عباسی دور اور آئمۂ اہل بیت (ع) کی سماجی بقاء میں امام جواد (ع) کی حکمتِ عملی

حوزہ/عباسی حکمران خاص طور پر ہارون رشید؛ آئمہ اہل بیت (ع) کو جسمانی طور پر منظر عام سے ہٹانے کی پوری کوشش کے باوجود، آئمہ معصومین علیہم السّلام کے سماجی اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ ہارون الرشید نے امام کاظم (ع) کو قید تنہائی میں رکھا، تاکہ ائمہ (ع) کی امامت اور علمی مقام کو عوامی ذہنوں سے مٹایا جا سکے، لیکن پھر بھی آئمہ علیہم السّلام کے پیروکاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

تحریر : صادق الوعد قم المقدسہ

حوزہ نیوز ایجنسی| عباسی حکمران خاص طور پر ہارون رشید؛ آئمہ اہل بیت (ع) کو جسمانی طور پر منظر عام سے ہٹانے کی پوری کوشش کے باوجود، آئمہ معصومین علیہم السّلام کے سماجی اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ ہارون الرشید نے امام کاظم (ع) کو قید تنہائی میں رکھا، تاکہ ائمہ (ع) کی امامت اور علمی مقام کو عوامی ذہنوں سے مٹایا جا سکے، لیکن پھر بھی آئمہ علیہم السّلام کے پیروکاروں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔

امام رضا علیہ السّلام کی اس مقبولیت نے ہارون الرشید کی نیندیں حرام کر دیں، اور امام (ع) کا سماجی اثر و رسوخ بڑھتا ہی چلا گیا؛ اس صورتحال نے بعد کے عباسی خلفاء کو ایک نئی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیا، جس کا مقصد آئمہ معصومین علیہم السّلام کو جسمانی طور پر ختم کرنے کے بجائے، ان کی امامت اور علمی حیثیت کو عوامی ذہنوں سے مٹانا تھا؛ یہی وجہ تھی کہ مامون نے جسمانی حذف کے بجائے، لوگوں کے ذہنوں سے "امامت" کو مٹانے کے لیے امام رضا (ع) کو سرکاری عمارت میں رکھا اور مختلف مذاہب کے علماء و دانشوروں کو بلا کر مناظرے کا اہتمام کیا، تاکہ آپ (ع) کی "عصمت" اور "علم" کی منزلت گھٹانے کی کوشش کرے؛ اس کا خیال تھا کہ عوامی محفلوں میں مناظرے کروا کر امام (ع) کی علمی برتری کو چیلنج کریں گے، تاکہ اس کے ذریعے آپ (ع) کی سماجی حیثیت کمزور ہو۔

مامون کی حکمت عملی اور اس کا الٹا نتیجہ

امام رضا (ع) پر ولی عہدی مسلط کرنا اور علمی مناظرے منعقد کروانا اسی منصوبے کا حصہ تھا۔ مامون نے سوچا تھا کہ امام (ع) درباری ماحول میں رہ کر اپنے پیروکاروں سے کٹ جائیں گے اور ان کا علمی مقام کمزور ہو جائے گا۔ خاص طور پر مختلف فرقوں اور مذاہب کے سرکردہ علماء سے مناظرے کروا کر وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ امامت کوئی خدائی منصب نہیں، بلکہ ایک عام علمی بحث ہے۔ تاہم، اس کے نتائج الٹا نکلیں۔ امام (ع) نے ان تمام مناظروں میں نہ صرف اپنی علمی برتری ثابت کی، بلکہ "عالم آل محمد" کے طور پر پہچانے گئے، جس سے ان کے پیروکاروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوا۔ [علامہ مجلسی، بحار الانوار، جلد 49، صفحہ 90-95]

مامون کو امید تھی کہ وہ امام جواد (ع) کے ذریعے اس ناکامی کی تلافی کر لے گا، کیونکہ اس وقت کے حالات اس کے حق میں نظر آتے تھے۔

امام (ع) بہت کم عمر تھے اور اس کے ساتھ بعض شیعہ دعویدار بھی ان کی امامت میں شک کر رہے تھے، کیونکہ اس سے قبل اس قدر کم عمری میں کوئی بھی امام امامت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے۔

عباسی حکمرانوں نے اس نکتے کو خوب اچھالا، تاکہ شیعہ صفوں میں انتشار پیدا کیا جا سکے۔ [شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، جلد 2، صفحہ 279]

یہاں تک کہ اس قدر عجیب و غریب افواہیں پھیلائیں جس کی وجہ سے امام رضا (ع) کو چہرہ شناس بلانا پڑا۔ یہ عباسیوں کی ایک سوچی سمجھی سازش تھی، تاکہ امام جواد (ع) کی سماجی حیثیت کو مجروح کیا جا سکے۔ [کلینی، اصول کافی، جلد 1، صفحہ 319-320]

امام جواد (ع) کی حکمتِ عملی

ایسے مشکل حالات میں، جہاں امام جواد (ع) کے سماجی تصور نے عباسی حکمرانوں کے افکار کو اس قدر مصروف رکھا تھا کہ نہ انہیں منظر عام پر آنے کا موقع ملتا تھا اور نہ ہی لوگوں کے ساتھ آزادانہ روابط بڑھانے کا موقع ملتا تھا؛ یہاں تک کہ مدینے میں بھی ان کی نقل و حرکت محدود کر دی گئی تھی۔

