تحریر: طلال علی مہدوی
حوزہ نیوز ایجنسی| فلسطین، اپنی تاریخی اور مذہبی اہمیت کے ساتھ ساتھ عالمی اقتصادی منظرنامے پر بھی ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے؛ اگرچہ اس کی اپنی معیشت کو طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام اور محدود وسائل کا سامنا رہا ہے، لیکن اس کی تزویراتی جغرافیائی حیثیت، ممکنہ قدرتی وسائل اور علاقائی تجارت میں مستقبل کا کردار اسے عالمی طاقتوں اور اقتصادی حلقوں کے لیے توجہ کا مرکز بنارہا ہے۔
تزویراتی جغرافیائی اہمیت:
فلسطین بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع ہے اور ایشیا، افریقہ اور یورپ کے اتصال پر موجود ہے۔ یہ اسے عالمی تجارت کے لیے ایک اہم گزرگاہ ہے۔ تاریخی طور پر، یہ تجارتی راستوں کا مرکز رہا ہے، اور مستقبل میں بھی علاقائی اور بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک اہم رابطہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کی بندرگاہیں بحیرہ روم تک رسائی فراہم کرتی ہیں، جو عالمی بحری تجارت کے لیے ایک اہم راستہ ہے۔
ممکنہ قدرتی وسائل:
فلسطین کے ساحلی علاقوں میں قدرتی گیس کے اہم ذخائر کی موجودگی کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اگر ان ذخائر کو تجارتی طور پر قابل عمل طریقے سے نکالا جا سکے، تو یہ نہ صرف فلسطینی ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتے ہیں بلکہ عالمی توانائی کی منڈی پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں گیس کی دریافت نے پہلے ہی علاقائی اقتصادی اور سیاسی حرکیات کو تبدیل کر دیا ہے، اور فلسطین بھی اس کا حصہ بن سکتا ہے۔
علاقائی تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع:
فلسطین علاقائی اقتصادی انضمام میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ اردن، مصر اور دیگر پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے قریبی اقتصادی روابط قائم ہو سکتے ہیں، جس سے پورے خطے میں تجارت اور سرمایہ کاری کو قابو میں رکھا جا سکتا ہے۔ فلسطینی افرادی قوت، جو کہ نسبتاً تعلیم یافتہ ہے، علاقائی ترقی کے لیے ایک اہم اثاثہ ثابت ہو سکتی ہے۔
مسلم محققین کا نقطۂ نظر:
مسلم محققین فلسطین کی اقتصادی اہمیت کو اس کی تاریخی اور مذہبی حیثیت سے جوڑ کر دیکھتے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ خطہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ایک مقدس سرزمین ہے بلکہ مستقبل میں مسلم دنیا کی اقتصادی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
ڈاکٹر عماد الدین خلیل اپنی متعدد تصانیف میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین ہمیشہ سے مسلم دنیا کا ایک اہم حصہ رہا ہے اور اس کی اقتصادی خوشحالی پورے خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی۔
یوسف القرضاوی نے بھی اپنے مختلف فتاویٰ اور تحریروں میں فلسطین کی اقتصادی خود کفالت کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے اور اسے مسلم دنیا کی ذمہ داری قرار دیا ہے۔
غیر مسلم محققین اور تجزیہ کاروں کا نقطۂ نظر:
غیر مسلم محققین اور اقتصادی تجزیہ کار فلسطین کی اقتصادی اہمیت کو عالمی تناظر میں دیکھتے ہیں۔
برنارڈ لیوس اپنی تاریخی تحقیقات میں فلسطین کی جغرافیائی اہمیت اور تجارتی راستوں پر اس کے کنٹرول کو ماضی میں عالمی طاقتوں کے لیے کشش کا باعث قرار دیتے ہیں۔
نوم چومسکی اپنے سیاسی اور اقتصادی تجزیوں میں اس بات پر زور دیتے ہیں کہ فلسطین کے وسائل اور اس کی تزویراتی حیثیت ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے مفادات کا مرکز رہی ہے۔
عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) کی رپورٹس میں فلسطین کی عالمی اقتصادی ترقی کیلئے اہمیت اور رکاوٹوں کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ ان رپورٹس میں ایک جامع عالمی اقتصادی ترقی کے لیے سیاسی استحکام اور فلسطین کی علاقائی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
رینڈ کارپوریشن کی متعدد تحقیقات مشرق وسطیٰ میں موجود اقتصادی فوائد کا تجزیہ کرتی ہیں اور اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ کس طرح ایک فلسطین پورے عالمی طاقتوں کے لیے اقتصادی قبضے کا سبب بن سکتا ہے۔ ان تحقیقات میں تجارت اور سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے۔
مستند تحقیقات اور ریسرچ پیپرز:
"The Economic Costs of the Israeli-Palestinian Conflict" از Rand Corporation: یہ تحقیق تنازعے کے اقتصادی نقصانات کا تفصیلی جائزہ پیش کرتی ہے اور فلسطین پر قبضے کی صورت میں ممکنہ اقتصادی فوائد کو اجاگر کرتی ہے۔
"Palestine Economic Monitor" از World Bank: یہ باقاعدگی سے عالمی معیشت کی صورتحال کا جائزہ پیش کرتا ہے اور اس کی ترقی کے لئے فلسطین کہ ضرورت اور اس مشن میں چیلنجز پر روشنی ڈالتا ہے۔
مختلف تعلیمی جرائد جیسے "Middle East Policy", "Journal of Palestine Studies", اور "International Journal of Middle East Studies" میں فلسطین کی عالمی اقتصادی اہمیت پر متعدد تحقیقی مقالات شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان مقالات میں مختلف زاویوں سے فلسطین کی اقتصادی حرکیات کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
یونائیٹڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈویلپمنٹ (UNCTAD) کی رپورٹس بھی فلسطینی کے عالمی تجارت پر اثرات کا جائزہ پیش کرتی ہیں۔
خلاصہ:
فلسطین، اپنی موجودہ اقتصادی مشکلات کے باوجود، عالمی اقتصادی منظرنامے پر ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ اس کی تزویراتی جغرافیائی حیثیت، ممکنہ قدرتی وسائل، اور علاقائی تجارت میں مستقبل کا کردار اسے عالمی طاقتوں اور اقتصادی حلقوں کے لیے دلچسپی کا مرکز بناتا ہے۔ مسلم اور غیر مسلم محققین اس بات پر متفق ہیں کہ فلسطین پر حکومت علاقائی اقتصادی مرکز میں تبدیل کر سکتا ہے، جس سے نہ صرف حکمران ملک یا حکومت کو فائدہ پہنچے گا بلکہ عالمی تجارت اور سرمایہ کاری پر بھی قبضے کے مواقع پیدا ہوں گے۔ مستند تحقیقات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ فلسطین کی اقتصادی ترقی پورے مشرق وسطیٰ کے لیے استحکام اور خوشحالی کا باعث بن سکتی ہے۔









آپ کا تبصرہ