تحریر: خواہر سیدہ سائرہ نقوی
حوزہ نیوز ایجنسی | سید الشہداء امام حسین علیہ السلام کا چہلم کل پاکستان بھر میں عقیدت و احترام سے منایا جارہا ہے۔ کل عراق میں بھی سید الشہداء کا چہلم ہوگا۔ یہ دن اربعین کے نام سے دنیا بھر میں مشہور ہے جس کی آمد پر عراق کے دو شہروں نجف اور کربلا کے درمیان انسانوں کا ہجوم مشی کرتا ہے۔ مشی سے مراد پیدل چلنے کے ہیں۔ مشی کا آغاز ماہِ صفر میں ہوتا ہے اور ٢٠ صفر تک مشی کو مکمل کیا جاتا ہے۔
امام علی علیہ السلام کا قول ہے: "ہم (اہل بیت علیہم السلام) وہ نقطہ اعتدال ہیں جن سے پیچھے رہ جانے والا آگے بڑھ کر اُن سے مل جاتا ہے اور آگے بڑھ جانے والا پلٹ کر ملحق ہو جاتا ہے۔" (1) ہم اس قول کی عملی شکل اربعین کے موقع پر دیکھ سکتے ہیں کہ کروڑوں انسان مذہب, زبان, رنگ و نسل کے تعصب سے بالاتر ہو کر امام حسین علیہ السلام کے مرقد مبارک کو مرکز تصور کرتے ہوئے اس کی طرف رخ کرتے ہیں۔ اربعین کی پیادہ روی نہایت اہم ہے کیونکہ یہ باہدف و بامقصد ہے۔ یہ محض دو شہروں کے درمیان پیدل سفر نہیں بلکہ زائر امام حسین علیہ السلام کا خود کو اس بات کے لئے آمادہ کرنا ہے کہ میں اپنے وقت کے امام (عج) کی نصرت کے لئے ہمہ وقت تیار ہوں۔ اور اگر میرے امام مجھے پکاریں تو میں ہر دنیاوی آسائش کو ترک کر کے ان کے پاس پہنچوں گا خواہ مجھے پیدل چل کر جانا پڑے۔
اربعین اس آفاقی پیغام کو دہرانے کا دن بھی ہے جو امام حسین علیہ السلام نے یومِ عاشور قتل گاہِ کربلا سے دیا تھا۔ اس دن جب سیدالشہداء دشمن پر پے در پے حملے کرتے ہوئے سخت جنگ میں مشغول تھے اور آپ کی تلوار نے متعدد یزیدیوں کو خون میں نہلا دیا تو آپ کے اعصاب کو کمزور کرنے کے لئے فوجِ یزید نے خیامِ اہلِ حرم کا رخ کیا اور حملہ آور ہوئے۔ اس موقع پر امام حسین علیہ السلام نے ایک تاریخی جملہ کہا: "اگر تمہارا کوئی دین نہیں ہے, اور قیامت کا بھی تمہیں کوئی خوف نہیں تو کم از کم اس دنیا میں آزاد انسانوں کی طرح زندگی بسر کرو, اور اگر خود کو عرب سمجھتے ہو تو اپنے اجداد (کی سیرت) کو ہی پیش نظر رکھو۔" (2) اگرچہ یہ کلام ایک خاص موقع سے مخصوص نظر آتا ہے لیکن دراصل ہر دور کے انسانوں کے لئے ایک آفاقی پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔ امام علیہ السلام کی مراد یہ ہے کہ اگر کوئی انسان خدا کے دین کا معتقد اور پابند نہیں, تو کم از کم اپنے قومی رسم و رواج کا خیال رکھے یعنی آج کی زبان میں "بین الاقوامی قوانین" کا تابع ہو جائے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جنگ اور دفاع کے حوالے سے اسلام نے جو دستور فراہم کیا ہے اس میں فریقِ مخالف کے ہر قسم کے حقوق سے تجاوز سے منع کیا گیا ہے اگرچہ جارحیت بھی اسی کی طرف سے کی گئی ہو۔ خدائے وحدہ لاشریک نے اپنی الہامی کتاب میں واضح ارشاد فرمایا: "وہ لوگ جو تم سے جنگ کرتے ہیں, تم بھی ان سے راہِ خدا میں جہاد کرو اور زیادتی نہ کرو کہ اللہ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔" (3) یعنی حکمِ خدا کے مطابق جنگ میں شریک ہونے والوں کے سوا دشمن کے دوسرے افراد کو نقصان پہنچانا منع ہے۔ حملہ آوروں کے گھر تباہ کرنا, ان کے درخت کاٹنا, ان پر پانی بند کرنا, عورتوں اور بوڑھوں کو تکلیف پہنچانا, دشمن کے زخمیوں کا علاج معالجہ نہ کرنا وغیرہ ممنوع قرار دیا گیا۔ خدا کے حکم کے نزول اور امام حسین علیہ السلام کے اس آفاقی پیغام کے صدیوں بعد بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے جنگوں کے اصول و قوانین وضع کیے۔
یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یومِ عاشور امام حسین علیہ السلام نے انسانی حقوق کی حقیقی ترجمانی کی اور آج آپ کا اسم گرامی ہر مظلوم کی آواز اور نشانِ خاص بن چکا ہے۔ سیدالشہداء (ع) کے آفاقی پیغام پر عمل تب ہی ممکن ہے جب انسان آسمانی ادیان کی تربیت سے فیض یاب ہو ورنہ دساتیر اور قوانین کی پابندی کرنا ممکن نہیں۔
حوالہ جات:
(1) نہج البلاغہ حکمت 108
(2) خطبات مکتوبات و فرمودات حسین ابن علی ع (مدینہ تا کربلا) 83
(3) سورہ بقرہ آیت 190