عباسی حکمران ہر ممکن کوشش کر رہے تھے کہ امام (ع) کا عوام سے رابطہ منقطع ہو جائے۔ ایسی صورتحال میں، ان کے والد امام رضا (ع) نے خراسان سے انہیں خط لکھا کہ جس میں امام نے سماجی تعلقات بڑھانے کی بہترین حکمت عملی یعنی "مجاورت اور محاورت" اختیار کرنے پر زور دیا تھا ۔

مجاورت یعنی لوگوں کے قریب رہنا اور ان کے مسائل کو براہِ راست جاننا ہے، اس سے چھوٹے پیمانے پر ایسے پلیٹ فارم بنانا مقصود تھا جہاں امام (ع) اپنے پیروکاروں اور عام لوگوں سے براہِ راست رابطہ قائم کر سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ محاورت، یعنی سوال و جواب اور افکار کا تبادلہ تھا۔ انہی روزمرہ کی ملاقاتوں اور باتوں سے گفتگو کی بنیاد بنتی ہے اور لوگوں کے ذہنوں میں امامت کا تصور مزید گہرا ہوتا ہے؛ چونکہ یہ حاکم وقت کے ابلاغ عامہ کا مقابلہ کرنے کا واحد راستہ تھا، اور اسی کے ذریعے ہی امام (ع) خفیہ طور پر اور براہ راست عوامی رائے کو تبدیل کر سکتے تھے۔ یہ حکمت عملی دراصل ایک طرح کی سماجی مزاحمت تھی جس کے ذریعے امام جواد (ع) نے عباسی حکمرانوں کی طاقتور اور منفی تبلیغ کے اثرات کو ناکام بنایا۔ [عطاردی، مسند الامام الجواد، جلد 1، صفحہ 260]

امام جواد (ع) کی زندگی میں اس طرح کے اقدامات کی مثالیں کم نہیں ہیں جو اس حکمت عملی کی افادیت کو ظاہر کرتی ہیں:

چند نمونے

گلی کوچے میں، بچوں کے ساتھ کھیل کود کے دوران غیر رسمی ماحول میں مامون سے علمی مقابلے کے ذریعے اپنی علمی برتری ثابت کی اور مامون جیسے طاقتور حکمران کو بھی اپنی بات منانے پر مجبور کیا۔ یہ ایک غیر متوقع مقام پر ہونے والا مناظرہ تھا؛ مامون جس کی توقع ہی نہیں کرسکتا تھا اور جب بھی کوئی حاکم کہیں جاتا ہے تو اپنے ساتھ ایک پوری ٹیم لے کر جاتا تھا، ایسے میں امام جواد (ع) کے ایک جملے نے اس کے عزائم خاک میں ملا دیئے اور اس کی پوری حکمت عملی کو دھچکا پہنچایا۔ [شیخ صدوق، عیون اخبار الرضا، جلد 2، صفحہ 239]

اسی طرح عقد کی تقریب میں عباسی قاضی کو دندان شکن جواب دیا یہ واقعہ ایک رسمی محفل میں پیش آیا جہاں امام (ع) نے اپنی فقہی بصیرت کا مظاہرہ کیا اور عباسی قاضی کے سوال کا ایسا جواب دیا جو اس کی علمی حیثیت کو چیلنج کر گیا۔ یہ واقعہ لوگوں کے ذہنوں میں امام (ع) کے علمی مقام کو مزید راسخ کرنے کا باعث بنا۔ [کلینی، اصول کافی، جلد 7، صفحہ 414]

ایک اور واقعہ کہ ایک ایسے شخص کو بچانا جس پر نبوت کا الزام تھا، جبکہ حقیقت میں وہ طی الارض کے ذریعے سفر کرتا تھا ایسے وقت میں جب عباسی حکمران معمولی بہانوں پر لوگوں کو سزا دیتے تھے، امام (ع) نے ایک بے گناہ شخص کی جان بچا کر اپنے علمی اثر و رسوخ کو ثابت کیا۔ اس سے عام لوگوں کے دلوں میں امام (ع) کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہوا۔ [شیخ طوسی، الامالی، صفحہ 609]

یہ تمام کوششیں امامت کی سماجی منزلت اور اجتماعی جیثیت کو بچانے کے لیے تھیں، ایک ایسا میدان جہاں خلیفہ کے ذرائع ابلاغ کی طاقت بھی اسے ختم نہ کر سکی۔ امام (ع) نے ثابت کیا کہ حقیقی قیادت صرف سیاسی یا جسمانی موجودگی سے نہیں، بلکہ عوامی دلوں میں بسنے اور ان کے ساتھ براہِ راست تعلق قائم کرنے سے حاصل ہوتی ہے۔

ماخذ:

علامہ مجلسی، بحار الانوار، تحقیق محمد باقر بہبودی، دار الاحیاء التراث العربی، بیروت، 1403ھ ق۔

شیخ مفید، الارشاد فی معرفۃ حجج اللہ علی العباد، کنگرہ شیخ مفید، قم، 1413ھ ق۔

کلینی، محمد بن یعقوب، اصول کافی، دار الکتب الاسلامیہ، تہران، 1407ھ ق۔

شیخ صدوق، محمد بن علی، عیون اخبار الرضا، جہان، تہران، 1378ھ ق۔

عطاردی، عزیز اللہ، مسند الامام الجواد، انتشارات عطارد، قم، 1410ھ ق۔

شیخ طوسی، محمد بن حسن، الامالی، دار الثقافہ، قم، 1414ھ ق۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha