بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا. النِّسَآء(۷۲)
ترجمہ : تم میں ایسے لوگ بھی گھس گئے ہیں جو لوگوں کو روکیں گے اور اگر تم پر کوئی مصیبت آگئی تو کہیں گے کہ خد انے ہم پر احسان کیا کہ ہم ان کے ساتھ حاضر نہیں تھے۔
موضوع:
منافقین کی بزدلی اور آزمائش کے وقت ایمان کی پہچان
پس منظر:
یہ آیت سورۃ النساء کی ہے، جو مدینہ منورہ میں نازل ہوئی۔ اس کا سیاق و سباق جنگ اور آزمائش کے موقع پر مسلمانوں کی صفوں میں موجود منافقین کے طرز عمل کو بیان کرتا ہے۔ یہ آیت خاص طور پر ان لوگوں کے رویے کو ظاہر کرتی ہے جو جنگ یا مشکل حالات میں پیچھے ہٹنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں۔
تفسیر:
1. وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ: اس حصے میں ان لوگوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے جو مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ منافقین ہوتے ہیں جو مسلمانوں کے حوصلے پست کرنے کے لیے بہانے اور خوف پیدا کرتے ہیں۔
2. فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ: جب مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی ہے، جیسے جنگ میں شکست یا جانی نقصان، تو یہ منافق خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے انہیں بچا لیا۔
3. قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيَّ:
یہ جملہ ان کے منافقانہ طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ اپنی عدم موجودگی کو اللہ کا انعام قرار دیتے ہیں، حالانکہ حقیقت میں یہ ان کی بزدلی اور ایمان کی کمی کا نتیجہ ہے۔
4. إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا:
یہاں "شہیدًا" کا مطلب صرف موجود ہونا ہے، یعنی وہ اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ آزمائش میں شریک نہیں ہوئے۔
اہم نکات:
منافقین کا کردار: منافقین مسلمانوں کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مشکل حالات میں پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔
اللہ کی نعمت کا غلط فہوم: منافقین اللہ کی نعمت کا غلط مطلب لیتے ہیں اور اپنی بزدلی کو انعام سمجھتے ہیں۔
آزمائش اور ایمان: یہ آیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ حقیقی ایمان والوں کا امتحان مصیبت کے وقت ہوتا ہے۔
نتیجہ:
یہ آیت مسلمانوں کو خبردار کرتی ہے کہ وہ منافقین کے اثر سے بچیں اور ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھیں۔ ایمان والوں کی پہچان آزمائش کے وقت ہوتی ہے، جبکہ منافقین مشکل وقت میں اپنی حقیقت ظاہر کر دیتے ہیں۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء