منگل 9 دسمبر 2025 - 12:21
کوفہ کا کنول!

حوزہ/ دنیا کے سارے فقہا مل کر ایک امام کا انتظار کر رہے ہیں، اور کربلا کا فقیہ اتنا معتبر ہے کہ وقت کے تین تین امام و معصوم اس کا انتظار کرتے ہیں۔

تحریر: مولانا گلزار جعفری

حوزہ نیوز ایجنسی| کہا جاتا ہے کہ کنول ہمیشہ کیچڑ میں ہی کھلتا ہے۔ اب ذرا ہم اس زمین پر غور کریں جہاں یہ کھلتا ہے تو بآسانی اس کا تجزیہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ وہ زمین جہاں صاف و شفّاف پانی جمع ہو جائے اور پھر اس کی شفافیت پر کالی چکنی مٹی کا گھول اس طرح چڑھ جائے کہ اب وہ کیچڑ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اب عنوان کی حیثیت و کیفیت کو چراغِ علم کی روشنی میں پرکھا جائے تو اس حقیقت سے آشنائی ہوتی ہے کہ کوفہ وہ زمینِ عقیدت ہے جہاں عصمت کے دہن سے چشمۂ شیریں جاری و ساری تھا، مگر آلِ سفیان کی مکارانہ سازشوں کی کالی مٹی یہاں پر ڈالی گئی اور سازشوں، سوزشوں، ضمیر فروشی اور نفس‌کشی کا نتیجہ اس سماج و معاشرہ پر چھانے لگا۔

مگر عصمت کی کیمیاگری کے ہنر نے ہجرت سے پہلے شمعِ محبت کو روشن فرمایا، بلکہ اسی کوفہ کی کالی مٹی میں ایک کنول کا پودا لگایا۔ چونکہ حالات نے عصمت کو ہجرت پر مجبور کر دیا تھا، مگر نگاہِ معصوم جس منصوبے کی کامیابی کی آہٹیں اپنے گوشۂ احساس میں محسوس کر رہی تھی، لہٰذا اس کے لیے ان راہوں اور ماحول کو سازگار کرنا ضروری تھا۔ جس طرح ایک کسان کو معلوم ہے کہ اس کے شجرِ تمنا پر ثمر کتنی مدت کے بعد کھلے گا، مگر اس زمین کو ہموار کرنا ہوگا—مناسب ماحول، مناسب کھاد، مناسب وقت، مناسب آب‌ و ہوا اور روشنی کے ساتھ اسے پروان چڑھنا ہے۔ اسی طرح کی کارکردگی کرنا اور پھر انتظار کرنا ہوتا ہے۔

جب اہلِ بیتؑ نے کوفہ سے ہجرت کا ارادہ کیا، بلکہ یہاں کے ناسازگار حالات نے ہجرت پر مجبور کیا، تو ضروری تھا کہ مستقبل سازی کے لیے ایسے انتظامات کرکے جائیں جو وقتِ ضرورت کارآمد ثابت ہو سکیں۔ چنانچہ معلّمِ حقیقی قرآنِ حکیم نے اپنا ایک نائب—معلم و مفسر، عابد و زاہد، نیک و متقی، محب و ناصر، صائمُ النہار، قائمُ اللیل، اور بچپن کے دوست—حبیب بن مظاہر کو معیّن فرمایا، جو موجودہ اور آنے والی نسلوں کو تعلیمِ قرآن و حدیث اور فقہ و شریعت سے آگاہ کرتے رہیں، اور اس ظلمت کدۂ سیاست میں حکمت کے چراغ روشن کرتے رہیں۔

اسی طرح حکیمِ کربلا نے صحنِ کوفہ میں ایک کنول کی زراعت کر دی تاکہ نسلِ نو اس کی خوشبو سے مشامِ عدالت و مودّت کو معطّر کرتی رہے۔

اور شاید یہی وجہ تھی کہ جب میدانِ کربلا میں جنابِ زینبؑ عُلیا مقام نے امامِ عالی مقامؑ کو مشورہ دیا کہ آپ بھی کسی کو مدد کے لیے بلائیں تو آپؑ نے پوچھا: کس کو بلاؤں؟

تو شہزادیؑ نے فرمایا: آپ کے بچپن کے دوست حبیب بن مظاہر کو۔

تب امامؑ نے خط تحریر فرمایا: مِن حسینِ الغریب اِلٰی رجلٍ فقیہ

یہ خط مسافرِ حسینؑ کی جانب سے مردِ فقیہ حبیب بن مظاہر کی طرف— کتنا خوش نصیب ہے وہ کنول، جس کی خوشبو کا طلبگار وقت کا امام ہو۔

ہر فقیہ کو امامِ زمانہ کی ضرورت ہے، مگر سلام ہے فقیہِ کربلا پر کہ جس کی ضرورت خود امامِ زمانہ کو ہے۔

دنیا کے سارے فقہا مل کر ایک امام کا انتظار کر رہے ہیں، اور کربلا کا فقیہ اتنا معتبر ہے کہ وقت کے تین تین امام و معصوم اس کا انتظار کرتے ہیں۔

اور اسی مقام پر وہ لمحہ بھی یاد کریں کہ جب بچپن میں جنابِ حبیب بامِ خانہ پر چڑھ کر امامِ عالی مقامؑ کا انتظار کر رہے تھے، پیر پھسلا، روح فضا میں پرواز کر گئی، اور امامؑ نے دعا سے جان پلٹائی۔

اور وہی حقِ صداقت و رفاقت ادا کرنے حبیب کربلا کی جانب چل پڑے۔

اس وقت روایت میں ہے کہ فرزندِ رسول امام حسینؑ بار بار کوفہ کی طرف دیکھ رہے تھے—گردِ کوفہ امامت کی نگاہ کے حصار میں تھی۔

کتنا کریم ہے ہمارا آقا و مولا حسین بن علیؑ کہ اپنی پیشانی پر کسی کا قرضِ انتظار بھی نہیں رکھتا۔

کل بچپن میں بامِ خانہ پر کھڑے ہو کر حبیب نے اپنے حبیب کا انتظار کیا تھا، تو آج ضعیفی میں ایک حبیب نے اپنے حبیب کا خاکِ کربلا پر کھڑے ہو کر انتظار کیا تاکہ اس احسانِ انتظار کو اس احسانِ انتظار سے مکمل کیا جائے، اور آیت کو مصداقیت کا لباسِ فاخرہ پہنایا جا سکے:

هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ. کیا نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ اور ہے!

لہٰذا جب حبیب کربلا میں قربانی دیں گے تو آپ کا کٹا ہوا سر کوفہ میں جائے گا۔

اور ابنِ زیاد جب اسیرانِ کربلا کو باغی کہہ کر متعارف کروائے گا تو اس وقت اہلِ کوفہ کی نسلِ نو کے لیے حبیب کا سر مشعلِ راہِ ہدایت بنے گا۔

یہ کنول اپنی خوشبوئے تعارف سے آلِ محمدؐ کی عطر زدہ تربیت کا ثبوت پیش کرے گا، اور یوں کوفہ کا یہ کنول راہِ انقلاب میں اپنا پورا حق ادا کر دے گا، اور حکمتِ حکیمِ کربلا اپنے عروج کی غماز نظر آئے گی۔

حوالہ جات:

تاریخِ طبری

الإرشاد (شیخ مفید)

لہوف (سید ابن طاؤس)

مقتلِ خوارزمی

مقتلِ ابو مخنف

بحارالانوار (علامہ مجلسی)

رجالِ کشّی

کامل الزیارات (ابن قولویہ)

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha