غدیرِ خم کا پیغام؛ "مولا" کا مفہوم اور امت کی رہنمائی

حوزہ/ ایک تاریخی لمحہ، جو آج بھی امت سے سوال کرتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہیں جن کی گونج صرف ماضی تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ ہر زمانے کو سوچنے، سمجھنے اور راستہ تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

تحریر: مولانا سید ذہین کاظمی

حوزہ نیوز ایجنسی| ایک تاریخی لمحہ، جو آج بھی امت سے سوال کرتا ہے۔ اسلام کی تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہیں جن کی گونج صرف ماضی تک محدود نہیں رہتی، بلکہ وہ ہر زمانے کو سوچنے، سمجھنے اور راستہ تلاش کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔

ایسا ہی ایک لمحہ تھا غدیرِ خم کا واقعہ۔

مقام غدیر — ایک غیر معمولی اجتماع

سال 10 ہجری، ذوالحجہ کا مہینہ، نبی کریم ص حجۃ الوداع سے واپسی پر تھے۔ ہزاروں حاجی قافلے کی صورت میں مکہ سے نکل چکے تھے۔ اچانک نبی ص نے قافلے کو ایک مقام پر رکنے کا حکم دیا — یہ مقام تھا: غدیرِ خم۔

سخت گرمی

بیابان و صحرا

اونٹوں کی پالان سے منبر بنایا گیا

سب کو بلایا گیا — جو آگے جا چکے تھے اُنہیں واپس بلایا گیا، جو پیچھے تھے اُن کا انتظار کیا گیا۔

ایسا انتظام نبی ص نے اس سے پہلے کبھی نہیں کیا۔

اعلانِ ولایت: من کنت مولاه فعليٌّ مولاه

نبی کریم ص نے فرمایا: "من كنت مولاه فهذا عليٌّ مولاه. اللهم والِ من والاه، وعادِ من عاداه..."(جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی بھی مولا ہے۔ اے اللہ! اس سے محبت رکھ جو علی سے محبت رکھے، اور دشمنی رکھ جو علی سے دشمنی کرے)

سوال کرنے کا وقت

آئیے اس اعلان پر غور کریں:

اگر "مولا" کا مطلب صرف "دوست" ہے، تو کیا یہ اعلان اتنی شدت سے، اتنے بڑے مجمع میں، اتنے خاص وقت پر ضروری تھا؟

کیا امت پہلے سے نہیں جانتی تھی کہ حضرت علیؑ، رسول اللہ ص کے پہلے سے محبوب اور قریبی ساتھی ہیں؟

کیا محض دوستی کے لیے نبی ص نے لاکھوں حاجیوں کو گرمی میں روک کر یہ اعلان کیا؟

یہ سوال صرف تاریخ کا نہیں — بلکہ ہمارے ایمان، سوچ اور امت کی وحدت کا سوال ہے۔

"مولا" کا مفہوم: لغت اور قرآن کی روشنی میں

"مولا" عربی زبان کا گہرا اور بامعنی لفظ ہے، جس کے کئی معانی ہیں:

محب (محبت کرنے والا)

ناصر (مددگار)

ولی (سرپرست)

أولى (سب پر حق رکھنے والا، صاحبِ اختیار)

قرآن کہتا ہے: "النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم" (الأحزاب: 6) (نبی مومنین پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں)

اسی طرز پر جب نبی فرماتے ہیں: "من کنت مولاه فعليٌّ مولاه"

تو سیاق و سباق صاف بتاتا ہے کہ یہاں جانشینی، ولایت اور رہبری کی بات ہو رہی ہے — نہ کہ صرف محبت کی۔

دعوتِ فکر: دوہرے معیار کیوں؟

ہم دیکھتے ہیں کہ بعض اوقات:

جب "ولی" یا "مولا" کا لفظ حضرت ابوبکرؓ کے لیے آتا ہے تو اس کا مطلب لیا جاتا ہے خلیفہ، جانشین

مگر یہی لفظ جب حضرت علیؑ کے لیے آتا ہے تو کہا جاتا ہے: "اس کا مطلب صرف دوست ہے"

کیا یہ انصاف ہے؟

کیا ایک ہی لفظ کے لیے دو الگ الگ معیار صحیح ہیں؟

غدیر کا پیغام: امت کی رہنمائی

نبی کریم ص نے اپنی اُمت کو کبھی بغیر رہنمائی کے نہیں چھوڑا۔

جیسے نماز سکھائی، روزہ، حج، زکوٰۃ سب کچھ واضح کیا — ویسے ہی قیادت کا معاملہ بھی واضح فرمایا۔

غدیر پر اعلان ولایت کا مطلب یہ تھا کہ:

"جس پر میری ولایت ہے، اُس پر علیؑ کی بھی ولایت ہے"

"جس پر میرا حق ہے، اُس پر علیؑ کا بھی وہی حق ہے"

نرمی، محبت اور غور کا پیغام

یہ تحریر کسی سے مقابلے یا بحث کے لیے نہیں — بلکہ دعوتِ فکر کے لیے ہے۔

اگر آپ اہل سنت بھائی ہیں، تو آپ ہمارے ایمان والے بھائی ہیں — اور ہم آپ کے لیے وہی چاہتے ہیں جو اپنے لیے۔

ہم سب ایک ہی نبی ص کے امتی، ایک ہی قرآن کو ماننے والے، اور ایک ہی قبلہ کی طرف سجدہ کرنے والے ہیں۔

تو آئیے! دل کھولیں، تعصبات سے نکلیں، اور سوچیں کہ: کیا ولایتِ علیؑ کا انکار کرنا، نبی کی ہدایت سے انحراف تو نہیں؟ کیا ہمیں غدیر کا پیغام صرف روایتی انداز سے نہیں، بلکہ فکری انداز سے سمجھنے کی ضرورت نہیں؟

آخر میں ایک دعا:

اے اللہ! ہمیں حق پہچاننے، قبول کرنے، اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔

اے اللہ! ہمیں اہل بیتؑ کی محبت اور ولایت میں سچا بنا، اور امت کو اتحاد اور بصیرت عطا فرما۔

آمین یا رب العالمین۔

یہ پیغام دلیل کے ساتھ ہے، نہ کہ جذبات کے ساتھ۔ محبت کے ساتھ ہے، نہ کہ مخالفت کے ساتھ۔

اگر یہ بات دل کو چھو گئی ہو تو اسے آگے ضرور پہنچائیے، تاکہ ہم سب حق کی تلاش میں ایک دوسرے کے مددگار بن سکیں۔

1. حدیثِ غدیر اور "مولا" کا مفہوم:

جب نبی اکرم ص نے غدیر خم کے مقام پر سب کو جمع کر کے فرمایا: "من کنتُ مولاه فهذا عليٌّ مولاه"(جس کا میں مولا ہوں، اُس کا علی بھی مولا ہے)

تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر "مولا" سے مراد صرف دوستی ہے، تو:

نبی ص نے اتنے شدید موسم، سخت حالات اور ہزاروں حاجیوں کو روک کر صرف "علی میرے دوست ہیں" بتانے کے لیے اتنا غیر معمولی اقدام کیوں کیا؟

کیا پہلے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ حضرت علیؑ، نبی ص کے قریبی دوست، عزیز اور داماد ہیں؟

کیا یہ اعلان کچھ ایسا نہیں لگتا جو کوئی بہت بڑی ذمے داری یا ولایت کے اعلان کی صورت ہو؟

لہٰذا اہل تشیع علما کا یہ استدلال ہے کہ: لفظ "مولا" یہاں تصرف، ولایت، اور خلافت کے مفہوم میں آیا ہے — یعنی جانشینی۔

2. اہل سنت کی تاویل اور تضاد:

آپ نے ایک اور اہم نکتہ اٹھایا ہے: جب یہی لفظ "ولی" یا "مولا" حضرت ابوبکرؓ کے لیے استعمال ہوتا ہے (جیسے: "ابو بکر ولیّی علیکم" یا "خلفائی بعدی") تو وہی مفسرین اور علما اس کا مطلب لیتے ہیں جانشین یا خلیفہ۔

لیکن جب حضرت علیؑ کے لیے یہی لفظ استعمال ہوتا ہے تو اسے صرف دوستی، محبت یا قربت تک محدود کیا جاتا ہے۔

یہ ایک تأویلی تضاد (Interpretive Inconsistency) ہے جس پر غور و فکر کی شدید ضرورت ہے۔

3. قرائن اور سیاق و سباق کا تقاضا:

سیاق و سباق، زبان، وقت، جگہ اور نبی کا اندازِ خطبہ سب یہ بتاتے ہیں کہ یہاں:

مولا کا مطلب عام دوستی کا اعلان نہیں ہو سکتا، بلکہ نبی ص امت کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ "میں جس پر اختیار رکھتا ہوں، علی بھی اس پر وہی اختیار رکھتے ہیں"۔

4. علمی دعوت:

آپ نے جو گزارش کی ہے وہ انتہائی مہذب اور فکری انداز ہے: "اہل سنت برادران سے گزارش ہے کہ سوچ سمجھ کے اور مولا کے مانا کو ٹویسٹ نہ کریں..."

یہ ایک علمی دعوت ہے کہ ہم دلیل کی بنیاد پر، کھلے ذہن سے، اور تعصبات سے ہٹ کر ان مسائل پر غور کریں۔

خلاصہ:

"من کنت مولاه فعليٌّ مولاه" صرف دوستی کا اعلان نہیں بلکہ جانشینی کا اعلان ہے۔

غدیر کا مقام، موسم، موقع، اور نبی کا انداز — سب یہ ثابت کرتے ہیں کہ یہ ایک عام بات نہیں تھی۔

"مولا" کے معنی کو یکساں اصولوں سے سمجھنے کی ضرورت ہے — نہ کہ مخصوص موقعوں پر معنی بدل کر۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha