حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، غزہ: 25 سالہ فلسطینی فوٹوگرافر فاطمہ حسونہ، جو غزہ کی جنگ کی داستان کو اپنی تصویروں میں قید کر رہی تھیں، اسرائیلی بمباری میں شہید ہو گئیں۔ ان کے ساتھ ان کے خاندان کے 10 افراد بھی شہید ہو گئے۔ یہ المناک خبر اس وقت سامنے آئی جب چند گھنٹے قبل ہی ان کی زندگی پر بننے والی دستاویزی فلم " اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلو" کو کن فلم فیسٹیول میں شامل کیا گیا تھا۔
فاطمہ حسونہ گزشتہ ڈیڑھ سال سے غزہ میں جاری جنگ کے دوران نہ صرف بمباری اور تباہی کے مناظر کو قید کر رہی تھیں بلکہ وہاں کے لوگوں کی امید، جدوجہد اور زندگی کے لمحات کو بھی دنیا کے سامنے لا رہی تھیں۔ ان کے قریبی ساتھی محمد منعم نے ان کے بارے میں لکھا:
"اگر میں مروں، تو میری موت بلند ہونی چاہیے، میں صرف ایک فوری خبر نہیں بننا چاہتی، میں چاہتی ہوں کہ میرا کام زندہ رہے، میری تصویریں وقت کو مات دے دیں۔"
فاطمہ کو "غزہ کی آنکھ" کہا جاتا تھا، وہ زخمیوں کے قریب رہتی تھیں، درد کے قریب، اور ان کے کیمرے سے نکلنے والی ہر تصویر غزہ کی بقا کی گواہی بن جاتی تھی۔
فاطمہ کے کام کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا، ان کی تصاویر "گارڈین" جیسے معروف اخبار اور "غزہ، میری عزیز" جیسے عالمی نمائشوں میں پیش کی گئیں۔
فلسطین کی وزارت ثقافت نے ان کی شہادت پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے انہیں "ایک سچا فنکار، لکھاری اور فوٹوگرافر" قرار دیا اور کہا کہ وہ آخری لمحے تک میدان میں رہیں، اور اپنی تصویروں کے ذریعے دنیا کو غزہ کے عوام کی چیخیں اور تکلیف دکھاتی رہیں۔
فاطمہ کی شہادت نہ صرف ایک انسان کا نقصان ہے، بلکہ وہ ایک عہد کی کہانی تھیں جو اب تاریخ کا حصہ بن گئی ہے، اور ان کی تصویریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔









آپ کا تبصرہ