عید قربان اور اسرار و رموز

حوزہ/دس ذی الحجةالحرام کا دن اہل اسلام و ایمان کے درمیان عید الاضحٰی اور عید قربان کے نام سے معروف ہے اور عید فطر کی طرح یہ عید بھی مسلمانوں کے نزدیک بہت عظمت و اہمیت کی حامل ہے۔

تحریر: مولانا ظہور مہدی مولائی

حوزہ نیوز ایجنسی| دس ذی الحجةالحرام کا دن اہل اسلام و ایمان کے درمیان عید الاضحٰی اور عید قربان کے نام سے معروف ہے اور عید فطر کی طرح یہ عید بھی مسلمانوں کے نزدیک بہت عظمت و اہمیت کی حامل ہے۔

عید فطر اور عید قربان کو عید کیوں قرار دیا گیا ہے ، اس سلسلہ میں ہمارے استاد بزرگوار آیت اللہ العظمی شیخ عبداللہ جوادی آملی حفظہ اللہ نے اس طرح اظہار سخن فرمایا ہے:

اہم ترین نکتہ اسلامی عیدوں کے بارے میں یہ ہے کہ:

اسلام نے اپنی حق محوری کی وجہ سے کسی شخص کے روز ولادت یعنی سرکار رسالتماب یا ائمہ علیہم السلام کے ایام میلاد کو عید قرار نہیں دیا ہے ، اگرچہ ان دنوں میں بھی ہم خوشی مناتے اور نئے کپڑے پہنتے ہیں لیکن یہ دن ہماری "دینی و قانونی عید " کی حیثیت نہیں رکھتے ، چونکہ عید اس دن کو قرار دیا گیا ہے جس دن لوگ مأمور ہوتے ہیں کہ ستون دین کو مل جل کر قائم کریں (سب جمع ہوکر نماز عید فطر یا نماز عید قربان پڑھیں)۔۔۔۔

دوسری بات یہ ہے کہ روز غدیر اور روز جمعہ کی طرح ان دو دنوں کو عید اس وجہ سے قرار دیا گیا ہے (کہ کسی دن کے عید قرار پانے کا قاعدہ یہ ہے کہ اس دن ) انسان کے سپرد کوئی (اہم) مسئولیت( ذمہ داری) کی جائے اور وہ اسے کامیابی کے ساتھ ادا کردے تو اس صورت میں وہ اپنی اصل و فطرت کی طرف پلٹ آتا ہے اور اسی اپنی اصل و فطرت کی طرف عود و واپسی کا نام عید ہے۔ (1)

دس ذوالحجةالحرام کو چونکہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے انتہائی کٹھن الہی مسئولیت و ماموریت کو نہایت کامیابی و سرخروئی کے ساتھ انجام دیا تھا اور ان کی پیروی کرتے ہوئے ہر حاجی چونکہ موسم حج میں اپنی نفسانی خواہشات کو کچل کر بہت سے اہم الہی و دینی اعمال و مناسک انجام دیتا ہے ، اور اس طرح ایک بار پھر وہ اپنی پاکیزہ اصل و فطرت اور الہی قرب و سمت کی طرف پلٹ آتا ہے ، اس لئے اس دن کو " عید قربان " کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

عید قربان کے اسرار و رموز :

عید قربان وہ عظیم الشان عید ہے کہ جس کے اندر بہت سے باعظمت اور سبق آموز اسرار و رموز پائے جاتے ہیں، جن میں سے چند ہم یہاں بیان کر رہے ہیں:

1۔ قوت ایمان و اعتقاد:

عید قربان باقاعدہ ھمیں اس عظیم درس و راز کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ اپنے سید و آقا اور خالق و مالک پر مکمل اور پختہ ایمان و اعتقاد انسان کو اس قدر قوی و طاقتور بنادیتا ہے کہ وہ اس کے ایک اشارہ پر اپنی اور اپنے اقارب و متعلقین کی ہستی فنا کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔

یہ حضرت ابراھیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے ایمان و اعتقاد کی قوت و طاقت ہی تو تھی کہ بوڑھا باپ 95 سال کی عمر میں ایک الہی خواب کو جامہ عمل پہنانے کے لئے اپنے نوخیز اور نہایت حسین و جمیل بیٹے کی گردن پر بے جھجک چھری چلانے پر تیار ہوجاتا ہے اور عین عنفوان شباب میں بیٹا بصد فخر و خوشی اپنے کو " قربانگاہ منی" میں ذبح ہونے کے لئے لٹا دیتا ہے۔

2۔ نفس امارہ کا قتل :

عید قربان میں انجام دیا جانے والا ایک اہم عمل حلال گوشت" حیوان " کا ذبح کرنا ہے اور یہ در حقیقت اپنے اندر چھپے ہوئے حیوان و جانور " نفس امارہ" کو مار ڈالنے کی طرف ایک بلیغ و عظیم اشارہ ہے ، چونکہ یہ نفس ھمیشہ ھمیں گمراہ کرنے کی تک و دو میں لگا رہتا ہے جیسا کہ قرآن حکیم نے بھی فرمایا ہے :

" ان النفس لامارة بالسوء ۔۔۔" (2) ، اور یہی خبیث نفس ہمارا سب سے بڑا دشمن ہے چنانچہ حدیث نبوی میں آیا ہے:

"اعدی عدوک نفسک التی بین جنبیک "(3)۔

حق یہ ہے کہ حلال گوشت جانور کی اس قربانی میں یہ رمز و راز اور سبق پوشیدہ ہے کہ جب انسان حکم خدا سے ایک حلال اور مفید و بے ضرر جانور کے گلے پر آسانی سے چھری چلا رہا ہے تو پھر اسے انتہائی مضر ، موذی اور مضل حیوان " نفس امارہ " کو قتل کرتے ہوئے بدرجہ اولی نہیں گھبرانا چاہیئے ، بلکہ اسے اپنا نہایت خطرناک دشمن سمجھ کرحاکم مطلق " اللہ رب العالمین " کی بندگی کی خاطر بہت آسانی بلکہ بصد خوشی قتل کردینا چاہیئے۔

3۔ راہ زندگی کا تعین :

عید قربان درحقیقت جملہ نفسانی خواہشات کو قربان کرکے الہی رضا و تقرب حاصل کرنے کا نام ہے۔

یہ عید ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ تمہاری زندگی کی سمت اور راہ فقط " ذات اللہ " ہونی چاہیئے اور تمھاری یہ حیات مستعار"انا للہ و انا الیہ راجعون " (4) اور " قل ان صلاتی و نسکی و محیای و مماتی للہ رب العالمین " (5) کی جیتی جاگتی تصویر ہونی چاہیئے۔

4۔ عشق الٰہی میں غرق ہونا:

عید قربان کا فلسفہ یہ ہے کہ انسان کو عبودیت و بندگی کے اس مرحلہ تک پہنچنا چاہیئے کہ جہاں فقط اور فقط اسے " اللہ ہی اللہ " نظر آئے اور وہ اس کے علاوہ کسی کو دیکھنے پہ تیار نہ ہو ، یعنی وہ اللہ عز و جل کی معرفت ، عشق و محبت اور عبادت و قربت میں اس قدر غرق ہوجائے کہ اس معشوق و معبود حقیقی کی خاطر اپنا سب کچھ نچھاور کرنے میں خوشی بلکہ فخر و شرف محسوس کرے ، جیساکہ سرکار سید الشہداء امام حسین علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ان اشعار میں اسی عاشقانہ جذبہ قربانی کا اظہار فرمایا ہے :

تَرَكْتُ الْخَلْقَ طُرّاً فِي هَوَاكا ، وَاَيْتَمْتُ الْعِيَالَ لِكَيْ اَرَاكَا

وَلَوْ قَطَّعْتَنِي فِي الْحُبِّ اِزباً ، لَمَاحَنَّ‌ الْفُؤادُ اِلي سِوَاكَا (6)

آپ خداوند متعال کو مخاطب قرار دے کر فرماتے ہیں :

میں نے ساری کائنات کو تیرے عشق میں چھوڑ دیا ، تیری قربت و زیارت کی خاطر اپنے بچوں کو یتیم کردیا ، اگر اپنے عشق و محبت میں تو مجھے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر ڈالے ، تب بھی میرا دل تیرے غیر کی طرف مائل نہیں ہوگا۔

5۔ قدرت و رحمت الہی کا باھمی ظہور:

اس دن قہرمان توحید خلیل اللہ حضرت ابراھیم علیہ الصلوۃ والسلام پختہ ایمان و اعتقاد ، فولادی عزم و ھمت اور بے پناہ عشق الہی کے ھمراہ اپنے پیارے نوخیز بیٹے کے خوبصورت گلے پر تیز و تند چھری چلانے اور ذبیح الہی حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام قربانگاہ منی میں ذبح ہونے کےلئے ھمہ تن آمادہ تھے ، بلکہ دونوں گویا اپنی قربانی پیش کرچکے تھے کہ ایسے نازک اور سخت ہنگام میں قدرت و رحمت الہی نے آکر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے وجود ذی جود کو بجا بھی لیا اور انھیں ذبیح اللہ و صادق الوعد(7) بھی بنا دیا اور حضرت خلیل اللہ ابراھیم علیہ السلام کو " قدصدقت الرویا " (8) کا مژدہ بھی سنادیا اور تمام موجودات پر ثابت بھی کردیا کہ " انہ کان صدیقا نبیا" (9)۔

نیز قیامت تک آنے والے انسانوں کو یہ درس دے دیا ، کہ انسان کو ہر حال میں اپنے الہی وظائف و فرائض کی طرف متوجہ رہنا اور ان پر عمل کرنا چاہیئے اور نتیجہ کو اللہ کے سپرد کر دینا چاہیئے، چونکہ اللہ رب العالمین کا لامحدود علم تمام کائنات و موجودات اور ان کے نیات و رجحانات ، حرکات و سکنات اور اعمال و اقدامات پر حاوی ہے۔

بلاشبہ جب انسان اس ایمان و اعتقاد کے ساتھ اپنے الہی و دینی وظائف و فرائض کو انجام دے گا تو ان شاءاللہ دنیا و آخرت میں خوشگوار الہی نتائج سے ضرور رو برو ہوگا۔

آخرکلام میں رب رحیم و کریم سے دعا ہے کہ ہمیں عید قربان بلکہ جملہ دینی و اسلامی مراسم کو گہری معرفت اور عمیق توجہ و اخلاص کے ساتھ منانے کی توفیق کرامت فرمائے۔ آمین

حوالہ جات:

1۔ خبر آن لائنhttps://khabaronline.ir/x4Jp4

2۔ قرآن مجید ، پارہ 12 ، سورہ یوسف ، آیہ 53

3۔ مجلسی ، محمدباقر ، بحارالانوار ، ج 70 ، ص 64۔

4 قرآن مجید ، پارہ 2 ، سورہ بقرہ ، آیہ 156۔

5۔ قرآن مجید ، پارہ 8 ، سورہ انعام ، آیہ 162۔

6۔ محمد محمدی اشتہاردی، سوگنامہ آل محمد ، ص 365۔

7۔ قرآن مجید ، پارہ 16 ، سورہ مریم ، آیہ 54۔

8۔ قرآن مجید ، پارہ 23 ، سورہ صافات ، آیہ 105۔

9۔ قرآن مجید ، پارہ 16 ، سورہ مریم ، آیہ 41۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha