تحریر: مولانا ظہور مہدی قمی
خلاصہ:
دعا وہ عظیم شے ہے جو بندہ کو اس کے مولا و آقا اور خالق و مالک سے مرتبط و متصل کرنے کا اہم کام انجام دیتی ہے اور اسے اپنے بے نہایت رؤف و مہربان رب و معبود سے مناجات، درد دل اور راز و نیاز کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ خداوند متعال کے مقرب و معصوم عبد و ولی، فرزند رسول حضرت امام حسین علیہ السلام جو دعا کے مقام و مرتبہ سے بطور مکمل آگاہ و باخبر تھے،انھوں نے نہایت مقدس جگہ میدان عرفات میں انتہائی اہتمام و اخلاص کے ساتھ خداوند متعال بیشمار احسانات و انعامات کی طرف متوجہ ہوکر اور اپنے اور بنی نوع انسان نیز اس پر آشوب زمانہ کے احوال و کیفیات کو مدنظر قرار دے کر بارگاہ قاضی الحاجات اور محضر سامع الدعوات میں بانداز دعا اس طرح راز و نیاز کیا ہے کہ جس سے ہمیں اس عالم ہستی کے بہت سے حقائق سے آشنائی حاصل ہوتی ہے اور اپنے واحد و احد پروردگار کی معرفت اور اس کی نہایت گرانقدر عنایات و نوازشات کا ادراک ہوتا ہے۔ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی یہ مناجات جو دعائے عرفہ کے نام سے معروف ہے ، اس میں الہی و ربوبی معارف اور خدائی نعمات و احسانات کا تذکرہ اس انداز و اہتمام سے کیا گیا ہے کہ اس طرح دوسری دعاوں کے اندر کم دکھائی دیتا ہے۔ آنحضرت نے اس وقیع و رفیع دعا میں انسان کی ولادت سے پہلے ، دوران حمل اور اس کی تربیت و پرورش وغیرہ کے حالات و کیفیات کا ذکر اس طرح فرمایا ہے کہ جس سے خداشناسی، عالم شناسی، حیات شناسی اور انسان شناسی کا ایک مکمل نصاب سامنے آجاتا ہے۔ بلاشبہ یہ دعا الٰہی و ربوبی معارف، انسانی و بشری حقائق و کوائف اور خدائی آیتوں اور نعمتوں سے بھری اس کائنات کے اسرار و رموز کے انکشاف کا ایسا سمندر ہے کہ جس کےحسن و عمق کا اندازہ لگانا معصوم کے علاوہ کسی کے بس کی بات نہیں ہے، لیکن خداوند نصیر و قدیر کی مدد اور حضرات معصومین علیہم السلام کی چشم عنایت پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم نے اپنی علمی کم مائیگی کے باوجود " انسان شناسی" کے کچھ موتی اس عظیم و عمیق سمندر سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔
گر قبول افتد زھی عز و شرف
مقدمہ :
دعا در حقیقت عبد و معبود کے درمیان پائے جانے والے اس رابطہ کا نام ہے جسے خود بندہ بصد عجز و نیاز اپنے پیارے مالک و معبود کے ساتھ برقرار کرتا ہے۔
یہ اتنا حسین رابطہ ہے کہ جسے خداوند عز و جل نہایت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور خود اس نے اپنے بندوں کو یہ رابطہ برقرار کرنے کی ترغیب دی ہے نیز اس رابطہ سے انحراف کو استکبار سے تعبیر کرتے ہوئے انھیں دخول جہنم کی تہدید بھی فرمائی ہے جیساکہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ٱدۡعُونِيٓ أَسۡتَجِبۡ لَكُمۡۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسۡتَكۡبِرُونَ عَنۡ عِبَادَتِي سَيَدۡخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ۔(قرآن حکیم ، سورہ غافر، آیہ 60)
اور تمھارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ مجھ سے دعا کرو تاکہ تمھاری دعا کا جواب دوں ، بیشک وہ لوگ جو میری عبادت سے تکبر اختیار کریں گے وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں داخل ہوں گے۔
بلاشبہ دعا سے متعلق قرآن حکیم کی یہ آیہ کریمہ نہایت عظیم نکات و پیغامات کی حامل ہے ، جن میں سے چند یہ ہیں:
1۔ دعا کرنا بندہ کی ضرورت ہونے کے ہمراہ حکم الہی کی تعمیل بھی ہے۔
2۔ دعا اللہ عز وجل کی ایسی پسندیدہ عبادت ہے جس کی استجابت کا وعدہ خود اس نے فرمایا ہے۔
3۔ دعا سے انحراف اللہ تعالی کے مقابلہ میں استکبار کی علامت ہے جو اسے انتہائی ناپسند ہے۔
4۔ دعا سے گریز و اجتناب اتنا خطرناک ہے کہ انسان کو جہنم کا حقدار بنا دیتا ہے۔
5۔ اگر دعا جلدی مستجاب نہ ہو یا اس کا اثر ظاہر نہ ہو تو سمجھ لینا چاہیئے کہ ابھی اس کا قبول ہونا یا اس کے اثر کا ظاہر ہونا انسان کی مصلحت و منفعت میں نہیں ہے ، چونکہ جو اللہ قادر ہے وہ حکیم بھی ہے۔
دعائے عرفہ کا اجمالی تعارف :
دعائے عرفہ وہ عظیم الشان دعا ہے جو خداوند متعال کے ولئ مقرب و معصوم حضرت امام حسین علیہ السلام نے سن ساٹھ ہجری کے اواخر میں موسم حج کے موقع پر میدان عرفات میں انشاء فرمائی ہے۔
شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نےفاتیح الجنان میں لکھا ہے کہ:
غالب اسدی کے بیٹے بشر و بشیر نے روایت کی ہے کہ ہم روز عرفہ بوقت عصر آنحضرت کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ اپنے خیمہ سے اپنے اہل بیت ، اولاد اور شیعوں کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے اور پہاڑ کی بائیں طرف کھڑے ہونے کے بعد اپنا چہرہ مبارک کعبہ کی جانب کیا اور نہایت تذلل اور خضوع و خشوع کے ساتھ آپ نے اپنے ہاتھوں کو اس طرح بلند کیا اور پھیلایا کہ جیسے کوئی مسکین کھانا مانگتا ہے اور اس حالت میں یہ دعا( دعائے عرفہ) تلاوت فرمائی(قمی ، 1398ہ ش، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ ، ص418)
قابل ذکر ہے کہ اس مبارک دعا کے مضامین اور معارف اتنے بلند و عمیق ہیں کہ اسے اہل معرفت علما نے "منشور اعتقادی و عرفانی شیعہ" قرار دیا ہے۔
اس عظیم دعا میں خداشناسی ، جہاں شناسی اور انسان شناسی جیسے بہت سے تربیتی مضامین و معارف کو نہایت حسین و عمیق پیرایہ میں بیان کیا گیا ہے ، لیکن ان سب کا تفصیلی تو کیا اجمالی جائزہ لینا بھی اس مقالہ کی بساط سے باہر ہے، لہذا یہاں فقط " انسان شناسی" سے متعلق کچھ ایسے اصول بیان کرنے کی کوشش کی جائے گی جن کا استخراج اس مبارک دعا سے ہوتا ہے۔
انسان شناسی کا مفہوم و مطلب :
انسان یا خود شناسی کا مفہوم و مطلب کیا ہے ؟
اس سلسلہ میں علامہ محقق ومتفکر شہید مرتضی مطہری رحمت اللہ علیہ کہتے ہیں کہ :
خود شناسی کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے واقعی مقام و مرتبہ کو پہچانے ، یہ سمجھے کہ معرفت کے ذریعہ وہ فرشتوں سے بھی آگے بڑھ سکتا ہے ، وہ یہ محسوس کرے کہ وہ آزاد و مختار اور اپنے اور دوسروں کے سلسلہ میں مسئول ہے اور اسے اس دنیا کو آباد کرنے اور بہتر بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے ، وہ الہی امانتدار ہے اور ناگہانی و اتفاقی طور پر اسے یہ برتری نہیں دی گئی ہے کہ وہ ظلم و استبداد کر کے سب چیزوں پر قبضہ کر لے اور اپنے لئے کسی قسم کی تکلیف اور ذمہ داری کا قائل نہ ہو۔(مطہری ، 1371ش ، مجموعہ آثار ، ج 2 ، ص 283)
انسان شناسی کی ضرورت و اہمیت :
ہم دعائے عرفہ کے تناظر میں انسان شناسی کے چند اصول بیان کرنے سے پہلے انسان شناسی کی ضرورت و اہمیت پر کچھ روشنی ڈالنا مناسب سمجھتے ہیں:
1۔انسان شناسی اس لئے اہم اور ضروری ہے کہ یہ شناخت و معرفت ، انسانی زندگی کے مقصد و ھدف کو معین کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور اگر انسانی زندگی کا ھدف معلوم و معین ہوجائے تو انسان اپنی تمام تر سرگرمیوں اور فعالیتوں کا رخ اس کی طرف موڑ سکتا ہے اور حقیقی سعادت و کمال تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
2۔ اگر انسان اپنے وجودی و تخلیقی خصوصیات کی صحیح طور پر معرفت نہ رکھتا ہو تو وہ اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں ایسے انحرافات میں گرفتار ہو جائے گا جو اسے نہایت مضر و مہلک خساروں سے دوچار کئے بغیر نہیں چھوڑیں گے۔
3۔ انسانی علوم کا موضوع و محور " انسان" ہے ، اس لئے ضروری ہے کہ ان علوم کے جملہ مباحث انسان کی حقیقت اور اس کی واقعی سعادت کو مدنظر قرار دے کر پیش کئے جائیں۔
دعائے عرفہ میں انسان شناسی کے اصول :
یہاں دعائے عرفہ سے اخذ کرتے ہوئے انسان شناسی کے چند ایسے اصول ذکر کئے جارہے ، جن کی بدولت انسان اپنی حقیقت و حیثیت کو پہچان کر اپنی حیات و زندگی کے ھدف و مقصد کی طرف بآسانی متوجہ ہو سکتا ہے اور پھر اپنے جملہ اعمال و افعال کا رخ اس کی طرف موڑ سکتا ہے تاکہ کمال مطلوب اور حقیقی سعادت سے بہرہ مند ہو سکے اور وہ در حقیقت اس کے خالق و مالک اور سید و آقا یعنی اللہ سبحانہ و تعالی کی عبودیت و بندگی ، اس کی قربت و نزدیکی اور رضا و خوشنودی ہے :
1۔ تخلیقی حقیقت کی طرف بھر پور توجہ دینا :
حضرت امام حسین علیہ السلام نے دعائے عرفہ میں قبل از وجود انسان کی اس حیثیت کی طرف توجہ دی ہے کہ جب وہ خلاق عالم عز و جل کے خلق کرنے سے پہلے ذکر کے قابل بھی نہیں تھا ، جیسا کہ اس دعا کے اس فقرہ سے ظاہر و ثابت ہے : "اِبْتَدَاْتَنی بِنِعْمَتِک قَبْلَ اَنْ اَکونَ شَیئاً مذْکُورا " (قمی ، 1398ش، مفاتیح الجنان ، دعائے عرفہ ، ص 419)
یعنی تونے اپنے انعام و اکرام سے میرے وجود کی ابتدا اس سے پہلے فرمائی کہ میں کوئی قابل ذکر شے قرار پاؤں۔
حضرت امام حسین علیہ السلام خلاق موجودات کا سب سے پہلا انعام و اکرام انسان کے اوپر اس ذات بے نیاز کی اس عنایت و توجہ کو قرار دیتے ہیں جو اس نے انسان کے اوپر قبل از وجود فرمائی ہے۔
اگر ہم ذرا سی توجہ کریں تو یہ سمجھ سکتے ہیں کہ سرکار سید الشہداء علیہ السلام کی یہ فرمائش قرآن حکیم کے سورہ انسان کی اس آیہ کریمہ سے ماخوذ ہے : "هَلْ أَتی عَلَی الْإِنسانِ حینٌ منَ الدَّهْرِ لَمْ یکنْ شَیئاً مَذْکورا"۔(قرآن حکیم ، سورہ انسان ، آیہ 1)
علامہ محمد حسین طباطبائی طاب اللہ ثراہ فرماتے ہیں کہ :
یہ آیہ کریمہ اس زمانہ کے لمحات کی طرف اشارہ کرتی ہے جب انسان ، قابل ذکر شے نہیں تھا ، برخلاف افلاک ، کرات اور زمین جیسے تمام موجودات کے کہ وہ موجود اور قابل اشارہ تھے۔(طباطبائی ، 1417ھ ق ، المیزان ، ج20 ، ص 120)
2۔مواد و مراحل تخلیق میں تدبر کرنا :
سرکار سید الشہداء علیہ السلام نے اس مبارک دعا میں نعمت تخلیق کے ذکر کے بعد مواد تخلیق کی طرف توجہ مبذول کی ہے اور آپ نے اس کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے:
"وخلقتنی من تراب"( قمی ، 1398 ش ، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ ، ص419 )اس فقرہ میں انسانی خلقت کے پہلے عنصر یعنی "خاک اور مٹی" کا ذکر کیا گیا ہے اور خاک خداوند عز و جل کی وہ باعظمت مخلوق ہے کہ جو بہت سے حیاتی منابع و ذخائر کا سر چشمہ ہے ، تمام نباتات پیڑ پودوں اور سارے زندہ موجودات نے مٹی ہی سے قوام حاصل کیا ہے اور تمامتر گرانبہا معادن مٹی ہی کے دل میں چھپائے گئے ہیں ،المختصر یہ کہ خاک انواع و اقسام کے برکات کا منبع اور خلقت انسانی کے لئے اس جہان مادی میں ایک نہایت شائستہ مادہ و عنصر ہے۔(مکارم شیرازی ، 1374 ھ ش ، تفسیر نمونه، ج 19، ص 339، 340)۔
اگر انسان اپنی خلقت کے اس پہلے عنصر پر اس زاویہ سے نگاہ کرلے تو دل سے اپنے خالق و مالک کی عظمت کے سامنے سجدہ کئے بغیر نہیں رہے گا۔
اس کے بعد فرزند رسول نے انسانی خلقت کے باقی مراحل کو اس طرح بیان کیا ہے:
"فلَمْ اَزَلْ ظاعِناً مِنْ صُلْبٍ اِلی رَحِمٍ فی تَقادُمٍ مِنَ الاْیامِ الْماضِیةِ وَالْقُرُونِ الْخالِیةِ... فابْتَدَعْتَ خَلْقی مِنْ مَنِی یمْنی وَاَسْکنْتَنی فی ظُلُماتٍ ثَلاثٍ بَینَ لَحْمٍ وَدَمٍ وَجِلْدٍ» (قمی، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ ، ص 419 )
اس عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ :
ہمیشہ میں(انسان) پہلے زمانوں اور گذشتہ صدیوں کے دوران صلب سے رحم کی طرف عالم سفر اور حالت نقل و حرکت میں رہا ، اس کے بعد تو نے منی سے مجھے خلق کیا اور تین تاریکیوں گوشت ، خون اور کھال کے درمیان مجھے ساکن فرمایا۔
امام علیہ السلام نے انسانی تخلیق کے مرحلے میں جن تین تاریکیوں کا ذکر کیا ہے وہ قرآن حکیم کی اس آیہ کریمہ سے ماخوذ ہے:
«یخْلُقُکمْ فِی بُطُونِ أُمَّهاتِکمْ خلْقاً مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُماتٍ ثَلاثٍ ذلِکمُ اللَّه» (سورہ زمر، آیہ 6)
البتہ اس مقام پراہل تفسیر نے تین تاریکیوں سے تاریکی شکم ، تاریکی رحم اور تاریکئ تخمدان کو مراد لیا ہے ۔(ابن کثیر 1419 ھ ق ، تفسیر القرآن العظیم، ج 7 ، ص 76)
مقام غور و فکر ہے کہ عام طور پر دنیا کے مصورین مکمل نور و روشنی کے عالم میں نقش و نگار اور تصویر بنانے کا کام انجام دیتے ہیں لیکن خالق حقیقی نے انسان کے جسم اور شکل و صورت گری کا کام تین ضخیم اندھیروں کے درمیان انجام دیا ہے اور ان تین تاریکیوں کے اندر اس کی ساخت و ساز کا عمل اس قدر حسن و خوبصورتی سے پایہ تکمیل تک پہچایا ہے کہ قرآن مجید نے جس کا قصیدہ "لَقَدۡ خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَٰنَ فِيٓ أَحۡسَنِ تَقۡوِيمٖ" (سورہ تین ، آیہ 4) کہکر پڑھا ہے۔
بلاشبہ انسان کی اس شگفت انگیز انداز میں خلقت ، خالق آدم و عالم کا وہ انوکھا کارنامہ ہے کہ جو ہمیں اس کی اس عظیم قدرت ، علم ، ربوبیت ، تدبیر اور حکمت کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ جو فقط اور فقط اسی کی ذات اقدس سے مختص ہے۔
مولا امام حسین علیہ السلام انسان کی نہایت عجیب و حسین خلقت کے ان مراحل کو پیش کر کے اسے " الہی و ربوبی مقام شہود" تک پہچانا چاہتے ہیں اور بالکل اسی طرح اسے اللہ عز و جل کی معرفت ، محبت اور قربت کی حلاوت سے سرشار کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح قرآن حکیم " خلقت جنین" کے مراحل کے گہرے مطالعہ کی دعوت دے کر انسان کو معرفت الہی سے سرفراز کرنا چاہتا ہے۔
3۔کیفیت آفرینش کے بارے میں گہرائی کے ساتھ سوچنا :
دعائے عرفہ میں حضرت امام عالی مقام نے صرف مواد و مراحل تخلیق ہی کا نہیں بلکہ کیفیت تخلیق و آفرینش کا بھی ذکر کیا ہے چنانچہ ایک مقام پر آپ نے فرمایا ہے :
" فجعلتنی خلقا سویا رحمة بی "( قمی ، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ ، ص 424) یعنی پس تونے مجھے اپنی رحمت سے معتدل مخلوق قرار دیا ہے۔
اس فقرہ میں کلمہ " سویا " استعمال ہوا ہے اور اس کے معنی سے متعلق لغات قرآنی کے ماہر علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ :
"سوی" کیفیت و اندازہ میں افراط و تفریط سے دوری کو کہتے ہیں۔(اصفہانی ، 1412 ق ، مفردات ، ص 440)
جو اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ عز و جل نے انسانی جسم کے ہر عضو کو نہایت موزوں، متناسب ، منظم اور ہماہنگ قرار دیا ہے۔(زمردیان ، 1380 ش ، وصال العارفین ، ص 387)
اسی دعا کے ایک دوسرے مقام پر فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے :
" فعدلت فطری"(قمی ، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ، ص424) یعنی تونے میری فطرت کو سالم و معتدل قرار دیا ہے۔
یہاں فطرت سے مراد طبیعت اور اعتدال سے قوہ غضبیہ و شہویہ اور انسان کے افکار ، باطنی غرائز ، خصائص اور اخلاق و کردار کا معتدل ہونا مراد ہے۔(بستان آبادی ، 1379 ش ، شرح دعائے عرفہ ، ص 186)
4۔ الٰہی امن و تحفظ پر خوب دھیان دینا :
خداوند متعال تین گھپ اندھیروں کے مابین بہترین انسانی جسم و اندام اور خوبصورت بشری شکل و صورت کی ساخت و پرداخت کرنے کے بعد اس انسان کو اسی محدود و تاریک فضا میں جو امن و تحفظ عطا کرتا ہے ، وہ بھی انتہائی حیرت انگیز شے ہے ، اس نہایت محدود ظلمت کدہ میں اس ضعیف و کمزور موجود کا ہر قسم کے آفات و بلیات اور زوائد و نقصانات سے محفوظ و مامون رہ کر سانس لینا اور اپنی ضروری و بنیادی مخصوص غذا حاصل کرکے متناسب رشد حاصل کرنا یہ سب کسی معجزہ سے کم نہیں ہے۔
بلاشبہ یہ خلاق قدیر و حکیم کی قدرت ، حکمت اور تدبیر کے بغیر ممکن نہیں ہے اور یہ ظریف و عظیم اہتمام اس مدبر حقیقی کے علاوہ قطعا کسی اور کے بس کی بات نہیں ہے۔
مولا نے خداوند حفیظ و کریم کے اسی ظریف و عظیم "اہتمام امن و تحفظ" کو " آمنا لریب المنون واختلاف الدھور والسنین"(قمی ، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ، ص 419) اور " وکلاتنی من طوارق الجان و سلمتنی من الزيادة والنقصان" (قمی، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ، ص429) کے خوبصورت پیرایہ میں بیان فرمایا ہے۔
5۔ متنوع اور مسلسل رزق پر غور و فکر کرنا :
رزاق عظیم و متین نے شکم مادر اور گہوارہ سے لے کر آخری سانس تک ہمارے حالات ، کیفیات ، اوقات اور ضروریات کے مطابق نہایت مفید ، متنوع ، متناسب اور خوش ذائقہ رزق اور غذاوں کا جو مسلسل اہتمام و انتظام فرمایا ہے ، واقعا اس پر اس کا جتنا شکر و سپاس ادا کیا جائے ، کم ہے۔
خداوند رزاق کے اسی عظیم اہتمام و احسان کو یاد کر کے امام عالیمقام نےاحساس شکر و سپاس اور دریائے عشق و محبت الہی میں ڈوب کر اس طرح رطب اللسانی فرمائی ہے:
"وَرَزَقتَنی مِنَ الْغِذآءِ لَبَناً مَرِیاً"(قمی ، مفاتیحالجنان، دعائے عرفہ، ص419) ۔۔۔ "وَمَا انْتَسَجَ عَلی ذلِک اَیامَ رِضاعی"(حوالہ سابق ، ص421) ۔۔۔«یا مَنْ رَزَقَتَنی فی کبَری "(حوالہ سابق،ص 427)۔۔۔۔"رَب بِما اَطْعَمْتَنی وَ سَقَیتَنی"( حوالہ سابق ، ص 424) ۔۔۔۔ "وَرَزَقْتَنی مِنْ اَنواعِ الْمَعاش وَصنُوفِ الرِّیاش"( حوالہ سابق، ص 420)
نتیجہ:
اس مقالہ کے نتیجہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام نے میدان عرفات میں دعائے عرفہ کے نام سے جو عظیم و عمیق دعا انشاء فرمائی ہے وہ واقعا خداوند مہربان کی ذات اقدس و اعلی سے قوی ارتباط و وابستگی کا عظیم وسیلہ ہونے کے ساتھ الہی و دینی اصول و معارف کا ایک ایسا سمندر ہے کہ جس کی گہرائی و گیرائی تک حضرات معصومین علیہم السلام کے علاوہ کما حقہ کوئی رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔
البتہ مولا نے اس دعا میں بہت سے دینی اصول ، معارف ، تعلیمات و ہدایات کے ہمراہ انسان شناسی کے اصول کی طرف بھی اشارے فرمائے ہیں ، کہ جن کی آگاہی اور شناخت انسان کو خدا شناسی جیسی گرانقدر نعمت و دولت عطا کر کے اسے اس کے حقیقی کمال و سعادت تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوتی ہے اور بلاشبہ اس کی حقیقی سعادت و خوشبختی خداوند متعال کی ھمیشہ عبودیت و بندگی ، طاعت و فرمانبرداری اور اس کی رضا کے حصول میں غرق رہنا ہے ، چونکہ عبادت و بندگئ خداوندی سے متعلق قرآن حکیم کا ارشاد ہے :
"وَٱعۡبُدۡ رَبَّكَ حَتَّىٰ يَأۡتِيَكَ ٱلۡيَقِينُ"(سورہ حجر ، آیہ 99)
یعنی اپنے پروردگار کی عبادت کرو موت آنے تک۔
پھر سورہ توبہ میں اللہ سبحانہ و تعالی کی رضا و خوشنودی کے حوالہ سے ارشاد ہواہے:
"۔۔۔ وَرِضۡوَٰنٞ مِّنَ ٱللَّهِ أَكۡبَرُۚ ذَٰلِكَ هُوَ ٱلۡفَوۡزُ ٱلۡعَظِيمُ" (سورہ توبہ ، آیہ 72)۔
۔۔۔اور اللہ کی رضا و خوشنودی سب سے بڑی شے ہے اور وہی عظیم کامیابی ہے۔
آخرکلام میں خداوند رؤف و مہربان سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے لطف و کرم سے ہمارے نفس کی عمیق شناخت عنایت فرمائے چونکہ اس شناخت و معرفت کا خوشگوار نتیجہ خود اس کی ذات اقدس کی معرفت ہے جیساکہ سرکار رسالتماب صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اس حدیث مبارک میں وارد ہوا ہے:
"من عرف نفسہ فقد عرف ربہ" یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا ، اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ (تمیمی آمدی ، 1410 ھ ق ، غرر الحکم ، ص 588)
حوالہ جات:
1۔ قرآن حکیم۔
2۔ ابن کثیر، اسماعیل بن عمرو ، 1419ہ ق ، تفسیر القرآن العظیم. بیروت : دار الکتب العلمیہ۔
3۔اصفهانی راغب ، حسین بن محمد.1412ہ ق ، مفردات ألفاظ القرآن. بیروت: دارالقلم- الدار الشامیہ۔
4۔ بستان آبادی مدرس، محمد باقر 1379ہ ش ، شرح دعای عرفه. تهران: دارالکتب الاسلامیہ:
5۔ تمیمی آمدی، عبدالواحد بن محمد، 1410ہ ق، غرر الحکم و درر الکلم، تحقیق و تصحیح: سید مہدی رجائی، قم : دارالکتب الاسلامیہ۔
6۔زمردیان، احمد ، 1380ہ ش، وصال العارفین. تهران: دفتر نشر فرهنگ اسلامی۔
7۔ شیرازی ، ناصر مکارم ، 1374ہ ش، تفسیر نمونہ، تہران: دار الکتب الإسلامیہ۔
8۔طباطبائی، محمد حسین ، 1417ہ ق ، المیزان فی تفسیر القرآن، قم: دفتر انتشارات اسلامی جامعہ مدرسین حوزه علمیہ۔
9۔ قمی ، شیخ عباس ، 1398ہ ش ، مفاتیحالجنان ، قم : انتشارات زائر آستان مقدس۔
10۔ مطہري، مرتضي،1371 ہ ش ، مجموعہ آثار، قم: انتشارات صدرا۔









آپ کا تبصرہ