بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرٌ مِنَ الْأَمْنِ أَوِ الْخَوْفِ أَذَاعُوا بِهِ ۖ وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ وَلَوْلَا فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَاتَّبَعْتُمُ الشَّيْطَانَ إِلَّا قَلِيلًا. النِّسَآء(۸۳)
ترجمہ: اور جب ان کے پاس امن یا خوف کی خبر آتی ہے تو فورا نشر کردیتے ہیں حالانکہ اگر رسول اور صاحبانِ امر کی طرف پلٹا دیتے تو ان سے استفادہ کرنے والے حقیقت حال کا علم پیدا کرلیتے اور اگر تم لوگوں پر خدا کا فضل اور ا سکی رحمت نہ ہوتی تو چند افراد کے علاوہ سب شیطان کا اتباع کرلیتے۔
موضوع:
یہ آیت بھی اکثر حضرات کے نزدیک ضعیف الایمان مسلمانوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ تفسیر المنار نے یہی مؤقف اختیار کیا ہے۔
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء کی ہے، جو مسلمانوں کو معاشرتی اور سماجی نظم و ضبط کے اصولوں کی تعلیم دیتی ہے۔ اس میں اطلاعات کے ذمہ دارانہ استعمال اور قیادت کی طرف رجوع کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بعض افراد بغیر تحقیق کے افواہیں پھیلانے لگے تھے، جس سے معاشرتی انتشار پیدا ہونے کا خدشہ تھا۔
تفسیر:
یہ لوگ اسلامی مرکز میں رونما ہونے والے عسکری اسرار و رموز سے مربوط ہر بات کو پھیلا دیتے تھے۔ جس سے بہت سے راز فاش ہو جاتے اور مسلمانوں کی صفوں میں اس افواہ سازی کے نتیجہ میں بد امنی پھیلتی تھی۔ اس آیت میں ان کے لیے حکم آیا کہ وہ اس قسم کی خبروں کے بارے میں مرکز کی طرف رجوع کیا کریں اور اس کے بارے میں مرکز سے ہدایات لے لیا کریں۔ چونکہ مرکز یعنی رسول (ص) اور صاحبان امر اس خبر کے پس منظر اور حقائق سے آگاہ ہیں۔
یہاں آیہ [اَطِیعُوا] کی طرح اللہ کی طرف رجو ع کرنے کا حکم نہیں، کیونکہ یہاں تشریعی احکام کی بات نہیں ہو رہی، بلکہ انتظامی اور سیاسی و اجتماعی امور کا ذکرہے۔
ان انتظامی امور میں رسول (ص) اور صاحبان امر ہی ایسی خبروں کے حقائق اور پس منظر سے آگاہ ہیں، وہی ان خبروں کے بارے میں بہتر بتا سکتے ہیں، لہٰذا یہاں صاحبان امر سے مراد وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اسلامی عسکری و سیاسی نظام کے محور میں ہوں اور یہ مقام وحی اور اس کی نزدیک ترین ہستیاں ہو سکتی ہیں۔ چنانچہ آیہ [اَطِیعُوا] میں اس کی تفصیل کا ذکر ہو چکا ہے۔
[ وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ] کی آیت کے ہر جملے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے نہیں ہے کیونکہ منافقین اللہ کے فضل و رحمت سے مستفید نہیں ہو سکتے۔
[استنباط] کا لفظ فقہا کی جدید اصطلاح ہے، جو شرعی دلائل سے احکام کا استخراج کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ عصر نزول قرآن میں یہ لفظ انہی فقہی اصطلاحی معنوں میں ہرگز استعمال نہیں ہوتا تھا۔
اہم نکات
۱۔ مرحلۂ نفاذ و عمل میں رسولؐ اور [اولوالامر] کی طرف رجوع کرنا لازم ہے۔
۲۔اس آیت سے قیاس پر استدلال سے معلوم ہوا کہ قیاس (ذاتی رائے) پر دلیل بھی ذاتی رائے ہے۔
۳۔ حق کے خلاف منفی پروپگنڈا باطل کا ہمیشہ وطیرہ رہا ہے۔ [اَذَاعُوۡا بِہٖ]۔۔۔
نتیجہ:
تعجب کا مقام یہ ہے کہ اہل سنت کے قدیم و جدید اکثر مفسرین نے اس آیت سے قیاس کی حجیت پر استدلال کیا ہے کہ جہاں قرآن و سنت میں دلیل نہ ملے تو ذاتی رائے قیاس کے ذریعے استنباط (استخراج) احکام واجب ہے اور ساتھ یہ مؤقف بھی اختیار کیا کہ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول کریم (ص) بھی اجتہاد سے کام لینے پر مکلف تھے۔ ملاحظہ ہو احکام القرآن جصاص و تفسیر رازی ۔ اس طرح ہر نئی اصطلاح سے قرآن کی تفسیر کرنے سے قرآنی تعلیمات کا ایک معتدبہ حصہ ان حضرات کی غلط فہمی کا شکار ہو گیا۔ چنانچہ صاحب تفسیر المنار بھی اس بات کو صراحت کے ساتھ بیان کرتے ہیں:
[ھذا شاھد من افصح الشواہد علی ما بینا من سبب غلط المفسرین و بعدھم عن فھم کثیر مناٰیات الکتاب المبین بتفسیرہ بالاصطلاحات المستحدثۃ]۔ (المنار ۵ : ۳۰۱)
لطف کی بات یہ ہے کہ [صاحب المنار] خود بھی جدید سائنسی علوم سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور بہت سے معجزات کی مادی تو جیہ و تفسیر کرتے ہیں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء