تحریر :آغا سید عابد حسین الحسینی
حوزہ نیوز ایجنسی|اَلْمُؤْمِنُ بِشْرُهٗ فِیْ وَجْهِهٖ، وَ حُزْنُهٗ فِیْ قَلْبِهٖ، اَوْسَعُ شَیْءٍ صَدْرًا، وَ اَذَلُّ شَیْءٍ نَفْسًا، یَكْرَهُ الرِّفْعَةَ، وَ یَشْنَاُ السُّمْعَةَ، طَوِیْلٌ غَمُّهٗ، بَعِیْدٌ هَمُّهٗ، كَثِیْرٌ صَمْتُهٗ، مَشْغُوْلٌ وَّقْتُهٗ، شَكُوْرٌ صَبُوْرٌ، مَغْمُوْرٌۢ بِفِكْرَتِهٖ، ضَنِیْنٌۢ بِخَلَّتِهٖ، سَهْلُ الْخَلِیْقَةِ، لَیِّنُ الْعَرِیْكَةِ! نَفْسُهٗۤ اَصْلَبُ مِنَ الصَّلْدِ، وَ هُوَ اَذَلُّ مِنَ الْعَبْدِ. امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں مؤمن کی جو صفات بیان فرماتے ہیں، وہ ہمیں مرحوم آغا سید محمد حسین الموسوی کی شخصیت میں مجسم نظر آتی ہیں: "مومن کے چہرے پر بشاشت اور دل میں غم و اندوہ ہوتا ہے۔ ہمت اس کی بلند ہے اور اپنے دل میں وہ اپنے کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے۔ سر بلندی کو برا سمجھتا ہے اور شہرت سے نفرت کرتا ہے۔ اس کا غم بے پایاں اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ بہت خاموش، ہمہ وقت مشغول، شاکر، صابر، فکر میں غرق، دست طلب بڑھانے میں بخیل، خوش خلق اور نرم طبیعت ہوتا ہے اور اس کا نفس پتھر سے زیادہ سخت اور وہ خود غلام سے زیادہ متواضع ہوتا ہے۔"
ایک عظیم شخصیت کا تعارف
۱۳ جمادی الاول کو ہم مرحوم و مغفور آغا سید محمد حسین الموسوی کی برسی منا رہے ہیں۔ آپ ایک بلند پایہ شخصیت تھے جنہوں نے اپنی پوری زندگی اسلام اور ولایت کی تبلیغ، ترویج اور دفاع میں گزار دی۔ آپ کے انتقال کا واقعہ انتہائی دردناک ہے۔ گھر سے جمعہ کی نماز پڑھانے کے لیے نکلے، حسن آباد میں نماز جمعہ ادا کروائی اور پھر بیمار ہو کر دہلی کے ایمز ہسپتال میں جان جان آفریں کے حوالے فرما گئے۔
علمی و روحانی اوصاف
مرحوم موصوف کے بارے میں جو کچھ ہم نے سنا اور جانا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ:
· متقی اور پرہیزگار انسان تھے
· بہادر اور نڈر مجاہد تھے
· عالم و فاضل دانشور تھے
· ولایت کے پاسبان تھے
· ولایتِ فقیہ کے ترجمان تھے
· رہبر معظم انقلاب کے مترجم تھے
· لوگوں کے غمخوار تھے
· مستقبل کے معمار تھے
خاموش طبیعت اور حسن خلق کا پیکر تھے
نجف اشرف میں عظیم مراجع کے بہترین شاگرد تھے
سیاسی بصیرت اور جدوجہد
۱۹۷۰ کے بعد کا واقعہ ہے جب کشمیر میں "جنتا دور" آیا تو آپ کے بھائی الیکشن میں کھڑے ہوئے۔ آپ نے انہیں روکنے کی پوری کوشش کی، یہاں تک اسکی عوامی ساخت محفوظ رکھنے کا منصوبہ بھی بنایا۔ یہ آپ کی دور اندیشی اور سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
نمازِ جمعہ اور انقلابی روایت
مرحوم موصوف کشمیر میں نماز جمعہ قائم کرنے کے بانی تھے جس طرح ایران میں انقلاب اسلامی کے بعد امام جمعہ عصا کے بجائے ہتھیار ہاتھ میں لیتے ہیں، بالکل اسی طرح آپ بھی ہاتھ میں ہتھیار لے کر خطبہ جمعہ دیتے تھے۔ ان کے خطبات میں تقویٰ کی سفارش، حالات حاضرہ کا تجزیہ اور بین الاقوامی مسائل پر روشنی کے ساتھ ساتھ مظلوم و مستضعفین کی ترجمانی نمایاں ہوتی تھی۔
رہبرِ معظم انقلاب سے خصوصی ملاقات
شہید آغا سید مہدی کی شہادت پر رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای (حفظہ اللہ) کی جانب سے خصوصی دعوت پر، مرحوم آغا سید محمد حسین الموسوی کے والد محترم میرے نانا جان ایران تشریف لے گئے۔ اس دوران ہم آغا سید محمد ہادی موسوی، آغا سید محمد عقیل موسوی، اور آغا سید احمد موسوی اور میں قم المقدس میں تعلیم و تربیت حاصل کر رہے تھے۔ خاندان کی ایک اور قابل فخر فرد، میری خالہ، ان دنوں اصفہان میں اپنی ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کر رہی تھیں.
جب نانا جان قم المقدسہ پہنچے تو ان کے ساتھ میرے والد محترم آغا سید روح اللہ مہدی اور ان کی والدہ، نیز ہماری نانی بھی تشریف لائے۔ خاندان کے تمام ارکان کو رہبر معظم انقلاب سے خصوصی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس تاریخی ملاقات میں جب رہبر انقلاب کو بڈگام امام بارگاہ کے حوالے سے ان کی ایک تقریر اور اس کے مترجم مرحوم آغا سید محمد حسین الموسوی کی تصویر تحفے کے طور پر پیش کی گئی تو وہ مسکراتے ہوئے فرمایا: "جب میں کشمیر اور ہندوستان سے واپس امام (خمینی) کے پاس پہنچا تو امام نے سب سے پہلے آغا سید یوسف موسوی کا حال دریافت کیا اور پورے موسوی خاندان کی خیریت پوچھی، جس پر مجھے بہت تعجب ہوا کہ امام نے اپنے وسیع ملک میں سب سے پہلے آپ کے گھرانے کی خبر لی۔"
یہ واقعہ نہ صرف موسوی خاندان کے روحانی وقار کو ظاہر کرتا ہے بلکہ امام خمینی (رہ) کے عالمی اسلامی برادری، بالخصوص کشمیر کے مظلوم عوام اور ان کے نمائندوں سے گہرے قلبی تعلق کا بھی اظہار ہے۔
کشمیر میں ایک تاریخی دورہ
رہبر معظم انقلاب کا موسوی خاندان سے تعلق کا یہ سلسلہ بہت پرانا ہے۔ جب آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای ایران کی سپریم نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ تھے، وہ کشمیر تشریف لائے تھے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے تاریخی جامع مسجد سرینگر اور مرکزی امام باڑہ بڈگام میں پرجوش تقاریر فرمائیں، جن کا ترجمہ مرحوم آغا سید محمد حسین الموسوی نے خود انجام دیا تھا. یہ تقریریں کشمیر کے عوام کے ساتھ ایک مضبوط روحانی اور فکری ربط کا اظہار تھیں، جسے مرحوم موصوف نے اپنی مترجمی کے ذریعے عوام تک پہنچایا۔
کشمیر کے لیے خدمات اور تڑپ
مرحوم آغا سید محمد حسین کی دلی تمنا تھی کہ کشمیری قوم جو قدیم اور جدید فرقہ وارانہ آگ میں جل رہی ہے، اسے نجات دلائی جائے۔ یہ کوشش نہ صرف عوامی سطح پر تھی بلکہ خصوصی طور پر آپ ہمارے گھر میں، مرحوم آغا سید محمد فضل اللہ اور مرحوم مولانا افتخار انصاری رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ راتوں رات منصوبہ بندی کیا کرتے تھے۔
شرعی انجمن اور امام خمینی کا فیصلہ
انجمنِ شرعی شیعیان کے بانی حضرت آیت اللہ آغا سید یوسف موسوی کی رحلت کے بعد، مرحوم آغا سید محمد حسین نے اپنے والد مرحوم عارف باللہ حضرت حجۃ الاسلام آغا سید مصطفیٰ کی صدارت کا قائل ہونا نہ اینکہ بیٹے ہونے کی حیثیت سے، بلکہ امام خمینی کے مکتوب فیصلے کی بنیاد پر تھا۔ یہ آپ کے اصول پسندی اور شرعی پابندی کی واضح دلیل ہے۔
ایک قومی فقدان
کشمیر کا ہر فرد آپ کی جوانی میں وفات پر حسرت کہتا ہے اور اسے قومی فقدان سمجھتا ہے۔ ہر خاص و عام کا یہی ماننا ہے کہ اگر آپ زندہ رہتے تو کشمیری دین، معاشرت، سیاست، تعلیم، صحت اور دیگر تمام شعبوں میں آگے ہوتے۔
فاطمی شفاعت کا حصول
مرحوم موصوف اپنی جدہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شفاعت حاصل کرنے کے لیے، انہی کی شہادت کے موقع پر ہی قوم کو داغ مفارقت دے گئے۔ یہ آپ کے فاطمی مزاج اور اہل بیت علیہم السلام سے والہانہ محبت کی واضح نشانی تھی۔
آغا سید محمد حسین الموسوی کی زندگی ولایت فقیہ کے پرچار، اسلام کی سربلندی، اور کشمیری عوام کی خدمت کے لیے ایک روشن باب ہے۔ آپ نہج البلاغہ میں بیان کردہ مومنِ کامل کی عملی تصویر تھے۔ آپ کی جدوجہد ہمیشہ ہمارے لیے مشعل راہ رہے گی۔

19:13 - 2025/11/08









آپ کا تبصرہ