تحریر : مولانا ظہور مہدی، حوزہ علمیہ، قم مقدس
يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ۔(سورۃ الصف ، جزء ۲۸ آیہ ۸)۔
اس آیہ مبارکہ نے دو ارادوں کو ذکر کیا گیا ھے:
ایک:خداوند قوی و عزیز کا ارادہ ھے۔
دوسرا: کافروں اور نافرمان بندوں کاارادہ ھے۔
دونوں ارادوں کا " متعلٌق " ایک ھے اور وہ " نور الہی" ھے۔
البتہ دونوں ارادوں کی کیفیت اور مراد جدا جدا ھے، بلکہ ایک دوسرے کے بر عکس و متضاد ھے۔
اللہ عز و جل کا ارادہ اپنے نور کو تمام کرنے کا ھے اور کافروں کا ارداہ اس نور کو خاموش کرنے کا ھے۔
اللہ رب العزت کی ذات اقدس واحد و احد ھے اور مقابلہ پر آنے والے کافر و نافرمان اور نالائق بندوں کی تعداد کثیر ھے یعنی یہ جنگ درحقیقت وحدت و کثرت کے مابین جاری و ساری ھے۔
جاری و ساری اس لئے کہ قرآن نے خداوند سبحان و قدوس کے لئے " متم " کا کلمہ استعمال کیا ھے جو اسم فاعل ھے اور عمل کے مسلسل اور مستمر ھونے پر دلالت کرتا ھے اور اْدھر کافروں کے لئے " لیطفئوا " مضارع کا صیغہ استعمال کیا ھے اور اس کی دلالت بھی تسلسل اور استمرار پرھوتی ھے۔
آپ جانتے ہیں کہ قرآن حکیم کی آیات اگر مخصوص واقعات ، حادثات ، اعمال ، مواقع اورحقائق وغیرہ کے تناظر میں بھی نازل ھوں ، تب بھی انھیں فقط ان کی شان نزول میں محدود نہیں کیا جاسکتا ، قاعدہ " جری و تطبیق " کے مطابق ایک آیت کے بہت سے مصادیق ھو سکتے ہیں اور اس کی تطبیق کچھ معینہ ارکان و شرائط کے ساتھ بہت سے مقامات و واقعات وغیرہ پر ھوسکتی ھے۔
لہذا مذکورہ باتوں کو نظر میں رکھتے ھوئے اس آیہ مبارکہ کے حوالے سے کہا جاسکتا ھے کہ اس کا ایک مصداق " اسلامی انقلاب ایران " ھے اور یہ اس انقلاب پر منطبق نظر آتی ھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ انقلاب اسلامی ایران ، اس دنیا میں نور کا ایک ایسا دھماکہ تھا کہ جس نے ظلم اور ظلمت پرستوں کی نیندیں حرام کرڈالیں۔
یہ نور انقلاب ، عجیب نور تھا کہ جس کی شعاعین مشرق و مغرب سب جگہ محسوس کی گئیں اور اس انقلاب سے سب سے زیادہ پریشانی انھیں کو ھوئی جو لوگوں کو اندھیرے میں رکھ کر اپنا الو سیدھا کرنے کے عادی بن چکے تھے ، چنانچہ وہ اس نور کے دھماکے سے بلبلا اٹھے اور انھیں اپنے اقتدار و اختیار کے ساتھ ساتھ دنیا میں اپنی جمی جمائی چودھراہٹ بھی خطرے میں نظر آنے لگی۔
چونکہ باطل و ظالم نظام ھمیشہ لوگوں کو جہالت و نادانی یا اندھیرے میں رکھ کر ھی اپنے پیر جماتا اور ان پر اپنا تسلط قائم کرتا ھے۔
بلاشبہ انقلاب اسلامئ ایران ظلم و ستم ، حیوانیت و بر بریت ، اور استحصال و استضعاف کے خلاف ایک " نقارہ بیداری " تھا ، جس نے اھل ستم کے ہاتھوں کے طوطے اڑا دیئے اور دنیا بھر کے مظلوموں کو خواب غفلت سے بیدار ھونے کی فکر عطا کی۔
یہ اسلامی انقلاب اتنا باعظمت ھے کہ اس دنیا کی جہاندیدہ شخصیتوں نے اسے بیسویں صدی کا معجزہ قرار دیا ھے۔
اس اسلامی انقلاب نے سرزمین ایران ھی کا مقدر نہیں بدلا ھے بلکہ اپنی آب و تاب سے پوری دنیا کو متاثر کیا ھے۔
اس میں کوئی شک نہیں ھے کہ یہ انقلاب اس اسلامی سپوت خمینی کبیر کے ذریعہ عالم وجود میں آیا ھے کہ جس کا ہاتھ تمامتر مادیات سے خالی تھا ، اس رھبر عظیم الشان نے فقط اسلام و ایمان کی طاقت و قوت کی بیس پر نعرہ انقلاب بلند کیا اور تنہا اسی الہی و اسلامی طاقت و قوت کی بیس پر یہ انقلاب کامیاب ھوا اور اس حکومت و سلطنت کے مقابلے میں کامیاب ھوا ھے جو تمامتر فوجی و لشکری قوتوں سے لیس تھی۔اسی لئے کہنا پڑتا ھے کہ یہ انقلاب درحقیقت ، الہی و اسلامی معجزہ ھے جو عالمی پیمانے پر بیسویں صدی میں جلوہ نما ھوا ھے اور یہ صرف ھمارا کہنا نہیں ھے ، بلکہ بہت سے غیر مسلمان مغربی دانشمندوں کا اعتراف بھی ھے چنانچہ :
کناڈا کے کالتسون نامی دانشمند کہتے ہیں کہ مغربی اور غیر مسلم ھونے کے باوجود میری نظر اس اسلامی انقلاب کے بارے میں یہ ھےکہ :
" یہ واقعا ایک معجزہ ھے کہ ایک الہی و مکتبی انقلاب آج کی دنیا میں اس طرح تحقق پیدا کرے اور نطام عدالت کو برپا کرنے کے لئے اس طرح آگے بڑھے ، ماننا پڑے گا کہ اللہ کی طرف سے اس کی حمایت ھو رھی ھے۔(1)
اسلامی انقلاب کے آثار و برکات :
اسلامی انقلاب کے آثار و برکات ، ایران اور پوری دنیا میں اسقدر ھیں کہ انھیں اعداد و شمار میں لانا واقعاً نہایت مشکل کام ھے ، اس لئے اپنی بساط کے مطابق ھم یہاں صرف اس کے چند آثار و برکات کو اجمالی طور پر ذکر رھے ہیں:
۱۔ اسلامیت :
رھبر و بانئ انقلاب امام خمینی علیہ الرحمہ کا پورا وجود اسلام میں غرق تھا ، اسی لئے انھوں نے اس انقلاب کی بیس ملک ایران کو نہیں بلکہ اسلام کو قراردیا تھا، اور اسلام چونکہ عالمی و جہانی دین ھے ، اس لئے یہ اسلامی انقلاب بھی ایران تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے نور کی شعاعیں پوری دنیا میں پھیل گئیں۔
۲۔ استقلال :
استقلال دوقسم کا ھوتا ھے ظاھری و باطنی۔
اس عظیم اسلامی انقلاب نے ملک ایران کو بے مثال استقلال عنایت کیا ھے، جو ظاھری بھی ھے اور واقعی بھی۔
ورنہ نہ جانے دنیا کے کتنے ممالک ایسے ہیں جنھوں نے استعماری طاقتوں سے ظاھری طور پر تو چھٹکارا اور استقلال حاصل کیا ھے ، لیکن باطنی و واقعی طور پر انھیں طاقتوں کی غلامی کر کے اپنی حکومت چلارھے ہیں۔
۳۔ امن و امان :
سرکار مولائے کائنات علیہ الصلوۃ والسلام کا ارشاد مبارک ھے :
نعمتان مجھولتان : الصحۃ والامان۔(شیخ صدوق علیہ الرحمہ، الخصال ، ج ۱، ص ۳۴ )۔
امن و امان واقعاً انتہائی بیش قیمت نعمت کا نام ھے اور الحمد للہ ایران ، اسلامی انقلاب کی وجہ سے اس عظیم نعمت سے مالا مال ھے اگرچہ دشمن مسلسل ایران کے مثالی امن و امان کو غارت کرنے کی منحوس کوششیں کرتے رھتے ہیں اور کبھی کبھی کچھ مدت کے لئے انکی یہ کوششیں کامیاب بھی ھوجاتی ہیں لیکن اسلامی نظام کی طاقت و قوت پھر امن و امان کی سابقہ شان واپس لے آتی ھے۔
۴۔ شجاعت و بہادری :
امام خمینی کے بقول شاہ کے دور میں "جو قوم ایک پاسبان اور پولس والے سے ڈر جاتی تھی" ۔۔۔
اسلامی نظام و انقلاب نے اسے اتنا نڈر ، شجاع اور بہادر بنادیا کہ اس نے شاہ خائن کو ایران سے نکلنے پر مجبور کردیا اور اسی قوم نے سالہا سال سے آجتک امریکہ کو دردسر میں مبتلا کر رکھا ھے۔
۵۔ طواغیت کو پہچنوانا :
عجب بات ھے دنیا جن طاغوتوں سے خوشگوار تعلقات کو اپنی بقا و سلامتی کی ضمانت سمجھتی ھے، اسلامی انقلاب کی آغوش میں پلنے والے نوجوان اور بچے ھرنماز کے بعد انھیں " مردہ باد " کے تیروں سے چھلنی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
یہ اسلامی انقلاب ھی کا کرشمہ ھے کہ اس نے طواغیت عصر کا اصلی نہایت منحوس چہرہ پوری دنیا کو دکھا دیا ھے ، اسی لئے امریکہ ، انگلستان اور اسرائیل سے نفرت و بیزاری اب عالمی شکل اختیار کرتی جارھی ھے۔
۶۔۔ پوری دنیا کو اسلام کی جامعیت اور قدرت و قوت سے آگاہ کرنا:
جس کے سیکڑوں ثبوتوں میں سے دو ایک ثبوت یہ ہیں:
الف : ایک مغربی ڈاکٹر میشل جانسون کا کہنا ھے کہ :
اصل نکتہ یہ ھے کہ اس انقلاب کی راھنمائی و ھدایت فقط اسلام نے کی ھے اور اس کی کامیابی میں کسی مغربی ازم کی کوئی دخالت نہیں ھے۔(2)
ب : ایک اور یورپی دانشمند" ھوبر " کا کہنا ھے کہ امام خمینی نے اس اسلامی انقلاب سے فقط مسلمانوں کو بیدار نہیں کیا ھے بلکہ اس اسلامی انقلاب نے غیر مسلم دنیا کو بھی متاثر کیا ھے۔(3)
"الفضل ماشھدت بہ الاعداء"۔
۸۔ اسلامی صفوں میں وحدت و اتحاد۔
جرمن کی ایک یونیورسٹی کے پروفیسر لوڈ ویگ نے کہا ھےکہ :
اگرچہ انقلاب اسلامئ ایران کے رھبر شیعہ تھے لیکن یہ انقلاب ، شیعی اور ایرانی انقلاب کی صورت میں رونما نہیں ھوا بلکہ یہ ایسا انقلاب ھے جو تمام امت اسلامی کے لئے اتحاد و وحدت بخش ثابت ھوا ھے۔(4)
۹۔ حوزہ علمیہ قم :
یہ مبارک حوزہ ، اسلامی انقلاب سے پہلے بھی موجود تھا مگر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس کی وسعت و عظمت میں اسقدر اضافہ ھوا ھے کہ آج ھم اس عظیم حوزہ کی برکتوں کو شمار کرانے سے واقعا عاجز ہیں ، جب کہ اس کی وسعت و عظمت ، اسلامی انقلاب کےآثار و برکات میں ایک اثر و برکت ھے تو کیا مقام تامل نہیں ھے کہ اس اسلامی انقلاب کے جملہ برکات کتنے عظیم و وسیع ھونگے۔
اھم نکتہ:
غور طلب بات یہ ھے کہ انقلابات تو دنیا میں آتے ھی رھتے ہیں ، آخر یہ انقلاب کیوں اتنا عظیم الشان ھے ، کیوں اتنا باعظمت ھے ، کیوں اتنا مضبوط و مستحکم ھے ، کیوں اتنا موثر ھے اور کیوں اتنا بابرکت ھے ؟؟
اس کا مختصر اور جامع جواب یہ ھے کہ یہ انقلاب اس لئے عظیم الشان ، موثر اور نہایت بابرکت ھے چونکہ ولایت فقیہ کے سائے آیا ھے۔
اب سوچئے جب ایک الہی و اسلامی فقیہ کی ولایت کے زیرسایہ آنے والا انقلاب اتنا موثر و بابرکت ھے تو پھر حجت خدا اور امام معصوم کی ولایت کے زیرسایہ آنے والا عالمی انقلاب کتنا عظیم اور بابرکت ھوگا۔
حوالے :
1 تا 4 : گوگل ، مقالہ انقلاب اسلامی از دیدگاه تعدادی از اندیشمندان، متفکران و صاحب نظران خارجی۔
گردآوری و تنظیم: روابط عمومی دانشکده فنی و حرفهای شریعتی ، ۱۱بهمن ۱۴۰۱ | ۱۴:۳۹ کد ۶۲۰۸۔