بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَلَهَدَيْنَاهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا. النِّسَآء(۶۸)
ترجمہ: اور انہیں سیدھے راستہ کی ہدایت بھی کردیتے۔
موضوع:
ہدایت کا راز: ایمان، اطاعت اور عمل
پس منظر:
یہ آیت سورہ النساء کی ہے اور ان آیات کا تسلسل بیان کر رہی ہے جو ایمان لانے والوں، اللہ اور رسول کی اطاعت کرنے والوں کے لیے اللہ کی نعمتوں اور ہدایت کے وعدے کو واضح کرتی ہیں۔ اس سے پہلے کی آیات میں ایمان اور اعمالِ صالحہ کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
تفسیر:
1. ہدایت کا مفہوم: آیت میں "صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا" یعنی سیدھے راستے سے مراد وہ راستہ ہے جو اللہ کی رضا اور جنت کی طرف لے جاتا ہے۔
2. شرائطِ ہدایت: اللہ کی ہدایت حاصل کرنے کے لیے ایمان، اطاعتِ الٰہی اور اعمالِ صالحہ ضروری ہیں۔ اگر انسان ان شرائط کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ اسے سیدھے راستے کی رہنمائی عطا کرتا ہے۔
3. قرآنی سیاق: اس آیت سے پہلے اطاعتِ خدا و رسول اور انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کے گروہ کا ذکر ہے۔ یہاں ہدایت کا ذکر ان تمام صفات سے منسلک ہے۔
اہم نکات:
• ہدایت کی شرط: ایمان اور اطاعتِ الٰہی۔
• سیدھے راستے کی وضاحت: جنت کی طرف لے جانے والا راستہ۔
• قرآنی اصول: اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ان کے نیک اعمال کے بدلے ہدایت دیتا ہے۔
عمل کی اہمیت: صرف زبانی دعووں سے ہدایت نہیں ملتی بلکہ عمل شرط ہے۔
نتیجہ:
اس آیت کا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو ان کے اخلاص اور اعمال کی بنیاد پر سیدھے راستے کی ہدایت عطا کرتا ہے۔ یہ ہدایت دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کی ضمانت ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء