حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، 5 جمادی الاولی حضرت زینب سلام اللہ علیہا ولادت حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی مناسبت سے خطبۂ حضرت زینب (س) کی شان و عظمت میں آیت اللہ صافی گلپائیگانی (رح) کے تحریر کردہ متن کو حوزہ نیوز کے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ آیت اللہ صافی گلپائیگانی (رح) چند فارسی اشعار سے تحریر کو شروع کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بسم الله الرحمن الرحیم
آفتاب آسمان مجد و رحمت زینب است (آفتابِ آسمان گویا زینب کی عظمت و رحمت کا نمونہ ہے)
حامی توحید و قرآن و ولایت زینب است (زینب؛ توحید، قرآن اور ولایت کی حامی ہے)
درّ دریای فضیلت، عنصر شرم و عفاف (فضیلت کے سمندر کا دُر، شرم و حیا کا عنصر ہے)
قهرمان عرصه ی صبر و شهامت زینب است (صبر و حوصلے کے میدان کی فاتح زینب ہے)
در دمشق و کوفه با آن خطبه های آتشین (دمشق اور کوفہ میں ان شعلہ بیان خطبوں کے ساتھ)
آن که سوزانید بنیاد شقاوت زینب است (جس نے شقاوت کی بنیادوں کو جلا دیا، وہ زینب ہے)
حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا ایمان، بصیرت اور معرفت، جرأت و شجاعت، صداقت اور استقامت کا نمونہ وہ خاتون تھیں جس کے منہ میں اپنے باعظمت باپ کی زبانِ فصاحت و بلاغت موجود تھی اور اپنی مقدس ماں کے تمام اوصاف اور اخلاقی خوبیاں ان میں جمع تھیں۔
ان کی عملی زندگی، ان کی عصمت و عفت، ان کی عبادت و نیائش اور ان کی عظمت و بزرگی سب قابلِ احترام و افتخار ہیں۔
انہوں نے حقیقت میں اسلام، قرآن کریم اور اپنے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی کی پاسداری کی اور ہر کوئی ان کا احسان مند ہے۔ یہ تصور کرنا بھی بہت خوفناک لگتا ہے کہ اگر زینب سلام اللہ علیہا نہ ہوتیں تو تاریخ کو کیسے بدلا جا سکتا تھا!
اس تحریر میں ہم اس باعظمت بی بی (س) کی صرف ایک جہت کا تذکرہ کریں گے اور وہ ہے ان کا غیر معمولی اور منفرد خطبہ۔
سنت اور وعدہ الٰہی اور فلسفۂ تاریخ کے بارے میں سب سے عمدہ بیان حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے وہ بیانات ہیں جو انہوں نے یزید کی محفل میں ایک تاریخی اور منفرد خطبہ کی صورت میں پیش کئے ہیں۔
ایسی محفل میں جو نہایت ظالمانہ اور متکبرانہ پروگرام اور تقاریب کے ساتھ منعقد کی گئی تھی اور اس کی دہشت نے عام لوگوں کے دلوں کو دہلا کر رکھ دیا تھا اور انہیں بولنے کی صلاحیت تک سے محروم کر دیا تھا، وہاں یزید کی سرزنش کرنا اور اپنی مخالفت کا اظہار کرنا اور اس کی تحقیر و تذلیل کرنا اور اور اس کی حکومت کے خاتمہ اور خود اسے مجرم قرار دیتے ہوئے ہوئے سزا کا مستحق قرار دینا کہ جو اس وقت کے قانون کے مطابق فوری پھانسی کا خطرہ ہمراہ رکھتا تھا، ایک اسیر، غمزدہ اور مصیبت زدہ خاتون کی جانب سے یہ سب کچھ ہونا ان کے معجزات میں سے ایک تھا۔
ان کی فصاحت و بلاغت اور قرآن کریم سے الہام لینا، سنجیدہ اور موقعیت کے مطابق گفتگو سے یزید اور اس کے درباری چاپلوسوں کو متاثر کرنا، اسلام اور اہل بیت علیہم السلام کی عظمت و حقایت کو ثابت کرنا، ظالموں اور فاسقوں کو حقیر سمجھنا اور انہیں ان کے مستقبل کی خبریں دینا اور یزیدی نظام کے متلاشی ہونے کے بارے میں بتانا کہ جس سے ہر معاشرہ شناس اور ماہر نفسیات حیران رہ جائے، یہ سب بھی ان کے معجزات میں سے ایک ہے۔
اگر کسی کو اس معجزے پر شک و تردید ہو تو ہم اسے تجویز کرتے ہیں اور تمام بلغاء اور ماہر خطباء سے بھی تقاضا کرتے ہیں کہ وہ آئیں اور عقیلۂ قریش سلام اللہ علیہا کے اس تاریخی خطبہ اور ان کے بیانات سے زیادہ مؤثر، فیصلہ کن، مذمتی بیان اور اس مجلس کے ساتھ مناسب مؤقف کو پیش کریں۔ الحق و الانصاف کہ یہ خطبہ اہل بیت اطہار علیہم السلام کی جلالت، حقانیت، فضیلت اور عظمت کی روشن نشانیوں میں سے ایک ہے۔
