منگل 4 نومبر 2025 - 09:59
خادم قوم، دینی سیاستدان اور مظلوموں کے حامی؛ شہید آغا مہدی

حوزہ/ ہمارے درمیان سے چلے جانے والے عظیم رہنما حاجی آغا سید مہدیؒ بھی اسی زمرے میں شامل ہیں، جنہوں نے 3 نومبر 2000ء کو جامِ شہادت نوش کیا؛ وہ نہ صرف ایک بے باک مؤمن اور متدین لیڈر تھے، بلکہ ان کی پوری زندگی خدمتِ خلق، دینی سیاست اور مظلوموں کی حمایت کے سنہری اصولوں پر استوار تھی۔

تحریر: آغا سید عابد حسین الحسینی

حوزہ نیوز ایجنسی|

بیادِ شہید حاجی آغا سید مہدیؒ (یومِ شہادت 3 نومبر 2000ء)

بسم الله الرحمٰن الرحیم

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ."اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرنا وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں۔" (سورہ آل عمران: 169)

جس طرح ایک نابینا شخص بینائی کا تصور نہیں سمجھتا اسی طرح دنیا کے لوگ شہداء کی زندگی کو نہیں سمجھتے۔ یہ آیہ وافی ھدایہ شہید کی حقیقت کو بہترین طور پر بیان کرتی ہے اور روایات میں آیا ہے کہ شہید کو اللہ تعالیٰ نے سات خصلتیں عطا کی ہیں: ایک) اس کے خون کا پہلا قطرہ اس کے گناہوں کی بخشش کا سبب بنتا ہے۔ دو) اس کا سر حورالعین کے گود میں ہوتا ہے۔ تین) وہ جنت کے لباس سے آراستہ ہے۔ چار) وہ سب سے زیادہ خوشبودار عطروں سے معطر ہے۔ پانچ) وہ جنت میں اپنا مقام دیکھتا ہے۔ چھ) اسے جنت میں گھومنے پھرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ سات) پردے ایک طرف ہٹ جاتے ہیں اور وجہ اللہ کا نظارہ کرتا ہے۔

ہمارے درمیان سے چلے جانے والے عظیم رہنما حاجی آغا سید مہدیؒ بھی اسی زمرے میں شامل ہیں، جنہوں نے 3 نومبر 2000ء کو جامِ شہادت نوش کیا۔ وہ نہ صرف ایک بے باک مومن اور متدین لیڈر تھے، بلکہ ان کی پوری زندگی خدمتِ خلق، دینی سیاست اور مظلوموں کی حمایت کے سنہری اصولوں پر استوار تھی۔

شہید آغا سید مہدیؒ کی شخصیت کثیرالجہت تھی۔ انہوں نے ہمیشہ حق بات کہنے میں کوئی باک محسوس نہ کیا۔ ان کی بے باکی ان کی ایمانی قوت کی آئینہ دار تھی۔ وہ ہر محتاج اور ضرورت مند کی مدد کے لیے ہمہ وقت حاضر رہتے تھے۔ ان کا دل انسانیت کے لیے دھڑکتا تھا اور خدمتِ خلق کو وہ اپنا فرضِ اولین سمجھتے تھے۔

ان کی زندگی کا ایک اہم پہلو مظلوموں کی حمایت تھا۔ وہ ہر مستضعف کی آواز بلند کرنے اور اسے انصاف دلانے کے لیے کوشاں رہتے تھے۔ ان کی رحلت کا انداز بھی ان کی زندگی کے انہیں اعلیٰ اصولوں کی عکاسی کرتا ہے۔ جمعہ کے مقدس دن نمازِ جمعہ پڑھانے کے فوری بعد ہی ایک مائن دھماکے میں انہیں شہادت کا درجہ ملا۔ گویا عبادت گاہِ خداوندی ہی ان کی آخری منزل ثابت ہوئی۔

آج وہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں، لیکن ان کی قربانی، اصول پسندی اور خدمت کا جذبہ ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔ ان کی شہادت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ حق و انصاف کی راہ میں ہمیشہ ڈٹے رہنا چاہیے۔ ان کی یاد ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے اور ان کے نقوشِ قدم پر چلنا ہی ہماری کامیابی ہے۔

آج ان کے فرزند سرینگر کے پارلیمنٹ ممبر آغا سید روح اللہ مہدی اپنے والد محترم کی طرح شجاعانہ انداز میں ہندوستان کی پارلیمنٹ میں کشمیریوں کی تشخص، ثقافت اور سیاست کی ترجمانی کرتے ہیں۔

آئینِ جوانمرداں، حق گوئی و بےباکی

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha