بسم الله الرحـــمن الرحــــیم
لَا يَسْتَوِي الْقَاعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِي الضَّرَرِ وَالْمُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ ۚ فَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَاعِدِينَ دَرَجَةً ۚ وَكُلًّا وَعَدَ اللَّهُ الْحُسْنَىٰ ۚ وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا. النِّسَآء(۹۵)
ترجمہ: اندھے بیمار اور معذور افراد کے علاوہ گھر بیٹھ رہنے والے صاحبانِ ایمان ہرگز ان لوگوں کے برابر نہیں ہوسکتے جو راسِ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرنے والے ہیں- اللہ نے اپنے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر امتیاز عنایت کئے ہیں اور ہر ایک سے نیکی کا وعدہ کیا ہے اور مجاہدین کو بیٹھ رہنے والوں کے مقابلہ میں اج» عظیم عطا کیا ہے۔
موضوع:
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کی اہمیت، مجاہدین کے فضیلت، اور ان کے درجات کو بیان کیا ہے۔
پس منظر:
یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب بعض مومنین جسمانی کمزوری یا معذوری کی وجہ سے جہاد میں شامل نہ ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ معذور افراد مستثنیٰ ہیں، لیکن صحت مند افراد جو گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں، وہ مجاہدین کے برابر نہیں ہوسکتے۔
تفسیر:
جہاد: اپنی بقاء کی جنگ ہر ذی روح لڑتا ہے۔ چونکہ یہ اس کا فطری حق ہے کہ اس کی زندگی اور زندگی کے لوازمات کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کے ساتھ مزاحمت کرے۔
اگر کوئی طاقت کسی انسان کی زندگی کے درپے اس لیے ہو جائے کہ وہ اللہ پر ایمان لاتا ہے تو ایسی طاقت کے ساتھ مزاحمت کرنے کو جہاد کہتے ہیں۔
لہٰذا جہاد فی سبیل اللہ اپنی بقا کی جنگ بھی ہے اور اس بقا کو راہ خدا میں کرنے کی بھی سعی ہے، جس میں فرد امت کی بقا پر قربان ہو جاتا ہے۔
رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےہمراہ جہاد کرنے والوں نے اپنے جہاد سے ایک امت کو زندگی دی۔ یہ زندگی قیامت تک جاری رہے گی۔ اس امت کی رگوں میں قیامت تک جو خون گردش کرتا رہے گا، اس خون کو عصر رسولؐ کے مجاہدوں نے دوڑا دیا تھا۔
اسی لیے اس آیت میں رسولؐ کے ساتھ جہاد کرنے والے مجاہدین کی دوسروں پر فضیلت کا ذکر تین بار تکرار کیا گیا۔ لہٰذا قرآن کی رو سے یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی کہ رسول اللہؐ کے ساتھ جس کا جہاد زیادہ ہے، اس کی فضیلت سب سے زیادہ ہے۔
[دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ:] یعنی یہ تفضیل، یہ برتری اللہ کے نزدیک درجات کے لحاظ سے ہے۔ اس سے اس بات کی بھی صراحت آگئی کہ یہ برتری اور تفضیل کس اعتبار سے ہے اور جہاد چونکہ اس امت کے لیے ایک تقدیر ساز مسئلہ ہے، اس لیے جس قدر اس کی فضیلت زیادہ ہے، اس قدر اس سے فرار کرنا بڑا جرم ہے اور سات بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔
اہم نکات:
۱۔ فضیلت کا پیمانہ جہاد ہے۔ رسول اللہ ؐکے ساتھ جس کا جہاد زیادہ، اس کی فضیلت زیادہ ہے۔دَرَجٰتٍ مِّنۡہُ ۔۔۔۔
نتیجہ:
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ ایمان کا حقیقی تقاضا عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کو ان کے خلوص، قربانی، اور جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے بلند درجات اور اجر عظیم عطا کیا ہے۔ معذور افراد کی رعایت سے اسلام کی انصاف پسندی اور مہربانی بھی نمایاں ہوتی ہے۔
•┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈•
تفسیر سورہ النساء
آپ کا تبصرہ