۱۰ فروردین ۱۴۰۳ |۱۹ رمضان ۱۴۴۵ | Mar 29, 2024
مولانا سيد منظور علی نقوی

حوزہ/ آج ضروری ہے کہ ہم تعلیمات جناب فاطمہ (س) کو عملی جامہ پہنائے اور اِن ایام سے باخوبی استفادہ کریں ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نہ جانے دیں بہت افسوس کا مقام ہے کہ ہم فضائل بی بی زہرا سلام اللہ علیہا پر خوش ہوں آپ کے مصائب پر گریہ کریں مگر آپ کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل نہ کریں یہ بہت شرمندگی کا مقام ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مولانا سید منظور علی نقوی آمروہہ وی نے کہا کہ جناب فاطمہ (س) نے انسانیت کا پیغام دیا ہے اور ظلم کے خلاف خاموش نہ رہنے کا درس، اگر فاطمیون میں شمار ہونا ہے تو درِ فاطمہ س سے متمسک ہونا ہوگا کیونکہ اس در سے شجاعت، فداکاری، زهد و صبر کا وہ درس حاصل ہوتا ہے جو دنیا کی کوئی دانشگاه نہیں دے سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ یقیناً ایام فاطمیہ انسان سازی کے ایام ہیں تعلیمات اهل بیت علیهم السلام پر عمل کرکے انسانیت کو اپنے اندر زندہ کیا جا سکتا ہے، وگرنہ ظلم کی بو آنے میں انسان کے اندر دیر نہیں لگتی ہے، ظلم فقط دوسروں پر ہی نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ظلم کرنے والا انسانیت کے درجہ پر نہیں پہنچ سکتا۔ اب چاہے وہ ظلم تکبر کے ذریعے ہو یا نماز کو ترک کرکے ہو یعنی یہ کہ دینا غلط نہ ہوگا کہ کسی بهی طرح کا گناہ کرنے والا ظالم کی فہرست میں اس کا شمار ہوتا ہے کیونکہ یہ ظلم به نفس کہلاتا ہے۔کیونکہ حقیقی فاطمیون کی پہچان یہ ہے کہ وہ باکردار، ایماندار، امانت دار، دیانت دار، نمازی، پرہیزگار، غیرتمند، عزت دار، انصاف پسند، پاکیزہ روح، ذمہ دار، جہالت سے دور، بدعتوں سے دور، قرآن و اہل بیت کا تابع ہوتا ہے جو ان تمام صفات کا حامل جو ہوگا حقیقتاً وہی فاطمیون میں شامل ہوگا.

مزید کہا کہ آج ضروری ہے کہ ہم تعلیمات جناب فاطمہ (س) کو عملی جامہ پہنائے اور اِن ایام سے باخوبی استفادہ کریں ایسے ہی اپنے ہاتهوں سے نہ جانے دیں بہت افسوس کا مقام ہے کہ ہم فضائل بی بی زہرا سلام اللہ علیہا پر خوش ہوں آپ کے مصائب پر گریہ کریں مگر آپ کی دی ہوئی تعلیمات پر عمل نہ کریں یہ بہت شرمندگی کا مقام ہے۔

جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا صبر و شکیبایی کا نمونہ ہیں آپ کا ایک لقب صابرہ بهی ہے اور صابرہ اس کو کہا جاتا ہے کہ جو سختیوں کو تحمل کرے رضا الہی کے لیے جناب فاطمہ س کے زیارت نامہ میں پڑهتے ہیں {سلام ہو آپ پر ای مظلومہ کہ آپ نے ظلم و ستم کے مقابلے میں صبر کیا}.

آخر میں کہا کہ صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک صبر گناہوں کے مقابلے میں ہوتا ہے۔ گناہوں کے مقابلے میں صبر کا اصلاً یہ معانی نہیں ہے کہ آپ تحمل کرو گناہوں کی آلودگی پر بلکہ گناہوں کے مقابلے پر شکیبائی کرنا ہے، نفس کو گناہوں کی آلودگی سے دور رکهنا ہے۔ یعنی انسان کو چاہیے کہ گناہوں کی لذت سے دور رہ کر گناہوں سے آلودہ نہ ہو۔ دوسرا صبر مصیبت میں ہے یعنی ثابت قدم اور قضائے الٰہی پر ثابت قدم رہنا، مصیبت زدہ اگر صبر نہ کرے تو ممکن ہے قضائے الٰہی پر شکوہ کرے یا خود کو نقصان پہنچائے جو کہ حرام ہے اگر یہ صبر نہ کرے تو ہزاروں گنا کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے اور اگر صبر کرلے تو بڑی سے بڑی سختیوں میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

تبصرہ ارسال

You are replying to: .