جمعرات 16 اکتوبر 2025 - 11:53
انسان کے خسارے کی اصل وجہ ایمان اور عملِ صالح سے غفلت ہے: آیت اللہ ہاشمی علیا

حوزہ/ آیت اللہ ہاشمی علیا نے تاکید کی ہے کہ جتنا انسان ایمان اور عملِ صالح کی راہ میں کوشش کرے، تکلیف برداشت کرے اور رنج و مشقت جھیلے، وہ سب اسی کے نفع میں ہے، لیکن اگر اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آیت اللہ ہاشمی علیا نے تاکید کی ہے کہ جتنا انسان ایمان اور عملِ صالح کی راہ میں کوشش کرے، تکلیف برداشت کرے اور رنج و مشقت جھیلے، وہ سب اسی کے نفع میں ہے، لیکن اگر اپنے نفس کو آزاد چھوڑ دے تو یہ اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔

مؤسس مدرسہ علمیہ قائم(عج) شہر چیذر، آیت اللہ ہاشمی علیا نے درسِ اخلاق کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ظلم کی کئی اقسام ہیں، جن میں سب سے خطرناک ظلم، انسان کا اپنے ہی اوپر ظلم کرنا ہے۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: «اَلنّاسُ مَعادِنُ کمَعادِنِ الذَّهَبِ وَ الْفِضَّهِ» یعنی انسان سونا اور چاندی کے مانند قیمتی معدن ہیں، اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو نقصان سے بچائے۔

انہوں نے سورۂ عصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ خداوند متعال نے اس سورہ میں انسان کے خسارے کی حقیقت کو واضح کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسم کھا کر فرمایا ہے کہ انسان خسارے میں ہے، سوائے ان کے جن میں دو بنیادی صفات پائی جائیں: ایمان اور عمل صالح۔ ایک کا تعلق عقیدہ سے ہے اور دوسرے کا عمل سے۔ ایمان یعنی اللہ، اس کی وحدانیت، قیامت، انبیاء، آسمانی کتابوں اور ائمہ اطہار علیہم السلام پر پختہ یقین رکھنا۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے وضاحت کی کہ ایمان دل کا کام ہے جبکہ عملِ صالح اعضاء و جوارح سے انجام پاتا ہے۔ خدا نے ایمان کو جسم کے تمام اعضا پر واجب قرار دیا ہے اور ہر عضو کی اپنی ایک ذمہ داری ہے۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ انسان کسی پر ظلم نہ کرے، حتیٰ کہ اپنے اوپر بھی نہیں۔ جو انسان اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے، وہ دراصل ابھی جہادِ نفس کے مرحلے تک نہیں پہنچا۔

استادِ حوزہ علمیہ نے مزید کہا کہ بعض اوقات بیماری یا تنگدستی بھی خدا کی مصلحت میں ہوتی ہے اور یہ انسان کے لیے لطفِ الٰہی ہے، لہٰذا مومن کو ان حالات میں راضی اور صابر رہنا چاہیے۔ اگر کوئی شخص مجالسِ دینی میں شرکت کے باوجود اپنے نفس کی اصلاح نہ کرے تو وہ خدا کے عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ جو کچھ نبی اکرم (ص) اور ائمہ اطہارؑ سے ہم تک پہنچا ہے، وہ سب خدا کی جانب سے ہے، لہٰذا دین کے کسی حکم کو ردّ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی شخص نماز یا حجاب جیسے کسی ضروری حکمِ دین کا انکار کرے تو وہ ایمان سے خارج ہے۔

آیت اللہ ہاشمی علیا نے کہا: “وہ خواتین جو نماز و ذکر کرتی ہیں مگر حجاب کا اہتمام نہیں کرتیں، انہیں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ حجاب کو نہیں مانتیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ مانتی ہیں مگر عمل میں کمزور ہیں۔ یہی فرق ایمان اور انکار کے درمیان حدِ فاصل ہے۔”

انہوں نے مزید فرمایا کہ جو شخص اپنے نفس سے جہاد کرے اور گناہوں سے پاک رہے، وہ کامل ایمان کا حامل ہے اور اس کا انجام جنت ہے۔ روزِ قیامت انسان کے اعضا اور جوارح خود اس کے اعمال کی گواہی دیں گے۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha