفس کے علاوہ دوسروں کے مکلف نہیں ہیں اور مومنین کو جہاد پر آمادہ کریں۔ عنقریب خدا کفار کے شر کو روک دے گا اور اللہ انتہائی طاقت والا اور سخت سزا دینے والا ہے۔
موضوع:
قیادت کا نمونہ، جہاد کا درس، اور اللہ پر بھروسے کی تاکید
پس منظر:
یہ آیت غزوۂ احد کے بعد نازل ہوئی، جب مسلمانوں کو شکست کا سامنا ہوا، اور ان کے حوصلے پست ہو چکے تھے۔ کفار کی جانب سے مسلسل خطرات موجود تھے، اور مسلمانوں کے لیے ضروری تھا کہ وہ اس موقع پر اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں۔
تفسیر آیات:
گزشتہ آیات سے یہ بات عیاں ہو گئی کہ جس مشکل دور سے رسول خدا (ص) گزر رہے تھے، اس وقت مسلمانوں کی صفوں میں ایسے لوگوں کی خاصی تعداد موجود تھی جو یا تو منافق تھے یا ضعیف الایمان اور منافقین کے ہمنوا تھے۔ صرف راسخ الایمان مومنین کی ایک جماعت جہاد کے لیے آمادہ تھی۔ اندریں حالات رسول خدا (ص) کے لیے یہ حکم نازل ہوتا ہے کہ قتال کے لیے بنفس نفیس آمادہ ہو جائیں۔
۱۔ [فَقَاتِلۡ:] یعنی لوگو کی طرف سے جہاد کے لیے آمادگی نہ ہونے کے پیش نظر خود رسول اللہؐ کو قتال کا حکم ملتا ہے کہ اور کوئی آمادۂ جہاد نہ ہو، آپ خود قتال کے لیے نکلیں۔
چنانچہ اس آیت کے نزول کے بعد ہر جنگ میں رسول خدا (ص) خود جنگ کی قیادت فرماتے تھے۔
۲۔ [وَ حَرِّضِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ:] آپ مومنوں کو جہاد کی ترغیب دیں۔ جہاد کی فضیلت بیان کر کے جہاد نہ کرنے والوں کا انجام بیان فرما کر، [حَرِّضِ] کے بعد جس چیز کی ترغیب دینا ہے، اس کا ذکر نہیں کیا۔ [وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ] کے بعد [علی القتال] نہیں فرمایا۔ چونکہ یہ بات سیاق سے سمجھ میں آ جاتی ہے۔
۳۔ [عَسَی اللّٰہُ اَنۡ یَّکُفَّ بَاۡسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا:] لفظ [عَسَی] کے معنی ’’امید ہے‘‘، ’’ممکن ہے‘‘ ہیں۔ اللہ کی طرف امید کا اظہار اس کے واقع ہونے کی ضمانت ہے۔ چنانچہ بدر صغریٰ میں یہ وعدہ پورا ہو گیا۔ ابو سفیان کے لشکر نے مقابلے کے لیے نکلنے کی جرات نہیں کی۔
اہم نکات:
۱۔ صرف رسول اللہ(ص) کو بنفس نفیس قتال کا حکم ملتا ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت رسول خدا (ص) کو مشکل حالات میں ثابت قدمی اور قیادت کی مثال قائم کرنے کا حکم دیتی ہے، اور مسلمانوں کو اللہ کے وعدوں پر بھروسہ کرتے ہوئے جہاد کے لیے آمادہ کرنے کی اہمیت اجاگر کرتی ہے۔ یہ اس بات کی تلقین ہے کہ ایمان اور عمل کے ذریعے اللہ کی نصرت حاصل کی جا سکتی ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