اس خطبہ میں حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے قانون، سنت اور خدا کے ناقابلِ انکار وعدے کو بیان کیا ہے اور جب ظاہرا ان کا سب کچھ ختم ہو گیا تھا اور انہیں انتہائی مایوسی اور ناامیدی کے ساتھ حکمرانِ وقت اور موجودہ اوضاع کے سامنے سر تسلیم خم کر لینا تھا اور یزید نے بھی اس وقت کے حالات کو اپنے کنٹرول میں لے لیا تھا اور انتہائی ظلم و جبر سے حکومت کر رہا تھا، اس وقت آپ سلام اللہ علیہا نے حق اور گروہِ حقہ کے حامیوں اور اہل بیت علیہم السلام کے شیعوں کو مایوسی اور ناامیدی سے نجات دی اور اہل بیت علیہم السلام اور ان کے اہداف و مقاصد کو غلبہ اور فتح کے حامل اور اموی اور ان کی غلامی کرنے والی جماعت کو شکست سے دچار معرفی کیا اور اس طرح سے اعلان کرتے ہوئے کہا: اہلِ حق کی شان و کرامت میں کوئی کمی نہیں آئی اور اہل باطل میں کچھ اضافہ نہیں ہو گا اور یزید جتنی بھی کوشش کرتا رہے اور اہل حق کو مارنے اور تباہ کرنے کی تلاش کرے اور اسلام اور انقلاب اسلام کے سامنے جتنا اپنے کینے اور نفاق سے یا اپنے ظلم سے اسے روکتا رہے اور اپنے تئیں نورِ خدا کو بجھانےمیں لگا رہے لیکن (وہ اپنی مذموم کوششوں میں کامیاب نہیں ہو گا اور ) اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔
جی ہاں، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کو اسلام کے روشن مستقبل اور اہل بیت علیہم السلام اور اپنے بھائی حسین علیہ السلام کی تحریک کی کامیابی پر 100 فیصد یقین تھا۔ وہ جانتی تھیں کہ ان کے بھائی نے جو راستہ اختیار کیا وہی خدا کا راستہ اور حق و سچائی کا راستہ ہے۔
11 محرم الحرام کو کربلا میں جب آپ سلام اللہ علیہا کو اسیر کر کے کوفہ لے جایا جا رہا تھا اور شہداءِ راہِ حق کی مقدّس لاشیں زمین پر پڑی تھیں تو آپ سلام اللہ علیہا نے اس وقت بھی یہی خبر دی تھی اور مستقبل کو دیکھ رہی تھیں۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا نے اپنی محکم اور مضبوط منطق سے یزید کی محفل کو اپنے قبضہ میں لیا اور یزید کو اس طرح تاریخ کی عدالت میں محکوم کیا کہ یزید حتی ایک لفظ بھی اپنا دفاع نہ کرسکا، یا یہ کہ جناب زینب سلام اللہ علیہا نے یزید کو اس طرح شکست دی کہ وہ حتی اپنے غصہ اور خشم کو کسی اور ظلم کی انجام دہی سے ٹھنڈا کرنے کے بھی قابل نہ رہا۔
اب ہم یہاں اس باعظمت خطبہ میں سے بعض کو بیان کرتے ہیں اور اس کے حیات بخش اور بصیرت افروز مطالب سے مستفید ہوتے ہیں:
أظَنَنتَ یا یَزیدُ حینَ أخَذتَ عَلَینا أقطارَ الأَرضِ، و ضَیَّقتَ عَلَینا آفاقَ السَّماءِ، فَأَصبَحنا لَکَ فی إسارِ الذُّلِّ، نُساقُ إلَیکَ سَوقاً فی قِطارٍ، وأنتَ عَلَینا ذُو اقتِدارٍ، أنَّ بِنا مِنَ اللهِ هَواناً وعَلَیکَ مِنهُ کَرامَةً وَامتِناناً، وأنَّ ذلِکَ لِعِظَمِ خَطَرِکَ، وجَلالَةِ قَدرِکَ، فَشَمَختَ بِأَنفِکَ، ونَظَرتَ فی عِطفِکَ، تَضرِبُ أصدَرَیکَ فَرِحاً و تَنفُضُ مِذرَوَیکَ مَرِحاً، حینَ رَأَیتَ الدُّنیا لَکَ مُستَوسِقَةً، وَالاُمورَ لَدَیکَ مُتَّسِقَةً، و حینَ صَفا لَکَ مُلکُنا، وخَلَصَ لَکَ سُلطانُنا؟!
فَمَهلاً مَهلاً لا تَطِش جَهلاً! أنَسیتَ قَولَ اللهِ عزّ وجلّ: «وَلَا یَحْسَبَنَّ الَّذِینَ کَفَرُواْ أَنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ خَیْرٌ لِاَّنفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِی لَهُمْ لِیَزْدَادُواْ إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِینٌ.»
غرض یہ ہے کہ آج کی دنیا میں تمام مرد و خواتین حضرات کو حضرت زینب کبری سلام اللہ علیہا کے مکتب اور ان کی سیرت و حیات کے پیغامات سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
امید ہے کہ مسلمان خواتین اپنی زندگی کے لئے آپ سلام اللہ علیہا کی سیرت کو نمونہ قرار دیتے ہوئے اس عظیم اسوہ اور نومہ پر افتخار کریں گی اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے عظیم اور معنوی پیغامات کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی۔