تحریر و ترتیب: حجت الاسلام سید عابد حسین الحسینی،مدیر اعلی تبیان قرآنی ریسرچ انسٹیٹیوٹ حسن آباد
حوزہ نیوز ایجنسی| اگر ہم تاریخ پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو اسلام سے پہلے کے وراثتی قوانین، آسمانی مذاہب، اور یورپی و مغربی ممالک کے قوانین کو دیکھیں جو تقریباً سو سال پہلے تک عورت کو اجناس کی مانند سمجھتے تھے اور اسے کوئی مالی آزادی نہیں دیتے تھے، تو ہمیں اسلام کے مالی معاملات میں عورت کے حقوق پر فخر کرنا چاہیے۔
جاہلیت کے دور میں عورت کی وراثت کے حق کو تسلیم نہ کرنا، بلکہ بعض صورتوں میں عورت کو خود میت کے ترکے کا حصہ سمجھا جانا، اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلام نے اپنے روشن احکام کے ذریعے عورت کے وراثتی حقوق میں ایک انقلاب برپا کیا۔ درحقیقت، اسلام نے جاہلیت کی غلط رسوم کو ختم کرتے ہوئے عورتوں کو مردوں کے ساتھ وراثت کا حق دیا۔
قرآن کی نظر میں عورت کی شوہر کے مال میں وراثت
قرآن کریم میں، خاص طور پر سورہ نساء کی آیات 7، 11، 12، اور 176 میں، جہاں اللہ تعالیٰ نے میت کے رشتہ داروں کے وراثتی حصوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے، بہت سی حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہیں جنہیں انسان اپنی عقل و فہم اور احادیث کی مدد سے جزوی طور پر سمجھ سکتا ہے۔ ان آیات میں بھی، وراثت کے احکام دوسرے اسلامی احکام کی طرح اللہ کے علم اور حکمت پر مبنی ہیں۔ (فریضۃً مِنَ اللّٰہِ، إِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا– یہ احکام اللہ کی طرف سے فرض کیے گئے ہیں، بے شک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے)۔ (سورہ نساء:11)۔ نیز، ہر وارث کا حصہ انسانوں کے حقیقی مصالح کے پیش نظر مقرر کیا گیا ہے۔ (لَا تَدْرُوْنَ أَیُّہُمْ أَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا– تم نہیں جانتے کہ کون (باپ یا بیٹے) تمہارے لیے زیادہ نفع بخش ہیں)۔ (سورہ نساء:11)۔
روایات میں عورت کی شوہر کے مال میں وراثت
اس موضوع پر متعدد روایات موجود ہیں: وسائل الشیعه کا باب 7 اس سے مختص ہے اور اس باب میں رویات فقہاء کے نظریاتی اختلافات اور الگ الگ فتوے کی بنیاد ہیں۔
وراثت میں بیوی کے حق کا تحقیقی نکتہ
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ جن روایات میں بیوی کو شوہر کے تمام ترکے سے وراثت دینے کا ذکر ہے، ان کے مطابق مشہور فقہی رائے اور قرآن کی عام ظاہری آیات کی روشنی میں، ان فقہاء کا مؤقف زیادہ درست اور منطقی ہے جو بیوی کو صرف زمین، گھر کی عمارت یا اس کے اصل ڈھانچے سے وراثت سے محروم قرار دیتے ہیں، کیونکہ یہ مؤقف قرآن کے عام حکم کے مطابق ہے کہ بیوی کو تمام ترکے سے وراثت ملتی ہے، نیز ان روایات کے موافق ہے جو بیوی کو شوہر کے ترکے سے وراثت دیتی ہیں (حر عاملی، وسائل الشیعہ، باب 7، حدیث 1 و 2)، اور ان روایات کے ساتھ بھی مطابقت رکھتا ہے جو بیوی کو بعض اموال سے وراثت سے محروم کرتی ہیں۔
فقہاء کے اقوال
جیسا کہ اشارہ کیا گیا فقہاء میں نظریاتی اختلاف روايات کی بنیاد پر ہی ہے، فقہ امامیہ کے مطابق صاحب اولاد بیوی کو منقول میں سے 1/8 حصہ اور بے اولاد بیوی کو 1/4 متفق علیہ ہے، مگر غیرمنقول جائیداد میں وراثت کے مسئلے میں، روایات کے اختلاف کی وجہ سے فقہاء کے چھ مختلف اقوال سامنے آئے ہیں، جن میں سب سے اہم یہ ہیں:
قول اول:
اگر شوہر کی اولاد ہو تو بیوی منقول جائیداد کا آٹھواں حصہ پائے گی غیر منقول سے نہیں۔
امام خمینی، آیت اللہ سیستانی اس کے قائل ہیں اور حتیٰ کہ رہبر معظم 2007ء تک اسی قول کے قائل تھے۔
قول دوم:
اگر شوہر کی اولاد ہو تو بیوی منقول جائیداد کے عین (اصل مال) کا آٹھواں حصہ اور غیرمنقول جائیداد (زمین اور عمارت) کی قیمت کا آٹھواں حصہ پائے گی۔
قدما (قدیمی علماء) میں سے سید مرتضیٰ اور متاخرین (جدید علماء) میں2007ء کے بعد آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کا یہی مؤقف ہے۔
رہبر معظم کے فتویٰ میں تبدیلی
رہبر انقلاب نے سنہ 2007 میں کچھ خواتین سے ایک ملاقات میں فرمایا: "اسی مسئلہ وراثت میں عورت کے زمین اور غیرمنقول جائیداد سے حق کے بارے میں قدیم اور جدید فقہاء کی رائے، اور میرا فقہی نظریہ یہ ہے کہ جس چیز سے وراثت سے روکا گیا ہے وہ عین (اصل مال) ہے، لیکن اس کی قیمت بلا شک بیوی کا حق ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں۔"
اسی طرح مجلس شورائے اسلامی کی خواتین سے ملاقات میں فرمایا:
"جیسے یہ زمین کا معاملہ ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ عورت ہر چیز سے وراثت پائے گی، البتہ اگر میت کی اولاد ہو تو عین سے وراثت ملے گی، لیکن قیمت سے ضرور ملے گی۔ یہ ہمارے قوانین میں شامل ہونا چاہیے۔"
جمہوریہ اسلامیہ ایران میں قانونی ترمیم
ولّی امر مسلمین کے فرمان کی روشنی میں مجلس شورای اسلامی نے قانون کی دفعہ 947 کو منسوخ کر دیا اور دفعات 946 اور 948 میں ترمیم کی گئی۔ ماہرین قانون کا کہنا ہے اگر کسی غیر ملکی بیوی کا ایرانی شوہر ہے اور قانون کے نافذ ہونے کے بعد ایرانی شوہر فوت ہو جاتا ہے، تو غیر ملکی بیوی تمام منقولہ جائیداد اور غیر منقولہ جائیداد کی قیمت سے مستفید ہو گی، آرٹیکل 967 اور متوفی کے قانون کی حکمرانی، یعنی ایرانی قانون کے مطابق۔ (المسی، 2007، ص 276)
نتیجہ:
اب تک جن خواتین نے اپنے شوہر کی وراثت میں سے غیرمنقول جائیداد کی قیمت سے حصہ نہیں لیا، انہیں شرعی حکم کے مطابق نہیں ملتا تھا، لیکن اب، خواہ کوئی میاں بیوی رہبر معظم کے مقلد ہوں یا نہ ہوں، بیوی منقول اور غیرمنقول دونوں سے نئے فتوے کے مطابق وراثت پائے گی۔
اگر کسی عورت کا شوہر 2007ء سے پہلے فوت ہو گیا ہو اور ابھی تک وراثت تقسیم نہ ہوئی ہو تو اسے بھی نئے فتویٰ کے مطابق منقول و غیرمنقول دونوں سے وراثت ملے گی۔









آپ کا تبصرہ