بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِكْكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوجٍ مُشَيَّدَةٍ ۗ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِنْدِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا. النِّسَآء(۷۸)
ترجمہ: تم جہاں بھی رہو گے موت تمہیں پالے گی چاہے مستحکم قلعوں میں کیوں نہ بند ہوجاؤ- ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اچھے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ خدا کی طرف سے ہے اور مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ آپ کی طرف سے ہے تو آپ کہہ دیجئے کہ سب خدا کی طرف سے ہے پھر آخر اس قوم کو کیا ہوگیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھتی ہی نہیں ہے۔
موضوع:
موت سے بچاؤ ممکن نہیں: اللہ کی طرف سے نعمت اور مصیبت دونوں امتحان ہیں۔
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء کی ہے، جو مدینہ کے منافقین اور کمزور ایمان والوں کے رویوں کو واضح کرتی ہے۔ یہ ان کی نفسیات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ کس طرح نعمتوں کو اللہ کی طرف اور مصیبتوں کو نبی اکرمؐ کی طرف منسوب کرتے تھے۔
تفسیر:
1. موت کا اٹل قانون: آیت کے پہلے حصے میں یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ موت ہر جگہ پہنچ سکتی ہے، خواہ انسان خود کو دنیاوی طاقت اور مستحکم قلعوں میں محفوظ سمجھ لے۔
2. انسانی رویہ: دوسری جز میں لوگوں کے رویے کو بیان کیا گیا ہے کہ وہ خوشی اور کامیابی کو اللہ کی عطا سمجھتے ہیں لیکن مصیبت اور مشکلات کو نبی اکرمؐ یا کسی دوسرے انسان سے منسوب کرتے ہیں۔
3. خدائی منشا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نعمت اور مصیبت دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ یہ انسانوں کے امتحان اور آزمائش کا حصہ ہیں تاکہ ان کے کردار کا جائزہ لیا جا سکے۔
اہم نکات:
• موت سے فرار ممکن نہیں، خواہ انسان کتنی ہی تدبیریں کر لے۔
• مصیبت اور نعمت اللہ کی طرف سے ہیں اور یہ انسان کے اعمال کے تناظر میں آزمائش ہوتی ہیں۔
• منافقین کا نبی اکرمؐ پر مصیبتوں کی ذمہ داری ڈالنا ان کی کم علمی اور کج فہمی کا مظہر ہے۔
• اللہ کی مشیت کو سمجھنا اور تسلیم کرنا مومن کی پہچان ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت انسان کو نصیحت کرتی ہے کہ وہ دنیاوی اسباب و وسائل پر بھروسہ نہ کرے بلکہ ہر حال میں اللہ کی طرف رجوع کرے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ ایمان اور نفاق میں بنیادی فرق اللہ کے فیصلوں کو قبول کرنے کا ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء