منگل 25 نومبر 2025 - 23:57
آفتابِ امامت کا گہن؛ جب ستاروں کو ہدایت کا معیار بنا دیا گیا

حوزہ/پیغمبرِ اکرم (ص) کے وصال کے فوراً بعد رونما ہونے والا واقعہ سقیفہ، اسلامی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف امت کی سیاسی قیادت کا راستہ بدلا، بلکہ دین فہمی کی بنیادوں کو بھی گہرا تک متاثر کیا۔ سقیفہ کے فکری معماروں کا بنیادی ہدف حضرت علی اور اہل بیت (ع) کی منفرد، منصوص اور الٰہی مرجعیت کو چیلنج کرنا اور بالآخر اسے لوگوں کے افکار سے محو کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ایک ایسی فکری بنیاد رکھی جس نے اہل بیت (ع) کی سماجی اور علمی حیثیت کو ہزاروں دیگر افراد کی مانند ایک کی سطح پر لا کھڑا کیا۔

تحریر: مولانا صادق الوعد

حوزہ نیوز ایجنسی| پیغمبرِ اکرم (ص) کے وصال کے فوراً بعد رونما ہونے والا واقعہ سقیفہ، اسلامی تاریخ کا ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ اس واقعے نے نہ صرف امت کی سیاسی قیادت کا راستہ بدلا، بلکہ دین فہمی کی بنیادوں کو بھی گہرا تک متاثر کیا۔ سقیفہ کے فکری معماروں کا بنیادی ہدف حضرت علی اور اہل بیت (ع) کی منفرد، منصوص اور الٰہی مرجعیت کو چیلنج کرنا اور بالآخر اسے لوگوں کے افکار سے محو کرنا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے ایک ایسی فکری بنیاد رکھی جس نے اہل بیت (ع) کی سماجی اور علمی حیثیت کو ہزاروں دیگر افراد کی مانند ایک کی سطح پر لا کھڑا کیا۔ اس فکری جنگ کا سب سے مؤثر ہتھیار یہ نظریہ تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) کے تمام صحابہ عادل ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا قول و فعل امت کے لیے شرعی حجت ہے۔ اس نظریے نے امامت و مرجعیت کے اس بلند و بالا مقام پر کاری ضرب لگائی جس کا شکوہ حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنے تاریخ ساز خطبے میں یوں کیا: "وائے ہو ان پر! جنہوں نے اسے (امامت و خلافت کو) رسالت کی مضبوط بنیادوں، نبوت کے ستونوں، اور دین و دنیا کے امور سے واقف، روح الامین کے نزول کی جگہ سے ہٹا دیا!" یہ فریاد اس گہرے علمی انحراف کی نشاندہی کرتی ہے جہاں مرکزِ ہدایت اور علمی مرجعیت کو اس کے حقیقی مقام سے بے دخل کر دیا گیا۔

مسیحی ماڈل کا استعارہ:حواریوں کی تقدیس

حضرت علی (ع) اور اہلِ بیت (ع) کی بے مثال مرکزی حیثیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ ان کے مقابلے میں ہم پلہ حریف کھڑے کیے جائیں۔ اس مقصد کے لیے ایک غیر معمولی حکمت عملی اپنائی گئی یعنی دیگر ادیان کی تاریخ سے نمونہ مستعار لے کر اسے اسلامی معاشرے پر منطبق کرنا۔ چنانچہ مسیحیت میں حواریوں کے تصور سے یہ اخذ کیا گیا۔ قرآن کریم حضرت عیسیٰ (ع) کے حواریوں کو محض مومن اور انصار اللہ قرار دیتا ہے (آل عمران: ۵۲)، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ لیکن عیسائی الٰہیات، بالخصوص عہد نامہ جدید میں، حواریوں کو خود مسیح (ع) کے قریب ایک ایسے مقام پر فائز کر دیا گیا جہاں انہیں بیماروں کو شفا دینے اور مردوں کو زندہ کرنے جیسی مافوق الفطرت طاقتیں عطا کی گئیں۔ ظاہر ہے کہ ایسی طاقت کا حامل شخص اپنے قول و فعل میں مطلق حجت قرار پاتا ہے۔

اسلامی معاشرے میں نفاذ

عین اسی طرز پر، اسلامی معاشرے میں بھی ایک ایسا تفکر تشکیل دیا گیا جس نے تمام صحابہ کو ہدایت کا مینار قرار دے دیا۔ حالانکہ پیغمبر اکرم (ص) نے ) بحکم خداوند حکیم فقط اہلِ بیت (ع کو علمی و عملی مرجع قرار دیا تھا ( آیت تطہیر اور حدیثِ ثقلین، حدیثِ سفینہ و....) لیکن اس کے مقابلے میں یہ حدیث وضع کی گئی:“أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ” (میرے تمام صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کسی کی بھی پیروی کرو گے، ہدایت پا جاؤ گے)

اس جعلی حدیث نے نوپا اسلامی معاشرے میں ایک ایسی فکری اساس کی بنیاد رکھی جس نے ہزاروں افراد کے قول و فعل کو حجت شرعی بنا دیا۔ اب علی ابن ابی طالب، حسن اور حسین (علیہم السلام) بھی ان ہزاروں ستاروں میں سے محض ایک ستارے کی حیثیت اختیار کر گئے، جن کی طرف رجوع کرنا لازمی نہیں رہا۔

اس نظریے کا سب سے گہرا اثر نفسیاتی صورت میں نکل آیا یعنی تمام صحابہ کی تقدیس کے تصور نے (کہ وہ عملاً معصوم عن الخطا ہیں) ایک ایسا مقدس دائرہ قائم کر دیا جس پر سوال اٹھانا دین سے انحراف کے مترادف سمجھا جانے لگا۔ اس نے اسلامی معاشرے سے تنقیدی سوچ کی صلاحیت بھی سلب کر لی اور عام مسلمان کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ وہ کسی صحابی کے عمل پر انگلی اٹھانے کی جرأت کیسے کر سکتا ہے، چاہے وہ عمل قرآن و سنتِ رسول (ص) کے واضح احکامات کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس طرح، اہلِ بیت (ع) کے حق میں دلائل کو سننے اور قبول کرنے کی راہ میں ایک مضبوط نفسیاتی رکاوٹ پیدا کر دی گئی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خود اہل سنت کے علمی اور فکری محافل میں بھی یہ نظریہ گہرے تضادات کا باعث بن گیا۔ جس سے خود اہل سنت کے بڑے ائمہ جیسے امام احمد بن حنبل، امام شافعی اور محدثین جیسے ذہبی اور ابن جوزی نے اصحابی کالنجوم جیسی روایات کو جھوٹا اور من گھڑت قرار دیا۔ امام نسائی (متوفی ۳۰۳ھ) کی مثال اس فکری الجھن کو سمجھنے کے لیے بہترین نمونہ ہے۔ وہ امیر المومنین (ع) کے فضائل پر بہت ہی شاندار کتاب "خصائص امیر المؤمنین" لکھتے ہیں اور اسی کی پاداش میں شہید کر دیے جاتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ فضائل الصحابہ نامی کتاب بھی لکھتے ہیں۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ تمام صحابہ کی تقدیس کا تفکر ایک ایسی مضبوط ذہنی رکاوٹ تھا جس نے ان جیسے حق گو انسان کو بھی حتمی سچائی تک پہنچنے سے روکے رکھا۔

اس تفکر کا ناقابلِ تلافی نقصان

اس حکمت عملی کا فوری اور تباہ کن نتیجہ یہ نکلا کہ امت نے علمی ،فقہی اور دیگر امور و مسائل میں اہل بیت (ع) سے رجوع کرنا ترک کر دیا۔ اس کی تاریخی شہادت امام موسیٰ کاظم (ع) کی اس حدیث میں ملتی ہے: میں نے لوگوں (اہل سنت) کو نہیں دیکھا کہ انہوں نے حسن و حسین علیہما السلام سے کچھ اخذ کیا ہو، سوائے طواف فریضہ کے بعد عصر اور فجر کے بعد (فوراً) نمازِ طواف پڑھنے کے۔(وسائل الشیعہ، ج ٩، باب ٧۶، حدیث ۴) حدیث کے عربی متن میں لفظ اخذ آیا ہے یقینا یہاں اخذ کرنے کا مطلب محض روایت نقل کرنا نہیں، بلکہ عمل کرنا اور اقتدا کرنا ہے۔ یعنی رسول اللہ (ص) کے بعد امام حسن (ع) کی ۴۰ سالہ اور امام حسین (ع) کی ۵۰ سالہ زندگی میں امت کی اکثریت نے ان سے صرف دو جزئی مسائل میں پیروی کی!

وجہ واضح ہے جب ہزاروں صحابہ نمونہ عمل قرار پائیں تو پھر حسنین کریمین (ع) کی طرف رجوع کی ضرورت ہی کیا باقی رہتی ہے؟

اس دور رس منصوبے نے اسلامی فکر میں ایسے گہرے تضادات پیدا کیے جو آج تک حل طلب ہیں۔ چنانچہ مرحوم کراجکی اپنی کتاب “التعجب من اغلاط العامۃ” میں اس تاریخی تضاد پر یوں اظہارِ تعجب کرتے ہیں: "زمانہ کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ سیدہ نساء العالمین، فاطمہ زہرا (س) امت سے مدد مانگتی ہیں لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا۔ پھر ابوبکر کی بیٹی عائشہ بصرہ کی طرف نکلتی ہے اور لوگوں کو امیر المومنین علی (ع) کے خلاف جنگ پر اکساتی ہے تو دس ہزار لوگ اس کی پکار پر لبیک کہتے ہیں! کیا یہ ایک عجیب معاملہ نہیں ہے" صفحہ ١٢٨)

یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ علمی مرجعیت اور حقانیت کا معیار عوام کے ذہنوں میں کس طرح تبدیل کر دیا گیا تھا۔ اس فکری منصوبے کے مقابلے میں، تاریخ نے ایک بے مثال جوابی عملی کردار کا بھی مشاہدہ کیا جس کی قیادت خود بنتِ رسول (ص)، حضرت فاطمہ زہرا (س) نے کی۔ آپ کا کردار محض اہل بیت ع کی مظلومیت کو عیاں کرنا نہیں، بلکہ ایک فعال، حکمت عملی پر مبنی اور تا قیامت کی نسلوں کے لیے راستہ متعین کرنے والا تھا۔ جب آپ جانتی تھیں کہ لوگوں کی عدم آمادگی کی وجہ سے الہی رہبر (امام) کچھ کر نہیں پار ہے ہیں ، تو آپ (ع) نے مکتب الہی اور نظام حق یعنی امامت و ولایت کے دفاع کے لیے ہر اک انصار کے دروازے پر دستک دیتے ہوئے ان کے ضمیر کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور فرمایا: تمہارے پاس تعداد بھی ہے اور ساز و سامان بھی، طاقت اور ہتھیار بھی ہیں… کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ اگر تم مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے۔” (الاحتجاج، ج۱، ص۱۰۳)۔ حضرت فاطمہ (س) اور اپنے مبارک فرزندوں کو ساتھ لے کر مجاہدینِ بدر کو بیدار کرنے نکل پڑے۔ آپ (س) جانتی تھیں کہ اس طرح گھر گھر جانے سے آپ کی سماجی شخصیت متاثر ہو سکتی ہے، لیکن انہوں نے خدا کے لیے ان لوگوں سے مدد مانگی جن کا سماجی رتبہ یقیناً ان سے کم تھا اور اس عمل سے اپنی عظمت پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔

حرفِ آخر

سقیفہ کا منصوبہ صرف ایک سیاسی بغاوت نہیں تھا، بلکہ ایک گہری علمی اور منہجی جنگ تھی جس کا مقصد دین کی تشریح کے الٰہی مرکز (اہلِ بیت) کو ختم کر کے ایک انسانی اور اکثریتی مرکز (عمومِ صحابہ) قائم کرنا تھا۔اصحابی کالنجوم کی من گھڑت حدیث اس منصوبے کا نظریاتی سنگ بنیاد تھی، جس نے مرجعیت کے چشمہِ صافی کو گدلا کر دیا۔ اس کے نتیجے میں امت کی اکثریت علم کے اس دروازے سے محروم ہو گئی جس سے داخل ہونے کا اسے حکم دیا گیا تھا۔ حضرت فاطمہ (س) کی فریاد اور امیر المومنین (ع) کا صبر، اس تاریخی المیے کے دو رخ ہیں، جو آج بھی امتِ مسلمہ کے لیے غور و فکر کا مقام ہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha