بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَنْ لَمْ تَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا. النِّسَآء(۷۳)
ترجمہ: اور اگر تمہیں خدائی فضل و کرم مل گیا تو اس طرح جیسے تمہارے ان کے درمیان کبھی دوستی ہی نہیں تھی کہنے لگیں گے کہ کاش ہم بھی ان کے ساتھ ہوتے اور کامیابی کی عظیم منزل پر فائز ہوجاتے۔
موضوع:
منافقین کا رویہ اور ان کی خواہشات
پس منظر:
یہ آیت سورہ نساء کی ہے اور جنگ کے دوران مؤمنین اور منافقین کے رویے کو بیان کرتی ہے۔ قرآن مجید اس آیت میں ان لوگوں کی نفسیات کو بے نقاب کرتا ہے جو مشکل وقت میں مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں، لیکن جب فتح یا کامیابی حاصل ہو، تو اس کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔
تفسیر:
1. منافقین کی نفسیات: آیت میں منافقین کے اس رویے کی نشاندہی کی گئی ہے کہ جب مسلمانوں پر مشکلات آتی ہیں، تو یہ دور رہتے ہیں، لیکن جب اللہ کا فضل و کرم نازل ہوتا ہے، تو حسرت اور پشیمانی کا اظہار کرتے ہیں۔
2. مودّت کا فقدان: یہ افراد اپنی گفتگو اور حسرت میں اس طرح کا اظہار کرتے ہیں جیسے ان کا مؤمنین سے کبھی کوئی تعلق ہی نہ تھا۔ ان کا ظاہر اور باطن مختلف ہے، جو نفاق کی علامت ہے۔
3. دنیاوی کامیابی کی خواہش: منافقین کی خواہش صرف دنیاوی کامیابی اور فائدے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ دین کی خدمت یا اللہ کی رضا کے لیے۔
اہم نکات:
• اخلاص اور نفاق کا فرق: مؤمنین اللہ کی رضا کے لیے قربانیاں دیتے ہیں، جب کہ منافقین صرف فائدے کے وقت ساتھ دینا چاہتے ہیں۔
• اللہ کا فضل: اللہ کا فضل صرف اخلاص اور ایمان والوں کے لیے ہے، نہ کہ منافقین کے لیے۔
• حسرت کا انجام: یہ حسرت دنیا میں شرمندگی اور آخرت میں عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔
نتیجہ:
اس آیت سے یہ سبق ملتا ہے کہ کامیابی اور فضل صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو اخلاص اور ایمان کے ساتھ دین کی خدمت کرتے ہیں۔ منافقت اور دنیاوی مفاد کے لیے دینی معاملات میں شامل ہونا نہ دنیا میں کامیابی دیتا ہے اور نہ آخرت میں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء









آپ کا تبصرہ