تحریر:محمد موسیٰ احسانی
(۱)حسرت زیارت
عن أبي جعفر (عليه السلام)، قال لو يعلم الناس ما في زيارة الحسين (عليه السلام) من الفضل لماتوا شوقا وتقطعت أنفسهم عليه حسرات
امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:اگر لوگ جان جائیں کہ امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت تو وہ اسی تڑپ سے مر جائیں گے اور ان کی سانسیں اسى حسرت سے رک جائیں گی۔
قُلْتُ وَمَا فِيهِ قَالَ مَنْ أَتَاهُ تَشَوُّقاً كَتَبَ اللهُ لَهُ أَلْفَ حَجَّةٍ مُتَقَبَّلَةٍ وَأَلْفَ عُمْرَةٍ مَبْرُورَةٍ وَأَجْرَ أَلْفِ شَهِيدٍ مِنْ شُهَدَاءِ بَدْرٍ وَأَجْرَ أَلْفِ صَائِمٍ وَثَوَابَ أَلْفِ صَدَقَةٍ مَقْبُولَةٍ وَثَوَابَ أَلْفِ نَسَمَةٍ اس کے بعد راوی نے پوچھا اس زیارت میں کیا ہے(یعنی کتنا ثواب ہے)؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا جو شخص شوق سے زیارت کو ائے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ایک ہزار مقبول حج، ایک ہزار مقبول عمرے، بدر کے شہداء میں سے ایک ہزار شہداء کا اجر، ایک ہزار روزہ داروں کا ثواب، ایک ہزار قبول شدہ صدقے کا ثواب، اور ایک ہزار جانوں (لوگوں) کو آزاد کرنے کا ثواب لکھ دیتا ہے۔
بحار الانوار ،ج98 ،ص 18 الوسائل ،ج14, ص453.المستدرك ج10،ص309
عن عبيد بن زرارة سمعت الإمام الصادق(عليه السلام)
{ إنّ لزوار الحسين بن علي (عليهما السلام) يوم القيامة فضلاً على الناس». قلت وما فضلهم؟ قال: «يدخلون الجنة قبل الناس بأربعين عاماً وسائر الناس في الحساب}.عبید بن زرارہ کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا: 'یقیناً امام حسین بن علی (علیہما السلام) کے زائرین کو قیامت کے دن باقی لوگوں پر فضیلت حاصل ہوگی۔' میں نے عرض کیا وہ فضیلت کیا ہے؟ تو امام علیہ السلام نے فرمایا: 'وہ جنت میں دوسرے لوگوں سے چالیس سال پہلے داخل ہوں گے، جب کہ باقی لوگ ابھی حساب میں ہوں گے۔ وسائل الشيعة، ج14، ص: 425
(۲)امام حسین علیہ السلام کی زیارت کا ثواب
محمد بن مروان نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں:حضرت صادق علیہ السلام نے فرمایا:حضرت حسین علیہ السلام کی زیارت کیا کرو، اگرچہ اس سال میں ایک مرتبہ ہی ہو، کیونکہ: جو شخص ان کی زیارت کرے جبکہ ان کا حق پہچانتا ہو اور ان کا انکار نہ کرتا ہو، تو اس کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ نہیں۔نیز اسے کشادہ روزی عطا کی جائے گی، اور اللہ تعالیٰ دنیا میں اس کے لیے گشائش پیدا فرمائے گا۔بے شک اللہ تعالیٰ نے چار ہزار فرشتوں کو حضرت حسین علیہ السلام کی قبر پر مقرر کیا ہے، جو (ہمیشہ) ان پر گریہ کرتے رہتے ہیں۔اور جو شخص ان کی زیارت کے لیے جائے، یہ فرشتے اس کے واپس گھر پہنچنے تک اس کے ساتھ ہوتے ہیں،اگر وہ بیمار ہو جائے تو اس کی عیادت کرتے ہیں اور اگر وہ مر جائے تو اس کے جنازے میں حاضر ہوتے ہیں، تاکہ اس کے لیے استغفار کریں اور اللہ کی رحمت نازل ہو۔"(کامل الزیارات باب 28حدیث13معتبرہ محمد بن مروان
(کاملابن قولویہ رحمۃ اللہ نے « كامل الزيارات» میں ہشام بن سالم سے اور انہوں نے امام صادق عليه السلام سے ایک طولانی حديث نقل کی ہے کہ ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور عرض کیا : یابن رسول اللہ! کیا ہم آپ کے بابا (امام حسین علیہ السلام ) کی زیارت کر سکتے ہیں ؟
آپ نے فرمایا : ہاں ! زیارت کے علاوہ ان کی قبر کے نزدیک نماز بھی پڑھی جائے ، البتہ ان کی قبر کے پیچھے نماز پڑھی جائے اور ان کی قبر سے آگے نماز نہ پڑھی جائے (یعنی قبر کی طرف پشت کر کے نماز ادا نہ کی جائے )۔اس شخص نے عرض کیا : جو شخص ان کی زیارت کرے ، اسے کیا اجر و ثواب ملے گا ؟آپ نے فرمایا : اس کا اجر ؛ بہشت ہے ، لیکن اس کی یہ شرط ہے کہ وہ آپ کو امام مانتا ہو اور آپ کی پیروی و اتباع کرتا ہو ۔اس شخص نے عرض کیا : اگر کوئی ان سے بے اعتنائی کرتے ہوئے زیارت کو ترک کر دے تو اس کی کیا سزا ہو گی ؟
آپ نے فرمایا : اسے روز حسرت ( یعنی روزِ قیامت ) حسرت ہو گی ۔
اس نے عرض کیا : ان کے پاس قیام کرنے والے کو کیا ملے گا ؟
آپ نے فرمایا : ہر دن کے بدلے ہزار مہینہ کا ثواب ملے گا ۔
عرض کیا : جو آپ کی زیارت پر جانے کے لئے خرچ کرے اور آپ کی قبر مطہر کے پاس خرچ کرے ، اسے کیا اجر ملے گا ؟فرمایا : اسے خرچ کئے گئے ہر درہم کے مقابلے میں ہزار درہم ملیں گے ۔
عرض كیا : جو اس سفر کے دوران وفات پا جائے ، اس کا کیا حکم ہے ؟آپ نے فرمایا : فرشتے اسے لے جائیں گے اور اس کے لئے جنت سے حنوط اور لباس لے کر آئیں گے اور اسے کفن پہنائے جانے کے بعد اس پر نماز پڑھیں گے ، اور فرشتے اسے پہنائے گئے کفن کے اوپر ایک اور کفن پہنائیں گے اور اس کے نیچے ریحان کا بستر بچھایا جائے گا اور زمین کو اس کے سامنے سے تین میل دور کر دیا جائے اور اسی طرح اس کے پچھلی جانب اور اسی طرح اس کے سر اور پاؤں کی جانب سے بھی زمین کو تین تین میل دور ڈھکیل دیا جائے گا ۔ اور جنت کی طرف سے اس کی قبر کی جانب ایک دروازہ کھول دیا جائے گا ۔ اس کی قبر میں بہشت کے پھولوں کی خوشبو اور نسیم داخل ہو گی اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔وہ شخص (راوی) کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا : ان کی قبر کے پاس نماز ادا کرنے والے کو کیا اجر و ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : جو شخص آپ کی قبر مطہر کے پاس دو رکعت نماز پڑھے تو وہ خداوند سے جس چیز کی درخواست کرے گا ، خداوند متعال اسے وہ چیز عطا فرمائے گا ۔میں ( راوی ) نے عرض کیا : آبِ فرات سے غسل کرنے کے بعد آنحضرت کی زیارت کرنے والے کے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟آپ نے فرمایا : جو آب فرات سے غسل کرتے وقت آپ کی زیارت کاارادہ رکھتا ہو تو اس کے تمام گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور وہ اس طرح ہو جاےت گا جیسے وہ ابھی شکم مادر سے پیدا ہوا ہو ۔وہ شخص کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا : اگر کسی نے ان کی زیارت کی تیاری کی ہو لیکن کوئی مشکل درپیش آنے کی وجہ سے زیارت کے لئے نہ جا پائے تو اس کا کیا اجر ہے ؟آپ نے فرمایا : اس نے ( زیارت کے لئے ) جو درہم بھی خرچ کیا ہے ، خداوند اسے ہر درہم کے بدلے کوہِ اُحد کے برابر نیکیاں عطا فرمائے گا اور اسے کئی گنا بڑھا دے گا ۔ اور اس پر قطعی طور پر نازل ہونے والی بلاؤں اور مصیبتوں کو اس سے دور کر دے گا اور اس کے مال کی حفاظت کرے گا ۔اس شخص کا بیان ہے ہے کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا : اگر آپ کے پاس قتل ہو جائے ؛ مثلاً کوئی ظالم و جابر سلطان و حکمران اسے قتل کر دے ، تو اسے کیا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا : اس کے خون کا پہلا قطرہ زمین پر گرنے سے پہلے خداوند متعال اس کے تمام گناہ بخش دے گا اور وہ جس طینت (مٹی) سے خلق ہوا ؛ فرشتے اسے غسل دے کر اس طرح سے خالص کریں گے کہ جس طرح انبیاء و مخلصین کو پاک و خالص کیا جاتا ہے اور اس کی مٹی میں اہل کفر کی مٹی سے ملئے گئے اجناس دور اور پاک ہو جائیں گے ۔ اور اس کے قلب کو دھو کر اس کے سینہ کو چاک کیا جائے گا اور اسے ایمان سے بھر دیا جائے گا اور وہ خدا سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ وہ تمام قلبی اور جسمانی ملاوٹوں سے پاک اور منزہ ہو جائے گا اور اس کے لئے اس کے اہل خانہ اور ایک ہزار برادرانِ ایمانی کی شفاعت مقرر کی جائے گی ، جبرئیل ، ملک الموت اور تمام فرشتے اس کی نماز جنازہ کی سرپرستی کریں گے اور بہشت سے اس کے لئے کفن اور حنوط لے کر آئیں گے اور اس کی قبر کو وسعت دے کر اس کی قبر میں چراغ جلائے جائیں گے اور اس کے لئے جنت میں ایک دروازہ کھول دیا جائے گا ۔ فرشتے اس کے لئے جنت سے تازہ اشیاء اور تحائف لے کر آئیں گے اور پھر اٹھارہ دن کے بعد اسے حظیرۃ القدس (بہشت) میں اٹھایا جائے گا اور وہاں وہ اولیاء خدا کے ساتھ رہے گا ۔ اور جب صور پھونکی جائے کہ جس کی وجہ سے کوئی چیز باقی نہیں رہے اور جب دوسری صور پھونکی جائے گی تو اسے قبر سے باہر لایا جائے گا اور یہ وہ پہلا شخص ہو گا ، جس سے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) ، امیر المؤمنین (علیہ السلام) اور اوصیاء (علیہم السلام ) مصافحہ کریں گے اور اسے بشارت دیتے ہوئے کہیں گے : ہمارے ساتھ رہو اور پھر اسے حوض کوثر کے پاس لائیں گے اور وہ اس سے سیراب ہو گا اور جسے چاہے گا سیراب کرے گا ۔وہ شخص (راوی) کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا : جس شخص کو آپ کی زیارت کی وجہ سے قید کر دیا جائے تو اس کے لئے کیا اجر و ثواب ہے ؟آپ نے فرمایا : وہ جتنے دن بھی قید میں رہا اور غمگین رہا ؛ اس کے ہر دن کے بدلے فرحت اور مسرت مدنظر رکھی جائے گی ، جو قیامت تک جاری رہے گی اور اگر اسے قید کرنے کے بعد ماریں تو اسے لگنے والی ہر ضربت کے مقابلے میں اسے ایک حور دی جائے گی اور اس کے جسم کو پہنچنے والے ہر درد کے مقابلے میں اسے ہزار ہزار نیکیاں دی جائیں گے اور اس کے ہزار ہزار گناہ بخش دیئے جائیں گے ، اور اس کے عوض ہزار ہزار درجے بلند ہوں گے اور پھر وہ حساب ختم ہونے تک رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کے رفقاء میں سے محسوب ہو گا ۔ اور پھر اس سے فرشتگانِ حاملین عرش مصافحہ کریں گے اور اس سے کہیں گے : تم جو چاہو، مانگو ۔ پھر اسے مارنے والے کو حساب کے لئے حاضر کیا جائے گا اور اس سے کوئی سوال کئے بغیر اور اس کا حساب لئے بغیر ہی اسے اس کے بازؤں سے پکڑ کر ایک فرشتے کے سامنے پیش کیا جائے گا جو اسے حميم (جہنم کا گرم پانی ) اور غسلين (جہنمیوں کے بدن سے نکلنے والا گندہ خون اور پیپ) پلائے گا اور پھر وہ اسے آگ کے دہکتے ہوئے ٹکڑے پر رکھ کر کہیں گے : تم نے جس شخص کو مارا ہے ، اس فعل کے بدلے اب اس دائمی عذاب کا مزہ چکھو اور تم نے جس کو مارا تھا وہ خدا اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کا مہمان تھا اور جس کو مارا گیا تھا ( یعنی زائر حسین علیہ السلام ) ، اسے جہنم کے دروازے کے پاس لایا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا : جس نے تم کو مارا تھا ، اسے دیکھو اور اسے ملنے والی سزا کو مشاہدہ کرو ، کیا اب تمہارا دل ٹھنڈا ہوا ہے ؟ اسے تمہارے قصاص کی وجہ سے یہ عذاب ملا ہے ۔ پس وہ کہے گا : حمد خدا کے لئے ہے جس نے میری اور اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) کی اولاد کی نصرت فرمائی ۔[1]
[1] ۔ كامل الزيارات: 239ح2، بحار الأنوار : 78/101، المستدرك: 279/10ح 2، صحیفۂ حسینیہ 62
(۳)زیارتِ عاشورا کے لعن مستند، روشن اور برکت خیز:
فقیہ و مرجعِ بزرگ شیعہ، مرحوم آیت اللہ العظمیٰ میرزا جواد تبریزیؒ، زیارت عاشورا اور اس میں موجود لعن پر شبہہ ڈالنے والوں کے جواب میں فرمایا کرتے تھے:"زیارتِ عاشورا میں موجود لعن وہ مقدس صدائیں ہیں جو معتبر اور مستند روائی منابع کی روشنی میں بالکل صحیح اور ثابت ہیں۔ جن اہلِ ایمان نے اس نورانی زیارت کی تلاوت کو اپنا معمول بنایا، انہوں نے اس کے حیرت انگیز آثار اور عظیم روحانی برکتوں کا مشاہدہ کیا۔ لہٰذا اس مبارک زیارت کی قرائت پر ہمیشگی اختیار کرو، اور ان جاہلوں اور گمراہ دلوں کی باتوں پر ہرگز کان نہ دھرو جنہیں اللہ نے اپنی رحمت سے دور کر دیا ہے۔زیارتِ عاشورا، اہل بیت علیہم السلام پر ڈھائے گئے مصائب کی گواہی ہے، اور جو کوئی دل سے اس زیارت کے ذریعے ان پاکیزہ ہستیوں کا دامن تھامے، ان شاء اللہ وہ خدا کے نزدیک ماجور و مقبول ہوگا۔"اَللّهُمّ الْعَنْ اَوّلَ ظالِم ظَلَمَ حَقَّ مُحَمَّد وَآلِ مُحَمَّد،وَآخِرَ تابِع لَهُ عَلي ذلِكَ،اَللَّـهُمَّ الْعَنِ الْعِصابَةَ الَّتي جاهَدَتِ الْحُسَيْنَ، وَشايَعَتْ وَبايعَتْ وتابَعَت علي قتلِه، اَللهم العنهم جمعیا.
(۴) جو امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے زندگی بھر محروم رہا، وہ ہمارا شیعہ نہیں!
حضرت امام جعفر صادق علیہالسلام فرماتے ہیں:
"وہ شخص جو امام حسین علیہالسلام کی قبر کی زیارت کو نہ جائے، اور پھر اپنے آپ کو ہمارا شیعہ بھی کہے، اور اسی حال میں اس دنیا سے چلا جائے—تو وہ ہم اہل بیت علیہم السلام کا شیعہ نہیں!
اگرچہ جنت میں داخل ہو بھی جائے، تو جنتیوں کے مہمانوں میں شمار ہوگا، نہ کہ ہمارے ساتھیوں میں!"
کامل الزیارات، ابن قولویہ، ج1، ص193، حدیث 3
یہ نورانی کلام ان لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو امام حسین علیہ السلام سے محبت کا دعویٰ تو کرتے ہیں، مگر اپنی پوری زندگی میں ایک بار بھی کربلا کا رخ نہیں کرتے؛ حالانکہ ان کے پاس مالی استطاعت بھی ہے، وقت بھی ہے، اور جسمانی طاقت بھی—لیکن ترجیحات کچھ اور ہوتی ہیں۔
جبکہ وہی لوگ دنیاوی سیاحت اور تفریح کے لیے دور دراز کے سفر اختیار کرتے ہیں، لیکن حسین علیہ السلام کے در کی حاضری کو بھولے رہتے ہیں۔اربعین کے دن وہ سنہرا موقع ہیں، جب لاکھوں عاشقِ حسین علیہ السلام زمینی راستے سے، محبت و وفاداری کے سفر پر نکلتے ہیں۔راستے میں عراقی موکبدار اور مخلص خدام اُن کی خدمت کو سعادت سمجھتے ہیں نہ کرایہ، نہ ہوٹل، نہ کھانے کی فکر—صرف عشقِ حسین علیہ السلام درکار ہے!
جو شخص استطاعت (یعنی مالی، جسمانی اور وقت کی طاقت) رکھنے کے باوجود امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر جانا ترک کر دیتا ہے، اس بارے میں شیعہ احادیث میں شدید وعید آئی ہے۔ ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے ایسے لوگوں کو محروم، محروم، محروم کہا ہے
ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:مَنْ لَمْ يَأْتِ قَبْرَ الْحُسَيْنِ وَهُوَ يَظُنُّ أَنَّهُ لَنَا شِيعَةٌ حَتَّى يَمُوتَ، فَهُوَ لَيْسَ لَنَا بِشِيعَةٍ، وَإِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَهُوَ مِنْ ضُعَفَائِهَا.جو شخص امام حسینؑ کے مزار پر نہیں آتا اور سمجھتا ہے کہ وہ ہمارا شیعہ ہے، تو وہ ہمارا شیعہ نہیں ہے۔ اگر جنتی بھی ہو تو کم درجہ والوں میں ہوگا۔"(کامل الزیارات، باب 2)
عملی نصیحت:اگر کسی کے پاس وسائل اور صحت اور استطاعت ہو، تو اسے زیارت امام حسین علیہ السلام کے لیے ضرور جانا چاہیے
(۵) جو شخص امام حسین علیہ السلام کی زیارت پر جانے کی استطاعت (وسائل، صحت یا حالات) نہیں رکھتا، تو اہل بیت علیہم السلام نے اسے مایوس نہیں کیا بلکہ ایسے افراد کے لیے بہت عظیم اجر و ثواب، اور روحانی طور پر زیارت کا راستہ کھولا ہے۔
➊ نیت اور دل کی زیارت – اجر کربلا جیسا امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: مَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ أَنْ يَأْتِيَ قَبْرَ الْحُسَيْنِ (ع)، فَلْيَنْوِ زِيَارَتَهُ، وَلْيُسَلِّمْ عَلَيْهِ مِنْ بَعِيدٍ، يُثْبِتُ اللَّهُ لَهُ ذَلِكَ. جو شخص امام حسین (علیہ السلام) کی قبر کی زیارت پر نہیں آ سکتا، وہ نیت کرے اور دور سے سلام کرے، اللہ اسے وہی ثواب عطا فرماتا ہے۔" (کامل الزیارات، باب 62، حدیث 6)
➋ زیارت عاشورا کا اہتمام – ہر دن زیارت امام باقر علیہ السلام:مَنْ قَرَأَ زِيَارَةَ الْعَاشُورَاءِ فِي بَيْتِهِ، كَانَ كَمَنْ زَارَ الْحُسَيْنَ فِي كَرْبَلَاءَ."جو شخص اپنے گھر میں زیارت عاشورا پڑھے، تو وہ ایسا ہے جیسے امام حسین (علیہ السلام) کی زیارت کربلا میں کی ہو۔" (مصباح المتهجد شیخ طوسی)
➌ گریہ، سلام اور یاد – جنت کا راستہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:مَا مِنْ أَحَدٍ ذَكَرَنَا أَوْ ذُكِرْنَا عِنْدَهُ، فَخَرَجَ مِنْ عَيْنَيْهِ مَاءٌ وَلَوْ مِثْلُ جَنَاحِ الذُّبَابِ، إِلَّا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ.جو کوئی ہمیں یاد کرے یا ہمارے ذکر پر اس کی آنکھ سے آنسو نکلیں، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر، تو اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے۔(الکافی، ج2، باب البکاء)
➍ امام رضا علیہ السلام – دور سے زیارت کا ثواب امام علی رضا علیہ السلام:
مَنْ زَارَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) فِي بَعِيدِ أَرْضِهِ، كَتَبَ اللَّهُ لَهُ كَأَنَّهُ زَارَهُ فِي كَرْبَلَاءَ."جو شخص دور سے امام حسینؑ کی زیارت کرے، اللہ اسے ویسا ہی ثواب دیتا ہے جیسا کربلا میں زیارت کرنے والے کو۔" (ثواب الأعمال، شیخ صدوق)
( مختصر عمل برائے زیارت (اگر جانا ممکن نہ ہو)
1. با وضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھیں2. تین بار کہیے:السلام عليك يا أبا عبد الله، وعلى الأرواح التي حلّت بفنائك، عليك مني سلام الله أبدًا ما بقيت وبقي الليل والنهار...3. زیارت عاشورا پڑھیں 4. یہ دعا کریں:اللهم ارزقني زيارة الحسين عليه السلام في الدنيا، وشفاعته في الآخرة، ولا تحرمني ذلك يا أرحم الراحمين."









آپ کا تبصرہ