جمعرات 25 دسمبر 2025 - 08:00
کوفہ اور کوفیوں کا مقام؛ رہبرِ معظم کی نگاہ میں!

حوزہ/ ضمیر فروشوں نے تاریخ میں ہمیشہ سرفروشوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرفروشوں کے مقدر میں تہمتیں، الزام تراشیاں، زندان اور دار آئے ہیں، جبکہ ضمیر فروش اور چڑھتے سورج کے پجاری ہمیشہ مراعات، القابات، زر و جواہر اور دیگر سہولتیں سمیٹتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں تاریخِ اسلام میں سب سے زیادہ ظلم شہرِ کوفہ اور اہلِ کوفہ پر ہوا ہے۔

تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی

حوزہ نیوز ایجنسی| ضمیر فروشوں نے تاریخ میں ہمیشہ سرفروشوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ سرفروشوں کے مقدر میں تہمتیں، الزام تراشیاں، زندان اور دار آئے ہیں، جبکہ ضمیر فروش اور چڑھتے سورج کے پجاری ہمیشہ مراعات، القابات، زر و جواہر اور دیگر سہولتیں سمیٹتے رہے ہیں۔ اسی تناظر میں تاریخِ اسلام میں سب سے زیادہ ظلم شہرِ کوفہ اور اہلِ کوفہ پر ہوا ہے۔

امام علیؑ کی شہادت کے بعد کوفہ اور کوفیوں کو منظم انداز میں بری طرح بدنام کیا گیا۔

ہم نے تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ کوفہ 16 یا 17 ہجری میں حضرت عمر کے حکم پر آباد کیا گیا۔ ایران فتح کرنے والے اسلامی لشکر کے سپہ سالار سعد بن ابی وقاص (جو عمر بن سعد کے والد تھے) نے اس شہر کی بنیاد رکھی۔ ایران فتح کرنے والا اسلامی لشکر، جو تقریباً سترہ ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا، یہاں لا کر بسایا گیا۔

کوفہ کے باشندے ابتدا ہی سے پانچ مختلف گروہوں میں منقسم تھے۔

ان میں ایک گروہ حقیقی شیعوں پر مشتمل تھا، جو تاریخ میں اپنی بے مثال فداکاری، استقامت اور شجاعت کی وجہ سے مشہور ہے۔

حوالہ(صلح امام حسن،ایت اللہ شیخ راضی ال یاسین، مترجم سید علی خامنہ ای)

کوفہ، کوفیوں اور وہاں بسنے والے شیعوں کے بارے میں رہبرِ معظم اپنی کتاب "طرح کلی اندیشہ اسلامی در قرآن" میں فرماتے ہیں:

“کوفہ کا شمار تاریخِ اسلام کے عجیب شہروں میں ہوتا ہے۔ کوفہ کے بارے میں آپ کے ذہن میں مختلف قسم کی باتیں آتی ہوں گی۔ اہلِ کوفہ نے امام علیؑ کے ساتھ کھڑے ہو کر کئی جنگیں لڑیں۔ جنگِ جمل، جنگِ نہروان اور جنگِ صفین میں یہی کوفی نظر آتے ہیں۔”

رہبرِ معظم مزید فرماتے ہیں کہ تین عظیم جنگوں میں بے مثال فداکاری دکھانے کے باوجود، بعض مواقع پر امام علیؑ کو کوفیوں سے شکوہ بھی رہا۔ تاہم امام علیؑ کی شکایات شیعوں سے نہیں بلکہ ان عام مسلمانوں سے تھیں جو سستی، کمزوری اور بے عملی کا شکار تھے۔

جیسا کہ امامؑ نے فرمایا:

“جب میں تمہیں جنگ کے لیے بلاتا ہوں تو تم جواب نہیں دیتے۔”

رہبرِ معظم فرماتے ہیں:

“پھر یہی وہ شہر تھا جس کی ممتاز، بابرکت اور بافضیلت شخصیات نے امام حسینؑ کو خطوط لکھے کہ ہمارا کوئی امام یا پیشوا نہیں ہے، آپ تشریف لے آئیں۔”

رہبرِ معظم کے مطابق:

“سلیمان بن صرد خزاعی، حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ جیسے افراد سب یہی کہہ رہے تھے۔”

آج ہمارے معاشرے میں ایک طبقہ ایسا ہے جو نہ صرف کوفہ کے شیعوں کی بار بار توہین کرتا ہے بلکہ حضرت سلیمان بن صرد خزاعی جیسے عظیم مجاہد، اور تحریکِ توابین جیسے تاریخی قیام کو بھی نظامِ امامت کی توہین سمجھتا ہے، جبکہ رہبرِ معظم ان کے بارے میں فرماتے ہیں:

“کچھ عرصے بعد انہی لوگوں کے ہاتھوں ایک ایسا عظیم تاریخی واقعہ رونما ہوا جس کا شمار تاریخِ اسلام کے نہایت نادر اور پُرشکوہ واقعات میں ہوتا ہے، اور وہ واقعہ توابین کا ہے۔”

آج سوشل میڈیا پر گرم لحافوں میں بیٹھ کر ان عظیم انسانوں کی توہین کرنے میں وہ لوگ بھی پیش پیش ہیں جو معاشرے میں واضح ظلم و ناانصافی کو ظلم کہنے کی جرات تک نہیں رکھتے۔

شہرِ کوفہ کے باشندوں کے بارے میں رہبرِ معظم فرماتے ہیں:

“ایک طرف کوفہ میں انسانی عظمت، شجاعت اور ایثار کے حیران کن مظاہر نظر آتے ہیں، اور دوسری طرف یہی شہر ایسے افراد پر بھی مشتمل تھا جنہوں نے سستی، کمزوری اور بزدلی کا مظاہرہ کیا۔”

رہبرِ معظم سوال اٹھاتے ہیں: کیا کوفی دو رُخے تھے؟

کیا اہلِ کوفہ منافق تھے؟

اس کے جواب میں رہبرِ معظم فرماتے ہیں:

“کوفہ وہ شہر ہے جس کے افراد کی تربیت مولا علیؑ کے متین، بلیغ اور گہرے کلمات کے زیرِ سایہ ہوئی۔ آپؑ کی تعلیمات نے ان شخصیات میں نکھار پیدا کیا، اسی لیے تاریخِ تشیع کے اکثر عظیم، شجاع اور مجاہد افراد کا تعلق اسی شہر سے ہے، حتیٰ کہ ان کی تعداد مدینہ سے تعلق رکھنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔ اس کی بنیادی وجہ امیرالمؤمنینؑ کے دورِ خلافت میں دی جانے والی چند سالہ تعلیمات اور ہدایات ہیں۔”

مولا علیؑ کا اس شہر پر حکومت کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ آپؑ نے کوفہ کو شیعیت کے گہوارے اور شیعی صفات و فضائل کے مرکز میں تبدیل کر دیا تھا۔

البتہ رہبرِ معظم کے بقول، یہ ضروری نہیں کہ جس مقام پر اعلیٰ صفات اور فضیلتیں جنم لیں، وہاں رہنے والے تمام افراد بھی لازماً ان صفات کے حامل ہوں۔

رہبرِ معظم فرماتے ہیں کہ ہر پُرجوش اور بیدار معاشرے میں لوگوں کا صرف ایک محدود طبقہ اس جوش و خروش کا حقیقی ترجمان ہوتا ہے، جبکہ باقی افراد اکثر حالات کے تقاضوں کے مطابق چڑھتے سورج کی پرستش کرنے لگتے ہیں۔

رہبرِ معظم کے مطابق، کوفہ میں بھی ایسے ہی ایک محدود مگر مضبوط اور پاکیزہ گروہ کی موجودگی تھی، جسے ہم نے کوفہ کے پانچ گروہوں میں “شیعہ گروہ” کے عنوان سے بیان کیا ہے۔

اس کے علاوہ کوفہ کے عام لوگ بھی دیگر شہروں کے عوام کی طرح ہی تھے۔

رہبرِ معظم کے بقول:

“کوفہ میں موجود یہی مختصر مگر بااثر گروہ اس دور کی ظالم حکومتوں کے لیے خوف اور وحشت کا سبب تھا۔ اسی لیے وہ حکومتیں بدترین کارندوں، گھٹیا ترین گورنروں، پست ترین انسانوں اور اپنے جلادوں کو اس شہر میں تعینات کرتی تھیں۔”

یہ ظالم حکمران عوام کے خلاف جابرانہ طرزِ عمل اپناتے، زہریلا پروپیگنڈا کرتے، خوف، دباؤ اور مایوسی کی فضا قائم رکھتے، اور یوں اہلِ کوفہ کو اس حال تک پہنچا دیتے کہ وہ لاشعوری طور پر برائیوں اور پستیوں کی طرف مائل ہو جائیں۔

رہبرِ معظم کے مطابق اہلِ کوفہ کے ساتھ یہ سلوک اس لیے کیا جاتا تھا کہ دیگر شہروں کے برخلاف یہاں ایک باشعور، مزاحم اور ممتاز شیعہ گروہ موجود تھا۔

ظالم حکومتوں کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان پاکیزہ، مجاہد اور باضمیر افراد کی وہ معاون خصوصیات ختم کر دیں جن کے ذریعے وہ حق کے لیے قیام کر سکتے تھے۔ اسی لیے زہریلا پروپیگنڈا، معاشی دباؤ، خوف اور جبر کے مختلف حربے استعمال کیے جاتے تھے۔

مختصر یہ کہ مختلف ذرائع سے اہلِ کوفہ پر دباؤ ڈالا جاتا رہا، جبکہ دوسرے اسلامی شہروں میں اس نوعیت کے حالات موجود نہ تھے۔ اسی وجہ سے جابر اور فریب کار حکومتوں کے اثر میں آ کر کوفہ کے عام لوگوں سے بعض ناشائستہ اعمال سرزد ہوئے، مگر اس کی بنیاد یہ نہیں تھی کہ اہلِ کوفہ فطری طور پر برے لوگ تھے۔

اب اس شہر میں، جہاں مختلف الخیال گروہ آباد تھے اور جن میں ایک طاقتور شیعہ گروہ بھی موجود تھا، اس شیعہ طاقت کو کچلنے کے لیے حجاج جیسے سفاک افراد کو کیسے مسلط کیا گیا، اور لوگوں نے یہ سب کیوں برداشت کیا—اس کو رہبرِ معظم کے افکار کی روشنی میں سمجھنے کے لیے اگلی قسط کا انتظار کیجیے۔

حوالہ

1۔ طرزِ تفکر اسلامی در قرآن، مقام معظم رہبری سید علی خامنہ ای

2۔ صلح امام حسن، شیخ راضی آل یاسین، مترجم رہبر معظم

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha