۸ اردیبهشت ۱۴۰۳ |۱۸ شوال ۱۴۴۵ | Apr 27, 2024
News ID: 384235
17 ستمبر 2022 - 22:32
مولانا ڈاکٹر سید نثار حسین حیدر آغا                       

حوزہ/ اگر کوئی شخص اپنی پوری عمر مسلسل حج کرتا رہے اور حسین بن علی علیہما السلام کی زیارت نہ کرے تو اس نے رسولؐ اللہ کا حق ادا نہ کیا اس لئے کہ امام حسینؑ کا حق ہر مسلمان پر اللہ کی طرف سے فرض و واجب ہے۔

حوزہ نیوز ایجنسی | دین اسلام کی بنیادی اور اہم تعلیمات میں سے ایک اہم تعلیم کا نام ’’زیارت‘‘ ہے جسکے لغوی معنی ’’ کسی سےملاقات یا کسی کے دیدار کو جانا ‘‘ ہے ، اور اصطلاح میں’’ کسی مقدس اور محترم ذات سے ملنے جانا یا مقدس اور محترم جگہ پر حاضری دینا اور اعتقاد کے ساتھ اس جگہ پر عبادت میں مصروف رہنا ‘‘ ہے ۔ جیسے خانہ کعبہ کی زیارت یا رسولؐ یا اولادِ رسولؐ کی قبروں اور عتبات عالیات پر حاضری دینا ۔ اس عملِ زیارت کی طرف بہت ساری آیات و روایات میں تذکرہ ہوا ہے اور اس کی جانب لوگوں کے ذہنوں کو متوجہ کرتے ہوئے اسے اللہ کے نزدیک قابل تعریف عمل قرار دیا گیا ہے جس پر ہمارے ائمہ معصومینؑ اور اصحاب نے بہت زیادہ اہمیت دیتے ہوئے عمل بھی کیا ہے روایات اور تاریخ کی کتابوں میں جسکی بے شمار مثالیں ملتی ہیں ۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص صحیح ایمان و عقیدہ ، آل محمدؐ کی محبت پر بھی کوئی مومن دنیا سے جاتا ہے تو اسکی قبر قابلِ زیارت ہوجاتی ہے ۔ جیسا کہ روایت میں موجود ہے کہ ’’ ألا ومن مات على حب آل محمد ، جعل الله زوار قبره ملائكة الرحمة‘‘ یعنی جو محبت آل محمدؐ پر دنیا سے جائے اللہ ملائکہ رحمت کو اس کی قبر کا زائر بنا دیتا ہے ۔ (الزمخشري في الكشاف ج 4 ص 225 ) ۔
لہٰذا یہ بات واضح ہے کہ جب آل محمدؐ کی محبت پر جانے والے کی یہ عظمت ہے تو خود آل محمدؐ کی زیارت دور اور نزدیک سے کتنے ثواب کا سبب ہوگی اس کا علم صرف خدا اور خدا کے خاص بندوں کو ہے ۔!

یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آل رسولؐ کے لئے جو زیارات وارد ہوئی ہیں ان کی بڑی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ ان زیارتوں میں کچھ سب کے لئے عمومی طور پر ہر جگہ اور مقام سے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اور کچھ زمان و مکان کے اعتبار سے خصوصی طور پر پڑھنے کا ثواب بیان ہوا ہے ۔ ان تمام زیارتوں کے درمیان امام حسینؑ کی زیارت کو الگ ہی عظمت و اہمیت حاصل ہے ، اور آپؑ کی زیارت اور آپؑ کے زائرین کی فضیلت کو حدیثوں میں الگ ہی انداز سے بیان کیا گیا ہے جیسا کہ امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر لوگوں کو امام حسینؑ کی زیارت کی فضیلت کا اندازہ ہوجاتا تو لوگ شوق زیارت میں مرجاتے ‘‘۔ اس سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے آپؑ کو اور آپؑ کے متعلق جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کو ایک الگ خصوصیت عنایت فرمائی ہے ۔ امام جعفر صادقؑ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’ لو انَّ احدَکُمْ حَجَّ دَھْرَہُ ثُمَّ لَمْ یَزُرْ الْحُسَیْنَ بْنَ عَلِیٍ لَکَاَنْ تَارِکاً مِنْ حُقُوْقِ رَسُوْلِ اللہِ ، لِاَنَّ حَقَّ الْحُسَیْنِ فَرِیْضَۃٌ مِنَ اللہِ وَاْجِبَۃٌ عَلَیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ اگر کوئی شخص اپنی پوری عمر مسلسل حج کرتا رہے اور حسین بن علی علیہما السلام کی زیارت نہ کرے تو اس نے رسولؐ اللہ کا حق ادا نہ کیا اس لئے کہ امام حسینؑ کا حق ہر مسلمان پر اللہ کی طرف سے فرض و واجب ہے ۔ کامل الزیارات، ص۱۲۲۔

اسی طرح امام حسینؑ کی زیارت کے لئے پیدل جانے کا بھی بہت زیادہ ثواب بیان ہوا ہےجیسے کہ امام صادق علیہ السلام اپنے جد مظلوم امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لئےپا پیادہ سفر کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ مَنْ خَرَجَ مِنْ مَنْزِلِهِ یرِیدُ زِیارَةَ الْحُسَینِ (ع)، إِنْ کان ماشِیاً، کتَبَ اللَّهُ لَهُ بِکلِّ خُطْوَةٍ أَلْف حَسَنَةٍ، وَ مَحَا عَنْهُ أَلْف سیئَةٍ، وَ رَفَعَ للَهُ أَلْفَ دَرَجَةٍ جو شخص زیارت امام حسینؑ کے ارادے سے اپنے گھر سے نکلےاگر وہ زیارت کے لئے پیدل جارہا ہو تو اللہ اسکے ہر قدم کے بدلے ایک ہزار نیکیاں دیتا ہے اور ایک ہزار گناہ کو اس سے دور کرتا ہے اور ہزار درجے بلند کرتا ہے ۔ هدایة الامة الی احکام الأئمة(ع)، شیخ حرّ عاملی، ج 5، ص 479
سال کے مخصوص ایام میں امام حسینؑ کی الگ الگ مخصوص زیارتیں وارد ہوئی ہیں جیسے روز عاشور ، شب قدر ، پندرہ شعبان وغیرہ ، انہیں مخصوص دنوں میں سے ایک اربعین کا دن ہے ۔ اس دن زیارت اربعین کی بہت تاکید کی گئی ہے اس زیارت کی تعلیم امام جعفر صادقؑ نےاپنے صحابیؒ صفوان جمال کو دی تھی ۔ اور اس زیارت اربعین کی عظمت اور علوم و معارف کو دیکھتے ہوئے گیارہویں امام حسن عسکریؑ نے اسے مومن کی علامتوں میں شمار کیا ہے۔ جیسا کہ امامؑ نے فرمایا ’’ عَلَامَاتُ الْمُوْمِنِ خَمْسٌ، صلاة إحدى وخَمسين ، وَ زِیَارَۃُ الْاَرْبَعِیْنَ وَ الْتَّخَتُّمُ فِیْ الْیَمِیْنِ وَ تَعْفِیْرُ الْجَبِیْنِ وَ الْجَلْجَھْرُ بِسْمِ اللہِ الْرَّحْمٰنِ الْرَّحِیْمِ ‘‘ یعنی مومن کی پانچ نشانیاں ہیں ۔ ۱۔ شب و روز میں اکیاون رکعت نماز ۔ ۲۔ زیارت اربعین ۔۳۔ انگوٹھی کا سیدھے ہاتھ میں پہننا ۔۴۔ خاک شفا پر سجدہ ۔۵۔ اور بلند آواز سے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھنا ۔ کتاب تھذیب الاحکام۔
اس حدیث کے مطابق مومن کو روزانہ اکیاون (51) رکعت نماز پڑھنا چاہئے (یعنی سترہ رکعات یومیہ اور باقی نوافل) ۔ اور ساتھ ساتھ زیارت اربعین کا بھی اہتمام نمازوں کے انداز میں کرنا چاہئے کیونکہ معصومؑ نے نماز کے فورا بعد زیارت اربعین کا تذکرہ کیا ہے ۔ زیارت اربعین کی اہمیت اور عظمت اسی سے واضح و روشن ہے کہ معصومؑ نے اسے واجب اور مستحب نمازوں کی صف میں قرار دیا ہے ۔ اربعین کی اہمیت صرف اور صرف امام حسینؑ ہی سے مخصوص ہے ۔ آپؑ کے علاوہ کسی کے لئے یہاں تک کہ دوسرے معصومینؑ کے لئے بھی اربعین کے عنوان سے کوئی مخصوص زیارت وارد نہیں ہوئی ہے اور مفہوم اربعین امام حسینؑ کے علاوہ کسی کے لئے بیان نہیں ہوا ہے ۔ اسی لئے روز اربعین اور زیارت اربعین کے لئے عاشقان حسینؑ بن علیؑ کروڑوں کی تعداد میں آج بھی پوری شان و شوکت کے ساتھ کربلا پہونچنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ کربلا کے آس پاس کے شہروں حتی کہ دور کے مقامات سے بھی اکثر عزاداران حسینؑ پیدل زیارت کے لئے پہونچتے ہیں اور دنیا والوں کے ساتھ یزیدیوں کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ امام حسینؑ کی محبت چاہنے والوں کے دلوں سے کبھی کم نہیں ہوسکتی کیونکہ رسولؐ اللہ نے فرمایا ہے کہ ’’ إنّ لِقَتلِ الحُسينِ حَرارَةً في‌ قُلوبِ المُؤمِنينَ لاتَبرُدُ اَبَداً‘‘ یعنی قتلِ حسینؑ کے لئے مومنین کے دلوں میں ایسا جذبہ اور جوش پایا جاتا ہے جو کبھی ختم نہ ہوگا ۔

لہٰذا ہم تمام عزداروں کو چاہئے اربعین کے دن چند اہم نکات کی رعایت کریں ۔
۱ ۔ اربعین کے دن جتنا ہوسکے امامؑ کے غم میں گزارنا چاہئے اور جس قدر ممکن ہو اپنے رفتار، گفتار اور کردار سے غم کا اظہار کرنا چاھئے ۔
۲ ۔ اس دن جتنا ممکن ہو کربلا والوں کی مصیبت اور اسیران کربلا کی مصیبت اور ان پر ڈھائے گئے مظالم پر غور کرنا چاھئے تاکہ ہمیں اس بات کا علم ہو کہ یہ ساری مصیبتیں کیوں ڈھائی گئیں ؟ اور اب ہمیں کیا کرنا چاھئے !
۳۔ ہمیں بالخصوص ہماری ماں ، بہنوں کو ایک کنیز حضرت زینبؑ ہونے کے اعتبار سے سوچنا چاھئے کہ کیا ہم واقعی میں بی بیؑ کی خدمت میں کنیزی کا صحیح حق ادا کر بھی رہے ہیں یا نہیں ؟!
۴۔ اس روز جتنا ہوسکے زیارت اربعین پڑھنا چاھئے ۔
۵۔ اس دن عزاداروں کو چاہئے جتنا ہوسکے مجالس ، مرثیہ خوانی ، سلام ، نوحہ خوانی اور ماتم میں مشغول رہ کر صاحب عزاء امام زمان علیہ السلام کی خدمت میں پرسہ پیش کریں ۔
۶ ۔ اس دن کی عظمت و تقدس کا خاص خیال رکھنا چاہئے اور ہر اس کام سے پرہیز کرنا چاہئے جو اللہ ، رسولؐ اور آل رسولؐ کی ناراضگی کا سبب ہو ۔
۷۔ اور جو عزادار اربعین کے روز زیارت کربلا سے مشرف ہوئے ہیں انہیں پیادہ روی کے وقت اپنی شخصی سہولیات و آرام و راحت کی فکر سے نکل کر اسیران کربلا کی زحمتوں ، اور تکلیفوں کے بارے میں فکر کرتے ہوئے کربلا کی جانب پیادہ روی کرنا چاھئے تاکہ ہم اپنے وجود میں ایک حقیقی عزدار کی خصوصیتوں کو پیدا کرسکیں ۔

مدیر حوزۃ المرتضیٰ : ڈاکٹر مولانا سید نثار حسین ( حیدر آقا)
صدر کل ہند شیعہ مجلس علماء و ذاکرین
ممبر تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ و ممبر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ

تبصرہ ارسال

You are replying to: .