حج؛ فلسفہ و اہمیّت، اجتماعیت، تاریخ اور حضرت ابراہیم (ع) کی پکار

حوزہ/اسلام ایک ایسا دین ہے جو فرد اور اجتماع دونوں کی اصلاح اور تربیت کرتا ہے۔ اس کی تمام عبادات میں روحانی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی پہلو موجود ہوتے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے ارکانِ اسلام انسان کو اللہ کے ساتھ تعلق میں مضبوط کرتے ہیں اور انسانیت کے ساتھ ربط و محبت سکھاتے ہیں۔ ان میں حج ایک ایسی جامع عبادت ہے جو دینِ اسلام کی عالمی وحدت، مساوات اور اخوت کا عملی مظہر ہے۔

تحریر: مولانا سید ذہین کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی| اسلام ایک ایسا دین ہے جو فرد اور اجتماع دونوں کی اصلاح اور تربیت کرتا ہے۔ اس کی تمام عبادات میں روحانی، اخلاقی، سماجی اور معاشرتی پہلو موجود ہوتے ہیں۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج جیسے ارکانِ اسلام انسان کو اللہ کے ساتھ تعلق میں مضبوط کرتے ہیں اور انسانیت کے ساتھ ربط و محبت سکھاتے ہیں۔ ان میں حج ایک ایسی جامع عبادت ہے جو دینِ اسلام کی عالمی وحدت، مساوات اور اخوت کا عملی مظہر ہے۔

حج کی ابتدا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا کردار

حج کی جڑیں صدیوں پرانی ہیں۔ قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ بیت اللہ کی بنیادیں اٹھائیں:"وَإِذْ یَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ (سورۃ البقرہ: 127)

حضرت ابراہیمؑ نے نہ صرف کعبہ کی تعمیر کی بلکہ اللہ کے حکم سے لوگوں کو حج کے لیے پکارا: "وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ"(سورۃ الحج: 27)

اس وقت سے لے کر قیامت تک، حضرت ابراہیمؑ کی آواز پر "لبیک" کہنے والوں کا سلسلہ جاری رہے گا، جس میں نہ رنگ، نہ نسل، نہ زبان، نہ علاقے کی کوئی تفریق ہوگی۔

لبیک کی صدائیں: وحدتِ امت کا پیغام

"لبیک اللھم لبیک" کی صدائیں پوری امتِ مسلمہ کو ایک مرکز پر جمع کرتی ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں سے آئے ہوئے مسلمان، ایک ہی لباس، ایک ہی انداز، ایک ہی تلبیہ کے ساتھ اللہ کے گھر کی طرف بڑھتے ہیں۔ یہ مظاہرہ امتِ واحدہ کی علامت اور اسلامی وحدت کا عملی ثبوت ہے۔

ایک لباس، ایک مقصد

احرام کا سفید، سادہ اور یکساں لباس دنیاوی تفریق کو مٹا کر سب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ کوئی بادشاہ ہو یا گدا، سب برابر۔ یہی وہ تعلیم ہے جو اسلام انسانیت کو دینا چاہتا ہے: "إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ" (الحجرات)

فلسفۂ حج؛ روحانی اور اخلاقی تطہیر

حج محض ظاہری عبادت نہیں، بلکہ ایک عظیم روحانی سفر ہے۔ یہ وہ عبادت ہے جو انسان کو اس کی اصل فطرت، مقامِ بندگی، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کی گہرائیوں کی طرف لے جاتی ہے۔ حج کا ہر عمل نہ صرف تاریخی پس منظر رکھتا ہے بلکہ روحانی پیغام بھی سموئے ہوئے ہے۔

1. نیت سے آغاز: خالص للہیت

حج کی ابتدا "نیت" سے ہوتی ہے، جو انسان کو اس بات کی یاددہانی کراتی ہے کہ ہر عبادت، ہر قدم صرف اللہ کے لیے ہے۔ دنیاوی لذتیں، مال و دولت، عہدے و رتبے سب پیچھے رہ جاتے ہیں، اور دل میں صرف اللہ کی رضا کی تمنا باقی رہتی ہے۔"إنما الأعمال بالنیات" (صحیح بخاری)

2. احرام: فنا فی اللہ کا لباس

سفید، غیر سلا ہوا کپڑا احرام صرف لباس نہیں بلکہ انسان کی انانیت، خودی، غرور اور دنیاوی شناختوں کو اتار پھینکنے کی علامت ہے۔ یہ لباس موت کی یاد دلاتا ہے، کہ جیسے کفن میں لپٹے انسان کو قبر میں رکھا جاتا ہے، ویسے ہی حاجی خود کو اللہ کے حضور مکمل سپرد کرتا ہے۔

3. تلبیہ: لبیک کا فلسفہ

"لبیک اللھم لبیک..." صرف ایک ورد نہیں، یہ انسان کی مکمل فرمانبرداری کا اعلان ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اے اللہ! میں آیا ہوں، ہر پکار پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہوں، میں تیرا بندہ ہوں، اور تیرا ہی بن کر رہوں گا۔

یہ حضرت ابراہیمؑ کی دعوت پر امتِ مسلمہ کی طرف سے ابدی جواب ہے جو قیامت تک جاری رہے گا۔

4. طواف: مرکزیتِ توحید

کعبہ کا طواف، جس میں حاجی سات مرتبہ دائیں طرف سے بیت اللہ کے گرد چکر لگاتا ہے، دراصل اس بات کا اعلان ہے کہ زندگی کا مرکز صرف اللہ ہے۔ جس طرح الیکٹران گھومتے ہیں، سیارے مدار میں گردش کرتے ہیں، ویسے ہی انسان اپنے خالق کے گرد طواف کر کے یہ اعلان کرتا ہے کہ میری زندگی کا مقصد صرف اللہ کی رضا ہے۔

5. سعی بین الصفا والمروہ: صبر و سعی کی علامت

حضرت ہاجرہؑ کا صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنا ہمیں یہ درس دیتا ہے کہ رب پر توکل کے ساتھ عملی کوشش لازم ہے۔ یہ سعی دراصل زندگی کے نشیب و فراز میں صبر، استقامت اور محنت کی علامت ہے۔

6. میدانِ عرفات: انسانی معافی کا عالمی دن

عرفہ کا دن، میدان عرفات میں وقوف، دراصل قیامت کے دن کی جھلک ہے۔ سب سفید لباس میں، اللہ کے سامنے گڑگڑا کر معافی مانگتے ہیں۔ اس دن اللہ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور بندے گناہوں سے ایسے پاک ہو جاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوئے ہوں۔"الحج عرفة"(سنن ترمذی)

7. رمی جمرات: باطل سے جنگ کا استعارہ

شیطان کو کنکریاں مارنا دراصل اس بات کا عملی اعلان ہے کہ ہم ہر باطل، ہر وسوسے، ہر گناہ، اور ہر نافرمانی کو رد کرتے ہیں۔ یہ روحانی جنگ کا مظہر ہے جو ہر مؤمن کو ہر روز شیطان سے لڑ کر جیتنی ہوتی ہے۔

8. قربانی: تسلیم و رضا کا عروج

حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کی اطاعت کی یاد میں قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے ہمیں اپنی سب سے قیمتی چیز بھی قربان کرنی ہو تو دریغ نہ کریں۔ اصل قربانی جان کی نہیں، دل کی ہے۔

"لن ینال الله لحومها ولا دماؤها ولكن يناله التقوى منكم"(سورۃ الحج: 37)

خلاصہ

حج کا فلسفہ ہمیں سکھاتا ہے:

عاجزی: اللہ کے سامنے جھک جانا۔

وحدت: امت کی یکجہتی۔

اطاعت: اللہ کے حکم پر ہر حال میں لبیک۔

تطہیر: روحانی، اخلاقی اور نفسیاتی صفائی۔

جاری ہے....

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha