پیر 28 اپریل 2025 - 11:07
نفرتوں کا بازار گرم کرنے والے سیاستدان!

حوزہ/دنیا بھر میں سیاست ہمیشہ سے ایک اہم شعبہ رہی ہے؛ اگر اسے خلوصِ نیت، عدل و انصاف اور خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت اپنایا جائے تو یہ ایک نہایت قابلِ تحسین عمل ہے اور بعض اوقات تو عبادت کا درجہ بھی حاصل کر لیتی ہے، لیکن جب سیاست کا مقصد اقتدار کی ہوس، ذاتی مفادات اور فرقہ واریت کو فروغ دینا ہو تو یہی سیاست فتنہ و فساد کا سبب بن جاتی ہے۔

تحریر: مولانا سید اعظم علی رضوی

حوزہ نیوز ایجنسی| دنیا بھر میں سیاست ہمیشہ سے ایک اہم شعبہ رہی ہے؛ اگر اسے خلوصِ نیت، عدل و انصاف اور خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت اپنایا جائے تو یہ ایک نہایت قابلِ تحسین عمل ہے اور بعض اوقات تو عبادت کا درجہ بھی حاصل کر لیتی ہے، لیکن جب سیاست کا مقصد اقتدار کی ہوس، ذاتی مفادات اور فرقہ واریت کو فروغ دینا ہو تو یہی سیاست فتنہ و فساد کا سبب بن جاتی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج کے دور میں بعض سیاستدان ملک کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ عوامی جذبات سے کھیل کر نفرتوں کا بازار گرم کرتے ہیں، لوگوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑکاتے ہیں، اور اپنی سیاسی روٹیاں سینکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی تمام تر کوشش کا مقصد اپنی سیاست کو زندہ رکھنا اور اقتدار کی کرسی کو محفوظ بنانا ہوتا ہے۔

ایک شاعر شاد عارفی نے اسی مفہوم کو دو مصروں میں بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ

ہمارے ہاں کی سیاست کا حال مت پوچھو

گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں

نفرت کی سیاست میں لسانی، مذہبی، مسلکی اور قومیتی تعصبات کو ہوا دی جاتی ہے۔ وقتی طور پر تو اس سے کچھ سیاستدانوں کو فائدہ حاصل ہو جاتا ہے، لیکن اس کے دور رس اثرات معاشرے میں بگاڑ، افراتفری اور انتہا پسندی کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ایسے سیاستدان محبت، بھائی چارے اور رواداری کے فروغ کے بجائے دوسروں کی تذلیل، کردار کشی اور نفرت انگیزی کو فروغ دیتے ہیں۔

کبھی مذہب کے نام پر، کبھی زبان کے نام پر، اور کبھی ذات و برادری کے نام پر عوام کو تقسیم کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان ہی انسان سے جدا ہوتا جا رہا ہے .

صابر دت نے اپنے شعر میں کہا تھا:

یہ کیسی سیاست ہے مرے ملک پہ حاوی

انسان کو انساں سے جدا دیکھ رہا ہوں

ایسے سیاستدانوں کی زبان زہر آلود ہوتی ہے، ان کے بیانات عوام کے دلوں میں شکوک، نفرت اور دشمنی پیدا کرتے ہیں۔ وہ ملک کی عوام کو باہم لڑا کر اپنی کرسی بچاتے ہیں اور ملک کو ترقی کی راہ سے ہٹا کر انتشار کی دلدل میں دھکیل دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسے سیاستدان ملک کے خیرخواہ نہیں بلکہ اس کے دشمن ہوتے ہیں۔

علامہ اقبالؒ نے ان حالات کی نہایت خوبصورتی سے نشاندہی کی تھی:

فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ ہم ایسے رہنماؤں کو کیوں منتخب کرتے ہیں جو ہمیں بانٹتے ہیں؟ کیوں ہم ان لیڈروں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو امن، محبت اور اتحاد کا پیغام دیتے ہیں؟

ایسی سیاست جمہوریت کی روح کے سراسر منافی ہے۔ جمہوریت عوامی آواز، برابری، اور اتحاد کا نام ہے، مگر نفرت انگیز سیاست جمہوریت کو کھوکھلا اور کمزور کرتی ہے۔ آج کے کچھ سیاسی رہنما عوامی اور سیاسی جلسوں اور سوشل میڈیا پر ایسے بیانات دیتے ہیں جو معاشرتی طبقات میں نفرت، تعصب اور اشتعال کا باعث بنتے ہیں۔ ان کی ایسی حرکتیں نہ صرف قانون شکنی کا سبب بنتی ہیں بلکہ ملک کی عالمی ساکھ کو بھی بری طرح متاثر کرتی ہیں۔

یاد رکھیں!

حکومت کسی بھی مذہب کو ماننے والوں کی ہو، وہ قائم رہ سکتی ہے، لیکن ظلم، ناانصافی اور نفرت پر مبنی نظام کبھی پنپ نہیں سکتا۔

ہمیں بحیثیت ہندوستانی ایسے سیاستدانوں کو پہچاننا ہوگا جو نفرت کے بیوپاری ہیں۔ ہمیں ان رہنماؤں کا ساتھ دینا چاہیے جو محبت، اتحاد اور ہم آہنگی کا پیغام دیتے ہیں۔

صحافت، تعلیم اور سوشل میڈیا کو بھی اپنا مثبت کردار ادا کرتے ہوئے نفرت انگیزی کی ہر شکل کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنا چاہیے۔

مذہبی رہنماؤں اور معاشرتی اداروں کو چاہیے کہ وہ محبت، بھائی چارے اور رواداری کو فروغ دیں، تاکہ ہمارا معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بن سکے۔

یہ نفرت کی سیاست وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے، لیکن بالآخر یہ قوموں کی بربادی اور ملک کی تباہی کا باعث بنتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے عناصر کو مکمل طور پر مسترد کر دیں جو نفرت اور انتشار پھیلا کر ذاتی مفاد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ہمیں ایسی سیاست کو پروان چڑھانا ہوگا جو دلوں کو جوڑتی ہو، جو بھائی چارے، محبت اور ترقی کی سیاست ہو۔

کیونکہ:

جہاں محبت بولتی ہے، وہاں نفرت خاموش ہو جاتی ہے۔

جگر مرادآبادی نے کہا تھا :-

ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں

میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے

اصل سیاستدان وہی ہوتے ہیں جو اختلاف کے باوجود اتحاد پیدا کرتے ہیں، نہ کہ انتشار اور تفرقہ۔

لہٰذا، میں اپنے ملک کے لوگوں سے اپیل کرتا ہوں کہ سیاستدانوں کی منفی سیاست کا شکار نہ ہوں۔ اپنے باہمی تعلقات کو مضبوط بنائیں، ملک کی "گنگا-جمنا تہذیب" اور آپسی بھائی چارے کو زندہ رکھیں، اور ہر طرح کے فتنہ و فساد سے دور رہیں۔

ہماری یکجہتی ہی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے جو ہمارے ملک کی ترقی کا سبب بنےگا ۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha