از قلم: آغا سید عابد حسین الحسینی
حوزہ نیوز ایجنسی|
"أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ“ (يونس : 62 ) آگاہ ہوجاؤ کہ اولیائ خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں۔
عقل با غیر آشنا از اکتساب
عشق از فضل است و با خود در حساب
عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بنده شو، آزاد شو
سورۂ یونس کی اس آیہ وافی ھدایہ میں خدا تعالی فرماتے ہیں آگاہ ہوجاؤ کہ اولیائ خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے۔ یہاں پر اس سوال کا اجمالی جواب ہے کہ اولیاء خدا کی خصوصیتیں کیا ہوتی ہیں؟ جس کا تفصیلی جواب امام محمد باقر علیہ السلام نے بیان کیا ہے۔ عیاشی امام باقرعلیہ السلام سے نقل کرتا ہے کہ میں نے علی بن الحسین علیہ السلام کی کتاب میں یہ دریافت کیا کہ اولیاء خدا کو نہ خوف ہوتا ہے اور نہ ہی غم و بریشانی چونکہ واجب الٰہی کو انجام دیتے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو پکڑا ہے (اس پر عمل کرتے ہیں)۔جو کچھ خدا نے حرام قرار دیا ہے اس سے پرہیز کرتے ہیں اور دنیا میں جلد فانی ہونے والی زندگی کی زینت سے زھد اختیار کیا ہے اور جو کچہ خدا کے پاس ہے اس کی طرف رغبت رکھتے ہیں اور پاک رزق کے تلاش میں رہتے ہیں اور فخرفروشی اور زیادہ طلبی کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں اور اس کے بعد اپنے واجب حقوق انجام دینے کےلئے انفاق کرتے ہیں۔ یہ وہ ہیں جنکی آمدنی میں اللہ تعالٰی نے برکت عطا کی ہے اور جو کچھ آخرت کیلئے پہلے سے ہی بیجتے ہیں اس کا ثواب انکو دیا جائےگا۔
جب تک انسان ہر قیمت پر شاد و آباد رہنا چاہیے، منصب اور کاروبار، میں اعلی مقام و ترقی خواہ اس کے لیے خیانت کرنی پڑے، جھوٹ بولنا پڑے، غداری اور قوم فروشی کرنی پڑے، اہل باطل کی محکومی و غلامی کرنی پڑے، اسلامی ثقافت سے ہاتھ دھونا پڑے، خواہ اس کے لیے عزت نفس پامال ہوتی ہو، عفت و عصمت مجروح ہوتی ہو، ہو جائے لیکن شہرت اور دولت حاصل کرنی ہے یہ کوئی ظاہری طور پر پارسا ہوسکتا ہے
باطنی طور پر دنیا پرست ہوتا ہے اس کے دل میں دنیا کی محبت، مال و دولت کی حرص اور ذاتی مفادات کا راج ہوتا ہے۔ اس کی عبادتیں اور نیک اعمال صرف دکھاوا (ریاکاری) ہوتے ہیں۔ یہ لذت میں غرق تو ہوسکتا ہے مگر یہ بندہ خدا اور ولی خدا نہیں ہوسکتا۔
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ سر کربلا نظم میں بھی درحقیقت اولیائ خدا کا عشق سے لبریز ہونے کو ہی احسن انداز میں بیان کرتے ہوئے عقل و عشق کا تقابلی موازنہ میں کرتے ہوئے فرماتے ہیں عقل غیر سے آشنا ہوتی ہے اور کسب و جہد سے ( بھی ) حاصل ہو جاتی ہے، عشق فضل الہی سے حاصل ہوتا ہے اور محاسبہ نفس میں مگن رہتا ہے۔
اس شعر میں عقل اور عشق کے درمیان دو باتوں کا تقابلی موازنہ ہے:
(1) پہلی بات دونوں کا رویہ ہے ، عقل غیر آشنا ہوتی ہے اور عشق خود آشنا عقل دوسروں کا توجائزہ لیتی ہے، اپنا محاسبہ نہیں کرتی، جبکہ عشق خود آگاہ اور خود شناس ہوتا ہے، عاشق کو اپنی خودی کی تربیت اور حفاظت پر مائل کرتا ہے، اُسے دوسروں سے سروکار نہیں ہوتا۔
(2) دوسری بات یہ کہ عقل میں اکتساب و اختیار کا بھی دخل ہے، مطالعہ ، مشاہدہ ، مکالمہ اور مجالہ عقل میں اضافہ کرتا ہے، جبکہ عشق سراسر وہی نعمت ہے، جو محض فضل الہی سے حاصل ہوتی ہے۔
عقل گوید شاد شو آباد شو
عشق گوید بنده شو، آزاد شو
عقل کہتی ہے (جیسے ہو سکے ) خوش رہو، آباد رہو، عشق کہتا ہے (صرف اللہ کا بندہ بنو، (باقی سب سے ) آزاد رہو ۔
اس شعر میں ایک اور انداز سے عقل اور عشق کا تقابلی موازنہ ہے۔ عقل کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہر قیمت پر شاد آبادرہنا چاہیے، ترقی ہونی چاہیے، منصب ملنا چاہیے، کاروبار پھیلنا چاہیے، خواہ اس کے لیے خیانت کرنی پڑے، جھوٹ بولنا پڑے، غداری اور قوم فروشی کرنی پڑے، اہل باطل کی محکومی و غلامی کرنی پڑے، اسلامی ثقافت سے ہاتھ دھونا پڑے، خواہ اس کے لیے عزت نفس پامال ہوتی ہو، عفت و عصمت مجروح ہوتی ہو، ہو جائے لیکن موج میلہ ہونا چاہیے، اس لیے کہ زندگی کا مقصد دنیوی راحت اور وقتی مسرت ہے:
با بر به عیش کوش که عالم دوباره نیست
اس کے مقابل عشق کہتا ہے کہ صرف اللہ تعالیٰ کا بندہ بن اور ہر خوف و حزن اور حرص و ہوس سے آزادرہ، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، جو اُس کا بندہ بن جائے، وہ اُس کا مددگار اور کارساز بن جاتا ہے، اور جس کے ساتھ اللہ ہو جائے، اُسے کا ہے کا خوف وحزن اور کا ہے کی حرص و ہوس؟
الغرض عقل انسان کو خوف و حزن اور حرص و ہوس کا غلام بنا دیتی ہے اور عشق عاشق کو ہر غیر فطری قید سے آزاد رکھتا ہے۔









آپ کا تبصرہ